حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وصیت کی ہے کہ جو سونا چاندی مہر بند کر کے رکھا جائے وہ اس کے مالک کے حق میں آگ کی چنگاری ہے تاوقتیکہ اسے اللہ کے راستہ میں خرچ نہ کردے۔
حدثنا يزيد ، عن عبد الله بن المؤمل ، عن قيس بن سعد ، عن مجاهد ، عن ابي ذر ، انه اخذ بحلقة باب الكعبة، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا صلاة بعد العصر حتى تغرب الشمس، ولا بعد الفجر حتى تطلع الشمس إلا بمكة إلا بمكة" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُؤَمَّلِ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنَّهُ أَخَذَ بِحَلْقَةِ بَابِ الْكَعْبَةِ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَلَا بَعْدَ الْفَجْرِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ إِلَّا بِمَكَّةَ إِلَّا بِمَكَّةَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ باب کعبہ کا حلقہ پکڑ کر کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک کوئی نماز نہیں ہے اور نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک کوئی نماز نہیں ہے سوائے مکہ مکرمہ کے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: إلا بمكة، و يمكن أن يشهد لهذ الحرف حديث جبير بن مطعم، وحديث أبى ذر هذا إسناده ضعيف لضعف عبدالله بن مؤمل، ومجاهد لم يسمع من أبى ذر
حدثنا روح ، وهاشم ، قالا: حدثنا سليمان بن المغيرة ، حدثنا حميد بن هلال ، قال هاشم، عن حميد، عن عبد الله بن الصامت ، قال: قال ابو ذر : قلت: يا رسول الله، الرجل يحب القوم ولا يستطيع ان يعمل كعملهم؟ قال: " انت يا ابا ذر مع من احببت"، قلت: فإني احب الله ورسوله، قال:" فانت يا ابا ذر مع من احببت"، قال هاشم، قالها له: ثلاث مرات" انت مع من احببت" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، وَهَاشِمٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، قَالَ هَاشِمٌ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ : قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الرَّجُلُ يُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَعْمَلَ كَعَمَلِهِمْ؟ قَالَ: " أَنْتَ يَا أَبَا ذَرٍّ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ"، قُلْتُ: فَإِنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، قَالَ:" فَأَنْتَ يَا أَبَا ذَرٍّ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ"، قَالَ هَاشِمٌ، قَالَهَا لَهُ: ثَلَاثَ مَرَّاتٍ" أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! ایک آدمی کسی قوم سے محبت کرتا ہے لیکن ان جیسے اعمال نہیں کرسکتا اس کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر رضی اللہ عنہ تم جس کے ساتھ محبت کرتے ہو اسی کے ساتھ ہوگے میں نے عرض کیا کہ پھر میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں یہ جملہ انہوں نے ایک نہیں تین مرتبہ دہرایا۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سے جو شخص اس حال میں فوت ہو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں داخل ہوگا۔
حدثنا عبد الصمد ، حدثني ابي ، حدثنا حسين يعني المعلم ، عن ابن بريدة ، حدثني يحيى بن يعمر ، ان ابا الاسود حدثه، عن ابي ذر ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ليس من رجل ادعى لغير ابيه وهو يعلمه إلا كفر، ومن ادعى ما ليس له، فليس منا، وليتبوا مقعده من النار، ومن دعا رجلا بالكفر، او قال: عدو الله، وليس كذاك إلا حار عليه" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ يَعْنِي الْمُعَلِّمَ ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَعْمَرَ ، أَنَّ أَبَا الْأَسْوَدِ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَيْسَ مِنْ رَجُلٍ ادَّعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَمُهُ إِلَّا كَفَرَ، وَمَنْ ادَّعَى مَا لَيْسَ لَهُ، فَلَيْسَ مِنَّا، وَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ، وَمَنْ دَعَا رَجُلًا بِالْكُفْرِ، أَوْ قَالَ: عَدُوُّ اللَّهِ، وَلَيْسَ كَذَاكَ إِلَّا حَارَ عَلَيْهِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص بھی جان بوجھ کر اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنے نسب کی نسبت کرتا ہے وہ کفر کرتا ہے اور جو شخص کسی ایسی چیز کا دعویٰ کرتا ہے جو اس کی ملکیت میں نہ ہو تو وہ ہم میں سے نہیں ہے اور اسے چاہئے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے اور جو شخص کسی کو کافر کہہ کر یا دشمن اللہ کہہ کر پکارتا ہے حالانکہ وہ ایسا نہ ہو تو وہ پلٹ کر کہنے والے پر جا پڑتا ہے۔
حدثنا عبد الصمد ، حدثني ابي ، حدثنا حسين ، عن ابن بريدة ، ان يحيى بن يعمر حدثه، ان ابا الاسود الديلي حدثه، ان ابا ذر ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليه ثوب ابيض، فإذا هو نائم، ثم اتيته احدثه فإذا هو نائم، ثم اتيته وقد استيقظ فجلست إليه، فقال: " ما من عبد قال: لا إله إلا الله، ثم مات على ذلك إلا دخل الجنة"، قلت: وإن زنى وإن سرق؟! قال:" وإن زنى وإن سرق"، قلت: وإن زنى وإن سرق؟! قال:" وإن زنى وإن سرق" ثلاثا، ثم قال في الرابعة:" على رغم انف ابي ذر"، قال: فخرج ابو ذر يجر إزاره وهو يقول وإن رغم انف ابي ذر، قال: فكان ابو ذر يحدث بهذا بعد، ويقول: وإن رغم انف ابي ذر .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، أَنَّ يَحْيَى بْنَ يَعْمَرَ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا الْأَسْوَدِ الدِّيْلِيَّ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ ثَوْبٌ أَبْيَضُ، فَإِذَا هُوَ نَائِمٌ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ أُحَدِّثُهُ فَإِذَا هُوَ نَائِمٌ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ وَقَدْ اسْتَيْقَظَ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: " مَا مِنْ عَبْدٍ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، ثُمَّ مَاتَ عَلَى ذَلِكَ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ"، قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟! قَالَ:" وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ"، قُلْتُ: وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ؟! قَالَ:" وَإِنْ زَنَى وَإِنْ سَرَقَ" ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ فِي الرَّابِعَةِ:" عَلَى رَغْمِ أَنْفِ أَبِي ذَرٍّ"، قَالَ: فَخَرَجَ أَبُو ذَرٍّ يَجُرُّ إِزَارَهُ وَهُوَ يَقُولُ وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: فَكَانَ أَبُو ذَرٍّ يُحَدِّثُ بِهَذَا بَعْدُ، وَيَقُولُ: وَإِنْ رَغِمَ أَنْفُ أَبِي ذَرٍّ .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے وہاں پہنچا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سور رہے تھے دوبارہ حاضر ہوا تب بھی سو رہے تھے تیسری مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جاگ چکے تھے چنانچہ میں ان کے پاس بیٹھ گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بندہ بھی لا الہ اللہ کا اقرار کرے اور اسی اقرار پر دنیا سے رخصت ہو تو وہ جنت میں داخل ہوگا میں نے پوچھا اگرچہ وہ بدکاری اور چوری کرتا پھرے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! اگرچہ وہ بدکاری اور چوری ہی کرے یہ سوال جواب تین مرتبہ ہوئے چوتھی مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! اگرچہ ابوذر کی ناک خاک آلود ہوجائے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ یہ سن کر چادر گھیسٹتے ہوئے یہی جملہ دہراتے ہوئے نکل گئے اور جب بھی ہی حدیث بیان کرتے تو یہ جملہ ضرور دہراتے " اگرچہ ابوذر کی ناک خاک آلود ہوجائے۔ "
حدثنا عفان ، حدثنا وهيب ، حدثنا عبد الله بن عثمان بن خثيم ، عن مجاهد ، عن إبراهيم يعني ابن الاشتر ، ان ابا ذر حضره الموت وهو بالربذة فبكت امراته، فقال: ما يبكيك؟ قالت: ابكي، انه لا يد لي بنفسك، وليس عندي ثوب يسعك كفنا، فقال: لا تبكي، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم وانا عنده في نفر، يقول: " ليموتن رجل منكم بفلاة من الارض، يشهده عصابة من المؤمنين"، قال: فكل من كان معي في ذلك المجلس مات في جماعة وفرقة، فلم يبق منهم غيري، وقد اصبحت بالفلاة اموت، فراقبي الطريق فإنك سوف ترين ما اقول، فإني والله ما كذبت ولا كذبت، قالت: وانى ذلك وقد انقطع الحاج؟ قال: راقبي الطريق، قال: فبينا هي كذلك إذا هي بالقوم تخد بهم رواحلهم كانهم الرخم، فاقبل القوم حتى وقفوا عليها فقالوا: ما لك؟ قالت: امرؤ من المسلمين تكفنونه وتؤجرون فيه! قالوا: ومن هو؟ قالت: ابو ذر، ففدوه بآبائهم وامهاتهم، ووضعوا سياطهم في نحورها يبتدرونه، فقال: ابشروا، انتم النفر الذين، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيكم ما قال، ابشروا، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" ما من امراين مسلمين هلك بينهما ولدان او ثلاثة فاحتسبا وصبرا فيريان النار ابدا" ثم قد اصبحت اليوم حيث ترون ولو ان ثوبا من ثيابي يسعني، لم اكفن إلا فيه، فانشدكم الله ان لا يكفنني رجل منكم كان اميرا او عريفا او بريدا، فكل القوم كان قد نال من ذلك شيئا إلا فتى من الانصار كان مع القوم، قال: انا صاحبك، ثوبان في عيبتي من غزل امي، واحد ثوبي هذين اللذين علي، قال: انت صاحبي فكفني" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ يَعْنِي ابْنَ الْأَشْتَرِ ، أَنَّ أَبَا ذَرٍّ حَضَرَهُ الْمَوْتُ وَهُوَ بِالرَّبَذَةِ فَبَكَتْ امْرَأَتُهُ، فَقَالَ: مَا يُبْكِيكِ؟ قَالَتْ: أَبْكِي، أَنَّهُ لَا يَدَ لِي بِنَفْسِكَ، وَلَيْسَ عِنْدِي ثَوْبٌ يَسَعُكَ كَفَنًا، فَقَالَ: لَا تَبْكِي، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ وَأَنَا عِنْدَهُ فِي نَفَرٍ، يَقُولُ: " لَيَمُوتَنَّ رَجُلٌ مِنْكُمْ بِفَلَاةٍ مِنَ الْأَرْضِ، يَشْهَدُهُ عِصَابَةٌ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ"، قَالَ: فَكُلُّ مَنْ كَانَ مَعِي فِي ذَلِكَ الْمَجْلِسِ مَاتَ فِي جَمَاعَةٍ وَفُرْقَةٍ، فَلَمْ يَبْقَ مِنْهُمْ غَيْرِي، وَقَدْ أَصْبَحْتُ بِالْفَلَاةِ أَمُوتُ، فَرَاقِبِي الطَّرِيقَ فَإِنَّكِ سَوْفَ تَرَيْنَ مَا أَقُولُ، فَإِنِّي وَاللَّهِ مَا كَذَبْتُ وَلَا كُذِبْتُ، قَالَتْ: وَأَنَّى ذَلِكَ وَقَدْ انْقَطَعَ الْحَاجُّ؟ قَالَ: رَاقِبِي الطَّرِيقَ، قَالَ: فَبَيْنَا هِيَ كَذَلِكَ إِذَا هِيَ بِالْقَوْمِ تَخُدُّ بِهِمْ رَوَاحِلُهُمْ كَأَنَّهُمْ الرَّخَمُ، فَأَقْبَلَ الْقَوْمُ حَتَّى وَقَفُوا عَلَيْهَا فَقَالُوا: مَا لَكِ؟ قَالَتْ: امْرُؤٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ تُكَفِّنُونَهُ وَتُؤْجَرُونَ فِيهِ! قَالُوا: وَمَنْ هُوَ؟ قَالَتْ: أَبُو ذَرٍّ، فَفَدَوْهُ بِآبَائِهِمْ وَأُمَّهَاتِهِمْ، وَوَضَعُوا سِيَاطَهُمْ فِي نُحُورِهَا يَبْتَدِرُونَهُ، فَقَالَ: أَبْشِرُوا، أَنْتُمْ النَّفَرُ الَّذِينَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ مَا قَالَ، أَبْشِرُوا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَا مِنَ امْرَأَيْنِ مُسْلِمَيْنِ هَلَكَ بَيْنَهُمَا وَلَدَانِ أَوْ ثَلَاثَةٌ فَاحْتَسَبَا وَصَبَرَا فَيَرَيَانِ النَّارَ أَبَدًا" ثُمَّ قَدْ أَصْبَحْتُ الْيَوْمَ حَيْثُ تَرَوْنَ وَلَوْ أَنَّ ثَوْبًا مِنْ ثِيَابِي يَسَعُنِي، لَمْ أُكَفَّنْ إِلَّا فِيهِ، فَأَنْشُدُكُمْ اللَّهَ أَنْ لَا يُكَفِّنَنِي رَجُلٌ مِنْكُمْ كَانَ أَمِيرًا أَوْ عَرِيفًا أَوْ بَرِيدًا، فَكُلُّ الْقَوْمِ كَانَ قَدْ نَالَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا إِلَّا فَتًى مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَ مَعَ الْقَوْمِ، قَالَ: أَنَا صَاحِبُكَ، ثَوْبَانِ فِي عَيْبَتِي مِنْ غَزْلِ أُمِّي، وَأَحِدُ ثَوْبَيَّ هَذَيْنِ اللَّذَيْنِ عَلَيَّ، قَالَ: أَنْتَ صَاحِبِي فَكَفِّنِّي" .
حضرت ام ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو میں رونے لگی انہوں نے پوچھا کہ کیوں روتی ہو؟ میں نے کہا روؤں کیوں نہ؟ جبکہ آپ ایک جنگل میں اس طرح جان دے رہے ہیں کہ میرے پاس آپ کو دفن کرنے کا بھی کوئی سبب نہیں ہے اور نہ ہی اتنا کپڑا ہے جس میں آپ کو کفن دے سکوں، انہوں نے فرمایا تم مت رو اور خوشخبری سنو کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو آدمی دو یا تین مسلمان بچوں کے درمیان فوت ہوتا ہے اور وہ ثواب کی نیت سے اپنے بچوں کی وفات پر صبر کرتا ہے تو وہ جہنم کی آگ کبھی نہیں دیکھے گا۔
اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے ایک آدمی ضرور کسی جنگل میں فوت ہوگا جس کے پاس مؤمنین کی ایک جماعت حاضر ہوگی اب ان لوگوں میں سے تو ہر ایک کا انتقال کسی نہ کسی شہر یا جماعت میں ہوا ہے اور میں ہی وہ آدمی ہوں جو جنگل میں فوت ہو رہا ہے واللہ نہ میں جھوٹ بول رہا ہوں اور نہ مجھ سے جھوٹ بولا گیا ہے۔
ان کی بیوی نے کہا کہ اب تو حجاج کرام بھی واپس چلے گئے اب کون آئے گا؟ انہوں نے فرمایا تم راستے کا خیال رکھو ابھی وہ یہ گفتگو کر رہی تھیں کہ انہیں کچھ لوگ نظر آئے جو اپنی سواریوں کو سرپٹ دوڑاتے ہوئے چلے آرہے تھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے گدھ تیزی سے آتے ہیں وہ لوگ اس کے قریب پہنچ کر رک گئے اور اس سے پوچھا کہ تمہارا کیا مسئلہ ہے؟ (جو یوں راستے میں کھڑی ہو) اس نے بتایا کہ یہاں ایک مسلمان آدمی ہے اس کے کفن دفن کا انتطام کردو تمہیں اس کا بڑا ثواب ملے گا انہوں نے پوچھا وہ کون ہے؟ اس نے بتایا کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ ہیں انہوں نے اپنے ماں باپ کو ان پر قربان کیا اپنے کوڑے جانوروں کے سینوں پر رکھے اور تیزی سے چلے۔
وہاں پہنچے تو حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہیں خوشخبری ہو کہ تم ہی وہ لوگ ہو جن کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا خوشخبری ہو کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جن دو مسلمان مرد و عورت کے دو یا تین بچے فوت ہوجائیں اور وہ دونوں اس پر ثواب کی نیت سے صبر کریں تو وہ جہنم کو کبھی نہیں دیکھیں گے اب آج جو میری حالت ہے وہ تمہارے سامنے ہے اگر میرے کپڑوں میں سے کوئی کپڑا ایسا مل جائے جو مجھے پورا آجائے تو مجھے اسی میں کفن دیا جائے اور میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ مجھے تم سے کوئی ایسا آدمی کفن نہ دے جو امیر ہو، یا چوہدری ہو، یا ڈا کیا ہو، اب ان لوگوں میں سے ہر ایک میں ان میں سے کوئی نہ کوئی چیز ضرور پائی جاتی تھی صرف ایک انصاری نوجوان تھا جو لوگوں کے ساتھ آیا ہوا تھا اس نے کہا کہ میں آپ کو کفن دوں گا میرے پاس دو کپڑے ہیں جو میری والدہ نے بنے تھے ان میں سے ایک میرے جسم پر بھی ہے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم ہی میرے ساتھی ہو لہٰذا تم ہی مجھے کفن دینا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد منطقع، إبراهيم بن الأشتر لم يسمع من أبى ذر
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، قال: سمعت إبراهيم التيمي يحدث، عن ابيه ، عن ابي ذر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه ساله عن اول مسجد وضع للناس، قال: " المسجد الحرام ثم بيت المقدس" فسئل كم بينهما؟ قال:" اربعون عاما، وحيثما ادركتك الصلاة فصل فثم مسجد" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ سَأَلَهُ عَنْ أَوَّلِ مَسْجِدٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ، قَالَ: " الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ ثُمَّ بَيْتُ الْمَقْدِسِ" فَسُئِلَ كَمْ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ:" أَرْبَعُونَ عَامًا، وَحَيْثُمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ فَصَلِّ فَثَمَّ مَسْجِدٌ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلی مسجد کون سی بنائی گئی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسجد حرام، میں نے پوچھا پھر کون سی؟ فرمایا مسجد اقصیٰ میں نے پوچھا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا وفقہ تھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چالیس سال میں نے پوچھا پھر کون سی مسجد؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تمہیں جہاں بھی نماز مل جائے وہیں پڑھ لو کیونکہ روئے زمین مسجد ہے۔
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن الاعمش ، عن عمرو بن مرة ، عن ابي البختري ، عن ابي ذر ، قال: قيل للنبي صلى الله عليه وسلم ذهب اهل الاموال بالاجر! فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إن فيك صدقة كثيرة" فذكر فضل سمعك، وفضل بصرك، قال:" وفي مباضعتك اهلك صدقة"، فقال ابو ذر: ايؤجر احدنا في شهوته؟ قال:" ارايت لو وضعته في غير حل اكان عليك وزر؟" قال: نعم، قال:" افتحتسبون بالشر ولا تحتسبون بالخير" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَهَبَ أَهْلُ الْأَمْوَالِ بِالْأَجْرِ! فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ فِيكَ صَدَقَةً كَثِيرَةً" فَذَكَرَ فَضْلَ سَمْعِكَ، وَفَضْلَ بَصَرِكَ، قَالَ:" وَفِي مُبَاضَعَتِكَ أَهْلَكَ صَدَقَةٌ"، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: أَيُؤْجَرُ أَحَدُنَا فِي شَهْوَتِهِ؟ قَالَ:" أَرَأَيْتَ لَوْ وَضَعْتَهُ فِي غَيْرِ حِلٍّ أَكَانَ عَلَيْكَ وِزْرٌ؟" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" أَفَتَحْتَسِبُونَ بِالشَّرِّ وَلَا تَحْتَسِبُونَ بِالْخَيْرِ" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! سارا اجروثواب تو مالدار لوگ لے گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ تو تم بھی کرسکتے ہو، راستے سے کسی ہڈی کو اٹھا دینا صدقہ ہے کسی کو راستہ بتادینا صدقہ ہے اپنی طاقت سے کسی کمزور کی مدد کرنا صدقہ ہے زبان میں لکنت والے آدمی کے کلام کی وضاحت کر دینا صدقہ ہے اور اپنی بیوی سے مباشرت کرنا بھی صدقہ ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہمیں اپنی " خواہش " پوری کرنے پر بھی ثواب ملتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بتاؤ کہ اگر یہ کام تم حرام طریقے سے کرتے تو تمہیں گناہ ہوتا یا نہیں؟ میں نے عرض کیا جی ہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم گناہ کو شمار کرتے ہو نیکی کو شمار نہیں کرتے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1006، وسنده منقطع، أبو البختري لم يدرك أبا ذر
حدثنا عفان ، حدثنا ابو الاشهب ، حدثنا خليد العصري ، قال ابو جري: اين لقيت خليدا؟ قال: لا ادري عن الاحنف بن قيس ، قال: كنت قاعدا مع اناس من قريش إذ جاء ابو ذر حتى كان قريبا منهم، قال: " ليبشر الكنازون بكي من قبل ظهورهم يخرج من قبل بطونهم، وبكي من قبل اقفائهم يخرج من جباههم، قال: ثم تنحى فقعد، قال: فقلت: من هذا؟ قالوا: ابو ذر، قال: فقمت إليه، فقلت: ما شيء سمعتك تنادي به؟ قال: ما قلت لهم: شيئا إلا شيئا قد سمعوه من نبيهم صلى الله عليه وسلم، قال: قلت له: ما تقول في هذا العطاء؟ قال: خذه، فإن فيه اليوم معونة، فإذا كان ثمنا لدينك فدعه" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَشْهَبِ ، حَدَّثَنَا خُلَيْدٌ الْعَصَرِيُّ ، قَالَ أَبُو جُرَيٍّ: أَيْنَ لَقِيتَ خُلَيْدًا؟ قَالَ: لَا أَدْرِي عَنِ الْأَحْنَفِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: كُنْتُ قَاعِدًا مَعَ أُنَاسٍ مِنْ قُرَيْشٍ إِذْ جَاءَ أَبُو ذَرٍّ حَتَّى كَانَ قَرِيبًا مِنْهُمْ، قَالَ: " لِيُبَشَّرْ الْكَنَّازُونَ بِكَيٍّ مِنْ قِبَلِ ظُهُورِهِمْ يَخْرُجُ مِنْ قِبَلِ بُطُونِهِمْ، وَبِكَيٍّ مِنْ قِبَلِ أَقْفَائِهِمْ يَخْرُجُ مِنْ جِبَاهِهِمْ، قَالَ: ثُمَّ تَنَحَّى فَقَعَدَ، قَالَ: فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: أَبُو ذَرٍّ، قَالَ: فَقُمْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: مَا شَيْءٌ سَمِعْتُكَ تُنَادِي بِهِ؟ قَالَ: مَا قُلْتُ لَهُمْ: شَيْئًا إِلَّا شَيْئًا قَدْ سَمِعُوهُ مِنْ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: مَا تَقُولُ فِي هَذَا الْعَطَاءِ؟ قَالَ: خُذْهُ، فَإِنَّ فِيهِ الْيَوْمَ مَعُونَةً، فَإِذَا كَانَ ثَمَنًا لِدِينِكَ فَدَعْهُ" .
حنف بن قیس رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ میں حاضر ہوا میں ایک حلقے میں " جس میں قریش کے کچھ لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے " شریک تھا کہ ایک آدمی آیا (اس نے ان کے قریب آکر کہا کہ مال و دولت جمع کرنے والوں کو خوشخبری ہو اس داغ کی جو ان کی پشت کی طرف سے داغا جائے گا اور ان کے پیٹ سے نکل جائے گا اور گدی کی جانب سے ایک داغ کی جو ان کی پیشانی سے نکل جائے گا پھر وہ ایک طرف چلا گیا میں اس کے پیچھے چل پڑا یہاں تک کہ وہ ایک ستون کے قریب جا کر بیٹھ گیا میں نے اس سے کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ لوگ آپ کی بات سے خوش نہیں ہوئے؟ انہوں نے کہا کہ میں تو ان سے وہی کہتا ہوں جو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے میں نے ان سے پوچھا کہ آپ اس وظیفے کے متعلق کیا فرماتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا لے لیا کرو کیونکہ آج کل اس سے بہت سے کاموں میں مدد مل جاتی ہے اگر وہ تمہارے قرض کی قیمت ہو تو اسے چھوڑ دو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 1407، م: 992، وهذا إسناد حسن