حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کے حق میں تین آدمی گواہی دیں اس کے لئے جنت واجب ہوگئی حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! اگر دو ہوں تو؟ فرمایا دو ہوں تب بھی یہی حکم ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو رملة مجهول، وعبيد الله بن مسلم لا يعرف ، وفي إثبات صحبته نظر
قال: قرات على عبد الرحمن بن مهدي , حدثنا مالك , عن ابي الزبير المكي , عن ابي الطفيل عامر بن واثلة , ان معاذا اخبره , انهم خرجوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام تبوك , فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجمع بين الظهر والعصر , والمغرب والعشاء , قال واخر الصلاة , ثم خرج فصلى الظهر والعصر جميعا , , ثم دخل , ثم خرج فصلى المغرب والعشاء جميعا , ثم قال: " إنكم ستاتون غدا إن شاء الله عين تبوك , وإنكم لن تاتوا بها حتى يضحى النهار , فمن جاء فلا يمس من مائها شيئا حتى آتي" , فجئنا وقد سبقنا إليها رجلان , والعين مثل الشراك تبض بشيء من ماء , فسالهما رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هل مسستما من مائها شيئا؟" , فقالا: نعم , فسبهما رسول الله صلى الله عليه وسلم , وقال لهما ما شاء الله ان يقول , ثم غرفوا بايديهم من العين قليلا قليلا , حتى اجتمع في شيء , ثم غسل رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه وجهه ثم اعاده فيها , فجرت العين بماء كثير , فاستقى الناس , ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يوشك يا معاذ إن طالت بك حياة ان ترى ماء هاهنا قد ملئ جنانا" ..قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ , حَدَّثَنَا مَالِكٌ , عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ الْمَكِّيِّ , عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ , أَنَّ مُعَاذًا أَخْبَرَهُ , أَنَّهُمْ خَرَجُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ تَبُوكَ , فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْمَعُ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ , وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ , قَالَ وَأَخَّرَ الصَّلَاةَ , ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا , , ثُمَّ دَخَلَ , ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ جَمِيعًا , ثُمَّ قَالَ: " إِنَّكُمْ سَتَأْتُونَ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ عَيْنَ تَبُوكَ , وَإِنَّكُمْ لَنْ تَأْتُوا بِهَا حَتَّى يَضْحَى النَّهَارُ , فَمَنْ جَاءَ فَلَا يَمَسَّ مِنْ مَائِهَا شَيْئًا حَتَّى آتِيَ" , فَجِئْنَا وَقَدْ سَبَقَنَا إِلَيْهَا رَجُلَانِ , وَالْعَيْنُ مِثْلُ الشِّرَاكِ تَبِضُّ بِشَيْءٍ مِنْ مَاءٍ , فَسَأَلَهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ مَسِسْتُمَا مِنْ مَائِهَا شَيْئًا؟" , فَقَالَا: نَعَمْ , فَسَبَّهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَقَالَ لَهُمَا مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ , ثُمَّ غَرَفُوا بِأَيْدِيهِمْ مِنَ الْعَيْنِ قَلِيلًا قَلِيلًا , حَتَّى اجْتَمَعَ فِي شَيْءٍ , ثُمَّ غَسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ وَجْهَهُ ثُمَّ أَعَادَهُ فِيهَا , فَجَرَتْ الْعَيْنُ بِمَاءٍ كَثِيرٍ , فَاسْتَقَى النَّاسُ , ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُوشِكُ يَا مُعَاذُ إِنْ طَالَتْ بِكَ حَيَاةٌ أَنْ تَرَى مَاءً هَاهُنَا قَدْ ملئَ جِنَانًا" ..
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ تبوک کے موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء اکٹھی پڑھا دیتے تھے اور واپس پہنچ جاتے پھر اسی طرح مغرب اور عشاء کی نماز بھی پڑھا دیتے ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان شاء اللہ کل تم چشمہ تبوک پر پہنچ جاؤ گے اور جس وقت تم وہاں پہنچو گے تو دن نکلا ہوا ہوگا جو شخص اس چشمے پر پہنچے وہ میرے آنے تک اس کے پانی کو ہاتھ نہ لگائے۔ چنانچہ جب ہم وہاں پہنچے تو دو آدمی ہم سے پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے اس چشمے میں تسمے کی مانند تھوڑا سا پانی رس رہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پوچھا کیا تم دونوں نے اس پانی کو چھوا ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سخت سست کہا اور جو اللہ کو منظور ہوا، وہ کہا پھر لوگوں نے ہاتھوں کے چلو بنا کر تھوڑا تھوڑا کر کے اس میں سے اتنا پانی نکالا کہ وہ ایک برتن میں اکٹھا ہوگیا جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپناچہرہ اور مبارک ہاتھ دھوئے، پھر وہ پانی اسی چشمے میں ڈال دیا دیکھتے ہی دیکھتے چشمے میں پانی بھر گیا اور سب لوگ اس سے سیراب ہوگئے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے معاذ! ہوسکتا ہے کہ تمہاری زندگی لمبی ہو اور تم اس جگہ کو باغات سے بھرا ہوا دیکھو۔
حدثنا حدثنا حدثنا حدثنا علي بن إسحاق , اخبرنا عبد الله , اخبرنا يحيى بن ايوب , ان عبيد الله بن زحر حدثه , عن خالد بن ابي عمران , عن ابي عياش , قال: قال معاذ بن جبل : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن شئتم انباتكم ما اول ما يقول الله عز وجل للمؤمنين يوم القيامة , وما اول ما يقولون له؟" , قلنا: نعم يا رسول الله , قال:" إن الله عز وجل يقول للمؤمنين: هل احببتم لقائي؟ فيقولون: نعم يا ربنا , فيقول: لم؟ فيقولون: رجونا عفوك , ومغفرتك , فيقول: قد وجبت لكم مغفرتي" .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ , أخبرَنَا عَبْدُ اللَّهِ , أخبرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ , أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ زَحْرٍ حَدَّثَهُ , عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ , عَنْ أَبِي عَيَّاشٍ , قَالَ: قَالَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنْ شِئْتُمْ أَنْبَأْتُكُمْ مَا أَوَّلُ مَا يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , وَمَا أَوَّلُ مَا يَقُولُونَ لَهُ؟" , قُلْنَا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ: هَلْ أَحْبَبْتُمْ لِقَائِي؟ فَيَقُولُونَ: نَعَمْ يَا رَبَّنَا , فَيَقُولُ: لِمَ؟ فَيَقُولُونَ: رَجَوْنَا عَفْوَكَ , وَمَغْفِرَتَكَ , فَيَقُولُ: قَدْ وَجَبَتْ لَكُمْ مَغْفِرَتِي" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم چاہو تو میں تمہیں یہ بھی بتاسکتا ہوں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مؤمنین سے سب سے پہلے کیا کہے گا اور وہ سب سے پہلے اسے کیا جواب دیں گے؟ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! فرمایا اللہ تعالیٰ مؤمنین سے فرمائے گا کہ کیا تم مجھ سے ملنے کو پسند کرتے تھے؟ وہ جواب دیں گے جی پروردگار! وہ پوچھے گا کیوں؟ مؤمنین عرض کریں گے کہ ہمیں آپ سے درگذر اور معافی کی امید تھی وہ فرمائے گا کہ میں نے تمہارے لئے اپنی مغفرت واجب کردی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبيدالله بن زحر ضعيف، أبو عياش لم يسمع من معاذ
حدثنا ابو اليمان , اخبرنا شعيب , حدثني عبد الله بن ابي حسين , حدثني شهر بن حوشب , عن عبد الرحمن بن غنم وهو الذي بعثه عمر بن الخطاب إلى الشام يفقه الناس , ان معاذ بن جبل حدثه , عن النبي صلى الله عليه وسلم , انه ركب يوما على حمار له , يقال له: يعفور , رسنه من ليف , ثم قال النبي صلى الله علية وسلم:" اركب يا معاذ" , فقلت: سر يا رسول الله , فقال:" اركب" , فردفته , فصرع الحمار بنا , فقام النبي صلى الله عليه وسلم يضحك , وقمت اذكر من نفسي اسفا , ثم فعل ذلك الثانية , ثم الثالثة , فركب وسار بنا الحمار , فاخلف يده فضرب ظهري بسوط معه , او عصا , ثم قال:" يا معاذ , هل تدري ما حق الله على العباد؟" , فقلت: الله ورسوله اعلم , قال:" فإن حق الله على العباد ان يعبدوه , ولا يشركوا به شيئا" , قال: ثم سار ما شاء الله , ثم اخلف يده فضرب ظهري , فقال:" يا معاذ يا ابن ام معاذ , هل تدري ما حق العباد على الله إذا هم فعلوا ذلك؟" , قلت: الله ورسوله اعلم , قال:" فإن حق العباد على الله إذا فعلوا ذلك ان يدخلهم الجنة" .حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ , أخبرَنَا شُعَيْبٌ , حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي حُسَيْنٍ , حَدَّثَنِي شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ وَهُوَ الَّذِي بعثه عمر بن الخطاب إلى الشام يفقه الناس , أن معاذ بن جبل حَدَّثَهُ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّهُ رَكِبَ يَوْمًا عَلَى حِمَارٍ لَهُ , يُقَالُ لَهُ: يَعْفُورٌ , رَسَنُهُ مِنْ لِيفٍ , ثُمَّ قَالَ النبي صلَّى الله عَليَة وسلم:" ارْكَبْ يَا مُعَاذُ" , فَقُلْتُ: سِرْ يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَقَالَ:" ارْكَبْ" , فَرَدَفْتُهُ , فَصُرِعَ الْحِمَارُ بِنَا , فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ , وَقُمْتُ أَذْكُرُ مِنْ نَفْسِي أَسَفًا , ثُمَّ فَعَلَ ذَلِكَ الثَّانِيَةَ , ثُمَّ الثَّالِثَةَ , فَرَكِبَ وَسَارَ بِنَا الْحِمَارُ , فَأَخْلَفَ يَدَهُ فَضَرَبَ ظَهْرِي بِسَوْطٍ مَعَهُ , أَوْ عَصًا , ثُمَّ قَالَ:" يَا مُعَاذُ , هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ؟" , فَقُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ , وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا" , قَالَ: ثُمَّ سَارَ مَا شَاءَ اللَّهُ , ثُمَّ أَخْلَفَ يَدَهُ فَضَرَبَ ظَهْرِي , فَقَالَ:" يَا مُعَاذُ يَا ابْنَ أُمِّ مُعَاذٍ , هَلْ تَدْرِي مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا هُمْ فَعَلُوا ذَلِكَ؟" , قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" فَإِنَّ حَقَّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ أَنْ يُدْخِلَهُمْ الْجَنَّةَ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک گدھے پر " جس کا نام یعفور تھا اور جس کی رسی کھجور کی چھال کی تھی " سوار ہوئے اور فرمایا معاذ! اس پر سوار ہوجاؤ، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ چلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا تم بھی اس پر سوار ہوجاؤ جونہی میں پیچھے بیٹھا تو گدھے نے ہمیں گرا دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنستے ہوئے کھڑے ہوگئے اور مجھے اپنے اوپر افسوس ہونے لگا، تین مرتبہ اسی طرح ہوا بالآخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوگئے اور چل پڑے تھوڑی دیر بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ پیچھے کر کے میری کمر پر کوڑے کی ہلکی سے ضرب لگائی اور میرا نام لے کر فرمایا اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندوں پر اللہ کا حق یہ ہے کہ وہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں پھر تھوڑی دور چل کر میری پیٹھ پر ضرب لگائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ پر بندوں کا کیا حق ہے اگر وہ ایسا کرلیں تو؟ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حق یہ ہے کہ اللہ انہیں جنت میں داخل کر دے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، دون قصة فى أوله، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے معاذ! اگر کسی مشرک آدمی کو اللہ تعالیٰ تمہارے ہاتھوں ہدایت عطاء فرما دے تو یہ تمہارے حق میں سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، بقية لم يصرح بالسماع فى جميع طبقات السند، وضبارة مجهول، ودويد ليس بذاك القوي
حدثنا ابو اليمان , اخبرنا إسماعيل بن عياش , عن صفوان بن عمرو , عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير الحضرمي , عن معاذ , قال: اوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات , قال: " لا تشرك بالله شيئا , وإن قتلت وحرقت , ولا تعقن والديك , وإن امراك ان تخرج من اهلك ومالك , ولا تتركن صلاة مكتوبة متعمدا , فإن من ترك صلاة مكتوبة متعمدا , فقد برئت منه ذمة الله , ولا تشربن خمرا , فإنه راس كل فاحشة , وإياك والمعصية , فإن بالمعصية حل سخط الله عز وجل , وإياك والفرار من الزحف , وإن هلك الناس , وإذا اصاب الناس موتان وانت فيهم فاثبت , وانفق على عيالك من طولك , ولا ترفع عنهم عصاك ادبا , واخفهم في الله" .حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ , أخبرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ , عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ الْحَضْرَمِيِّ , عَنْ مُعَاذٍ , قَالَ: أَوْصَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشْرِ كَلِمَاتٍ , قَالَ: " لَا تُشْرِكْ بِاللَّهِ شَيْئًا , وَإِنْ قُتِلْتَ وَحُرِّقْتَ , وَلَا تَعُقَّنَّ وَالِدَيْكَ , وَإِنْ أَمَرَاكَ أَنْ تَخْرُجَ مِنْ أَهْلِكَ وَمَالِكَ , وَلَا تَتْرُكَنَّ صَلَاةً مَكْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا , فَإِنَّ مَنْ تَرَكَ صَلَاةً مَكْتُوبَةً مُتَعَمِّدًا , فَقَدْ بَرِئَتْ مِنْهُ ذِمَّةُ اللَّهِ , وَلَا تَشْرَبَنَّ خَمْرًا , فَإِنَّهُ رَأْسُ كُلِّ فَاحِشَةٍ , وَإِيَّاكَ وَالْمَعْصِيَةَ , فَإِنَّ بِالْمَعْصِيَةِ حَلَّ سَخَطُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , وَإِيَّاكَ وَالْفِرَارَ مِنَ الزَّحْفِ , وَإِنْ هَلَكَ النَّاسُ , وَإِذَا أَصَابَ النَّاسَ مُوتَانٌ وَأَنْتَ فِيهِمْ فَاثْبُتْ , وَأَنْفِقْ عَلَى عِيَالِكَ مِنْ طَوْلِكَ , وَلَا تَرْفَعْ عَنْهُمْ عَصَاكَ أَدَبًا , وَأَخِفْهُمْ فِي اللَّهِ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دس چیزوں کی وصیت فرمائی ہے۔
(١) اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا خواہ تمہیں قتل کردیا جائے یا آگ میں جلا دیا جائے۔
(٢) والدین کی نافرمانی نہ کرنا خواہ وہ تمہیں تمہارے اہل خانہ اور مال میں سے نکل جانے کا حکم دے دیں۔
(٣) فرض نماز جان بوجھ کر مت چھوڑنا کیونکہ جو شخص جان بوجھ کر فرض نماز کو ترک کردیتا ہے اس سے اللہ کی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے۔
(٤) شراب نوشی مت کرنا کیونکہ یہ ہر بےحیائی کی جڑ ہے۔
(٥) گناہوں سے بچنا کیونکہ گناہوں کی وجہ سے اللہ کی ناراضگی اترتی ہے۔
(٦) میدان جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھاگنے سے بچنا خواہ تمام لوگ مارے جائیں۔
(٧) کسی علاقے میں موت کی وباء پھیل پڑے اور تم وہاں پہلے سے موجود ہو تو وہیں ثابت قدم رہنا۔
(٨) اپنے اہل خانہ پر اپنا مال خرچ کرتے رہنا۔
(٩) انہیں ادب سکھانے سے غافل ہو کر لاٹھی اٹھا نہ رکھنا۔
(١٠) اور ان کے دلوں میں خوف اللہ پیدا کرتے رہنا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، عبدالرحمن بن جبير لم يدرك معاذا
حدثنا حسين بن محمد , حدثنا شريك , عن ابي حصين , عن الوالبي صديق لمعاذ بن جبل , عن معاذ , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من ولي من امر الناس شيئا , فاحتجب عن اولي الضعفة والحاجة , احتجب الله عنه يوم القيامة" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنْ أَبِي حَصِينٍ , عَنِ الْوَالِبِيِّ صَدِيقٌ لِمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , عَنْ مُعَاذٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ وَلِيَ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ شَيْئًا , فَاحْتَجَبَ عَنْ أُولِي الضَّعَفَةِ وَالْحَاجَةِ , احْتَجَبَ اللَّهُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی بھی شعبے میں لوگوں کا حکمران بنے اور کمزور اور ضرورت مندوں سے پردے میں رہے قیامت کے دن اللہ اس سے پردہ فرمائے گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لسوء حفظ شريك
حدثنا محمد بن عبد الله بن المثنى , حدثنا البراء الغنوي , حدثنا الحسن , عن معاذ بن جبل , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم تلا هذه الآية: اصحاب اليمين سورة الواقعة آية 27 , واصحاب الشمال سورة الواقعة آية 41 فقبض بيديه قبضتين , فقال: " هذه في الجنة ولا ابالي , وهذه في النار ولا ابالي" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُثَنَّى , حَدَّثَنَا الْبَرَاءُ الْغَنَوِيُّ , حَدَّثَنَا الْحَسَنُ , عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: أَصْحَابُ الْيَمِينِ سورة الواقعة آية 27 , وَأَصْحَابُ الشِّمَالِ سورة الواقعة آية 41 فَقَبَضَ بِيَدَيْهِ قَبْضَتَيْنِ , فَقَالَ: " هَذِهِ فِي الْجَنَّةِ وَلَا أُبَالِي , وَهَذِهِ فِي النَّارِ وَلَا أُبَالِي" .
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت " اصحاب الیمین " اور " اصحاب الشمال " تلاوت فرمائی اور دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بنا کر فرمایا (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) یہ مٹھی اہل جنت کی ہے اور مجھے کوئی پرواہ نہیں اور یہ مٹھی اہل جہنم کی ہے اور مجھے ان کی بھی کوئی پرواہ نہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف البراء الغنوي ولانقطاعه ، فالحسن لم يدرك معاذا
حدثنا هاشم , حدثنا عبد الحميد , حدثنا شهر بن حوشب , حدثنا عائذ الله بن عبد الله , ان معاذا قدم على اليمن , فلقيته امراة من خولان معها بنون لها اثنا عشر , فتركت اباهم في بيتها , اصغرهم الذي قد اجتمعت لحيته , فقامت فسلمت على معاذ , ورجلان من بنيها يمسكان بضبعيها , فقالت: من ارسلك ايها الرجل؟ قال لها معاذ: ارسلني رسول الله صلى الله عليه وسلم , قالت المراة: ارسلك رسول الله صلى الله عليه وسلم , وانت رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ افلا تخبرني يا رسول رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال لها معاذ: سليني عما شئت , قالت: حدثني ما حق المرء على زوجته؟ قال لها معاذ : " تتقي الله ما استطاعت , وتسمع , وتطيع , قالت: اقسمت بالله عليك لتحدثني ما حق الرجل على زوجته؟ قال لها معاذ: اوما رضيت ان تسمعي , وتطيعي , وتتقي الله , قالت: بلى ولكن حدثني ما حق المرء على زوجته؟ فإني تركت ابا هؤلاء شيخا كبيرا في البيت , فقال لها معاذ: والذي نفس معاذ في يده , لو انك ترجعين , إذا رجعت إليه , فوجدت الجذام قد خرق لحمه , وخرق منخريه , فوجدت منخريه يسيلان قيحا ودما , ثم القمتيهما فاك لكيما ما تبلغي حقه ما بلغت ذلك ابدا" .حَدَّثَنَا هَاشِمٌ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ , حَدَّثَنَا شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ , حَدَّثَنَا عَائِذُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , أَنَّ مُعَاذًا قَدِمَ عَلَى الْيَمَنِ , فَلَقِيَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ خَوْلَانَ مَعَهَا بَنُونَ لَهَا اثْنَا عَشَرَ , فَتَرَكَتْ أَبَاهُمْ فِي بَيْتِهَا , أَصْغَرُهُمْ الَّذِي قَدْ اجْتَمَعَتْ لِحْيَتُهُ , فَقَامَتْ فَسَلَّمَتْ عَلَى مُعَاذٍ , وَرَجُلَانِ مِنْ بَنِيهَا يُمْسِكَانِ بِضَبْعَيْهَا , فَقَالَتْ: مَنْ أَرْسَلَكَ أَيُّهَا الرَّجُلُ؟ قَالَ لَهَا مُعَاذٌ: أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَتْ الْمَرْأَةُ: أَرْسَلَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَأَنْتَ رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ أَفَلَا تُخْبِرُنِي يَا رَسُولَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ لَهَا مُعَاذٌ: سَلِينِي عَمَّا شِئْتِ , قَالَتْ: حَدِّثْنِي مَا حَقُّ الْمَرْءِ عَلَى زَوْجَتِهِ؟ قَالَ لَهَا مُعَاذٌ : " تَتَّقِي اللَّهَ مَا اسْتَطَاعَتْ , وَتَسْمَعُ , وَتُطِيعُ , قَالَتْ: أَقْسَمْتُ بِاللَّهِ عَلَيْكَ لَتُحَدِّثَنِّي مَا حَقُّ الرَّجُلِ عَلَى زَوْجَتِهِ؟ قَالَ لَهَا مُعَاذٌ: أَوَمَا رَضِيتِ أَنْ تَسْمَعِي , وَتُطِيعِي , وَتَتَّقِي اللَّهَ , قَالَتْ: بَلَى وَلَكِنْ حَدِّثْنِي مَا حَقُّ الْمَرْءِ عَلَى زَوْجَتِهِ؟ فَإِنِّي تَرَكْتُ أَبَا هَؤُلَاءِ شَيْخًا كَبِيرًا فِي الْبَيْتِ , فَقَالَ لَهَا مُعَاذٌ: وَالَّذِي نَفْسُ مُعَاذٍ فِي يَدِهِ , لَوْ أَنَّكِ تَرْجِعِينَ , إِذَا رَجَعْتِ إِلَيْهِ , فَوَجَدْتِ الْجُذَامَ قَدْ خَرَقَ لَحْمَهُ , وَخَرَقَ مَنْخِرَيْهِ , فَوَجَدْتِ مَنْخِرَيْهِ يَسِيلَانِ قَيْحًا وَدَمًا , ثُمَّ أَلْقَمْتِيهِمَا فَاكِ لِكَيماْ مَا تَبْلُغِي حَقَّهُ مَا بَلَغْتِ ذَلِكَ أَبَدًا" .
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ یمن تشریف لائے تو " خولان " قبیلے کی ایک عورت ان سے ملنے کے لئے آئی جس کے ساتھ اس کے بارہ بچے بھی تھے اس نے ان کے باپ کو گھر میں ہی چھوڑ دیا تھا اس کے بچوں میں سب سے چھوٹا وہ تھا جس کی ڈاڑھی پوری آچکی تھی، وہ عورت کھڑی ہوئی اور اس نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو سلام کیا اس کے دو بیٹوں نے اسے اس کے پہلوؤں سے تھام رکھا تھا اس نے پوچھا اے مرد! تمہیں کس نے بھیجا ہے؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے اس عورت نے کہا کہ اچھا تمہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے اور تم ان کے قاصد ہو تو کیا اے قاصد! تم مجھے کچھ بتاؤ گے نہیں؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم جو کچھ پوچھنا چاہتی ہو، پوچھ لو اس نے کہا یہ بتائیے کہ بیوی پر شوہر کا کیا حق ہے؟ انہوں نے فرمایا جہاں تک ممکن ہو اللہ سے ڈرتی رہے اس کی بات سنتی اور مانتی رہے۔
اس نے کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتی ہوں کہ آپ ضرور بتائیے اور صحیح بتائیے کہ بیوی پر شوہر کا کیا حق ہوتا ہے؟ انہوں نے فرمایا کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم اس کی بات سنو اور مانو اور اللہ سے ڈرتی رہو؟ اس نے کہ کیوں نہیں لیکن آپ پھر بھی مجھے اس کی تفصیل بتائیے کیونکہ میں ان کا بوڑھا باپ گھر میں چھوڑ کر آئی ہوں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں معاذ کی جان ہے جب تم گھر واپس پہنچو اور یہ دیکھو کہ جذام نے اس کے گوشت کو چیر دیا ہے اور اس کے نتھنوں میں سوراخ کردیئے ہیں جن سے پیپ اور خون بہہ رہا ہو اور تم اس کا حق ادا کرنے کے لئے اس پیپ اور خون کو منہ لگا کر پینا شروع کردو تب بھی اس کا حق ادانہ کرسکو گی۔