حدثنا حرمي بن عمارة ، حدثنا عزرة بن ثابت الانصاري ، حدثنا علباء بن احمر ، حدثنا ابو زيد الانصاري ، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ادن مني"، قال: فمسح بيده على راسه ولحيته، قال: ثم قال: " اللهم جمله، وادم جماله"، قال: فلقد بلغ بضعا ومائة سنة وما في راسه ولحيته بياض، إلا نبذ يسير، ولقد كان منبسط الوجه، ولم ينقبض وجهه حتى مات .حَدَّثَنَا حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ ، حَدَّثَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيُّ ، حَدَّثَنَا عِلْبَاءُ بْنُ أَحْمَرَ ، حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ الْأَنْصَارِيُّ ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ادْنُ مِنِّي"، قَالَ: فَمَسَحَ بِيَدِهِ عَلَى رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: " اللَّهُمَّ جَمِّلْهُ، وَأَدِمْ جَمَالَهُ"، قَالَ: فَلَقَدْ بَلَغَ بِضْعًا وَمِائَةَ سَنَةٍ وَمَا فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ بَيَاضٌ، إِلَّا نَبْذٌ يَسِيرٌ، وَلَقَدْ كَانَ مُنْبَسِطَ الْوَجْهِ، وَلَمْ يَنْقَبِضْ وَجْهُهُ حَتَّى مَاتَ .
حضرت ابوزید سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا میرے قریب آؤ پھر میرے سر اور داڑھی پر اپنا دست مبارک پر پھیرا اور یہ دعا کی کہ اے اللہ اسے حسن و جمال عطا فرما اور اس کے حسن کو دوام عطا فرما۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابوزید کی عمر سو سال سے بھی اوپر ہوئی لیکن ان کے سر اور ڈارھی کے چند بال ہی سفید تھے اور آخردم تک وہ ہمیشہ مسکراتے ہی رہے اور کبھی ان کے چہرے پر انقباض کی کیفیت نہیں دیکھی گئی۔
حدثنا عفان ، حدثنا عبد الوارث ، حدثنا خالد ، عن ابي قلابة ، عن عمرو بن بجدان ، عن ابي زيد الانصاري ، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم بين اظهر ديارنا، فوجد قتارا، فقال:" من هذا الذي ذبح؟" قال فخرج إليه رجل منا، فقال يا رسول الله، كان هذا يوما الطعام فيه كريه، فذبحت لآكل، واطعم جيراني، قال:" فاعد"، قال: لا، والذي لا إله إلا هو، ما عندي إلا جذع من الضان، او حمل، قالها ثلاث مرات، قال:" فاذبحها، ولا تجزئ جذعة عن احد بعدك" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ بُجْدَانَ ، عَنْ أَبِي زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِ دِيَارِنَا، فَوَجَدَ قُتَارًا، فَقَالَ:" مَنْ هَذَا الَّذِي ذَبَحَ؟" قَالَ فَخَرَجَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنَّا، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَانَ هَذَا يَوْمًا الطَّعَامُ فِيهِ كَرِيهٌ، فَذَبَحْتُ لِآكُلَ، وَأُطْعِمَ جِيرَانِي، قَالَ:" فَأَعِدْ"، قَالَ: لَا، وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، مَا عِنْدِي إِلَّا جَذَعٌ مِنَ الضَّأْنِ، أَوْ حَمَلٌ، قَالَهَا ثَلَاثَ مِرَاتٍ، قَالَ:" فَاذْبَحْهَا، وَلَا تُجْزِئُ جَذَعَةٌ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ" .
حضرت ابوزید انصاری سے مروی ہے کہ عیدالاضحی کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھروں کے درمیان سے گذر رہے تھے کہ آپ کو گوشت بھونے جانے کی خوشبو محسوس ہوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کس نے جانور ذبح کیا ہے ہم میں سے ایک آدمی نکلا اور عرض کیا یا رسول اللہ اس دن کھانا ایک مجبوری ہوتا ہے سو میں نے بھی اپنا جانور ذبح کرلیا تاکہ خود بھی کھاؤں اور اپنے ہمسایوں کو بھی کھلاؤں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قربانی دوبارہ کرو اس نے کہا اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں میرے پاس تو بکری کا ایک چھ ماہ کا بچہ ہے یا حمل ہے۔ اس نے یہ جملہ تین مرتبہ کہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسی کو ذبح کرلو لیکن تمہارے بعد یہ کسی کی طرف سے کفایت نہیں کرسکے گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: من الضأن أو حمل وهو خطأ، وهذا إسناد ضعيف، فيه عمرو بن بجدان مجهول، وقد اختلف فيه على خالد
حدثنا يونس ، وعفان ، قالا: حدثنا غسان بن برزين ، حدثنا سيار بن سلامة الرياحي ، عن البراء السليطي ، عن نقادة الاسدي، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان بعث نقادة الاسدي إلى رجل يستمنحه ناقة له، وان الرجل رده، فارسل به إلى رجل آخر سواه، فبعث إليه بناقة، فلما ابصر بها رسول الله صلى الله عليه وسلم قد جاء بها نقادة يقودها قال:" اللهم بارك فيها وفيمن ارسل بها"، قال نقادة: يا رسول الله، وفيمن جاء بها؟ قال:" وفيمن جاء بها"، فامر بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فحلبت فدرت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اللهم اكثر مال فلان وولده يعني المانع الاول اللهم اجعل رزق فلان يوما بيوم" يعني صاحب الناقة الذي ارسل بها .حَدَّثَنَا يُونُسُ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا غَسَّانُ بْنُ بُرْزِينَ ، حَدَّثَنَا سَيَّارُ بْنُ سَلَامَةَ الرِّيَاحِيُّ ، عَنِ الْبَرَاءِ السَّلِيطِيِّ ، عَنْ نُقَادَةَ الْأَسَدِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ بَعَثَ نُقَادَةَ الْأَسَدِيَّ إِلَى رَجُلٍ يَسْتَمْنِحُهُ نَاقَةً لَهُ، وَأَنَّ الرَّجُلَ رَدَّهُ، فَأَرْسَلَ بِهِ إِلَى رَجُلٍ آخَرَ سِوَاهُ، فَبَعَثَ إِلَيْهِ بِنَاقَةٍ، فَلَمَّا أَبْصَرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَاءَ بِهَا نُقَادَةُ يَقُودُهَا قَالَ:" اللَّهُمَّ بَارِكْ فِيهَا وَفِيمَنْ أَرْسَلَ بِهَا"، قَالَ نُقَادَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَفِيمَنْ جَاءَ بِهَا؟ قَالَ:" وَفِيمَنْ جَاءَ بِهَا"، فَأَمَرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحُلِبَتْ فَدَرَّتْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَ فُلَانٍ وَوَلَدَهُ يَعْنِي الْمَانِعَ الْأَوَّلَ اللَّهُمَّ اجْعَلْ رِزْقَ فُلَانٍ يَوْمًا بِيَوْمٍ" يَعْنِي صَاحِبَ النَّاقَةِ الَّذِي أَرْسَلَ بِهَا .
حضرت نقادہ اسدی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک آدمی کے پاس اونٹنی لینے کے لئے بھیجا لیکن اس شخص نے اونٹنی دینے سے انکار کردیا پھر کسی دوسرے آدمی کے پاس بھیجا تو اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اونٹنی روانہ کردی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ نقادہ اونٹنی لے آئے ہیں تو فرمایا اے اللہ اس اونٹنی میں اور اسے بھیجنے والے کو برکت عطا فرما نقادہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اس کے لئے بھی تو دعا کردیجیے جو اسے لے کر آیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور اسے لانے والے کو بھی برکت عطا فرما پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اسے دوہا گیا تو اس نے خوب دودھ دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پہلے آدمی جس نے اونٹنی دینے سے انکار کردیا تھا حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا اے اللہ فلاں شخص کے مال اور اولاد میں اضافہ فرمایا اور دوسرے آدمی جس نے اونٹنی بھجوائی تھی کے حق میں فرمایا اے اللہ روزانہ اور تدریجا رزق عطا فرما۔
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن بديل العقيلي ، قال: اخبرني عبد الله بن شقيق ، انه اخبره من سمع النبي صلى الله عليه وسلم وهو بوادي القرى وهو على فرسه، وساله رجل من بلقين، فقال: يا رسول الله، من هؤلاء؟ قال: " هؤلاء المغضوب عليهم"، فاشار إلى اليهود، فقال من هؤلاء؟ قال:" هؤلاء الضالون" يعني النصارى . قال: وجاءه رجل فقال: استشهد مولاك، او قال: غلامك فلان، قال:" بل هو يجر إلى النار في عباءة غلها" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ بُدَيْلٍ الْعُقَيْلِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ مَنْ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِوَادِي الْقُرَى وَهُوَ عَلَى فَرَسِهِ، وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ بُلْقِينٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: " هَؤُلَاءِ الْمَغْضُوبُ عَلَيْهِمْ"، فَأَشَارَ إِلَى الْيَهُودِ، فَقَالَ مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ:" هَؤُلَاءِ الضَّالُّونَ" يَعْنِي النَّصَارَى . قَالَ: وَجَاءَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: اسْتُشْهِدَ مَوْلَاكَ، أَوْ قَالَ: غُلَامُكَ فُلَانٌ، قَالَ:" بَلْ هُوَ يُجَرُّ إِلَى النَّارِ فِي عَبَاءَةٍ غَلَّهَا" .
ایک صحابی سے مروی ہے کہ وادی قری میں ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھوڑے پر سوار تھے بنوقین کے کسی آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ یہ کون لوگ ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مغضوب علیھم ہیں اور یہودیوں کی طرف اشارہ فرمایا اس نے پوچھا پھر یہ کون ہے فرمایا یہ گمراہ ہیں اور نصاری کی طرف اشارہ فرمایا۔ اور ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ کا فلاں غلام شہید ہوگیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بلکہ وہ جہنم میں اپنی چادر کھینچ رہا ہے یہ سزا ہے اس چادر کی جو اس نے مال غنیمت خیانت کرکے لی تھی۔
حدثنا إسماعيل ، حدثنا الجريري ، عن ابي العلاء بن الشخير ، قال: كنت مع مطرف في سوق الإبل، فجاءه اعرابي معه قطعة اديم، او جراب، فقال من يقرا، اوفيكم من يقرا؟ قلت: نعم، فاخذته فإذا فيه " بسم الله الرحمن الرحيم، من محمد رسول الله، لبني زهير بن اقيش حي من عكل انهم إن شهدوا ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله، وفارقوا المشركين، واقروا بالخمس في غنائمهم، وسهم النبي صلى الله عليه وسلم وصفيه، فإنهم آمنون بامان الله ورسوله" . فقال له بعض القوم هل سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا تحدثناه؟ قال: نعم، قالوا: فحدثنا رحمك الله، قال: سمعته يقول: " من سره ان يذهب كثير من وحر صدره فليصم شهر الصبر، وثلاثة ايام من كل شهر"، فقال له القوم او بعضهم: اانت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: الا اراكم تتهموني ان اكذب على رسول الله صلى الله عليه وسلم؟! وقال إسماعيل مرة تخافون، والله لا حدثتكم حديثا سائر اليوم، ثم انطلق .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ مُطَرِّفٍ فِي سُوقِ الْإِبِلِ، فَجَاءَهُ أَعْرَابِيٌّ مَعَهُ قِطْعَةُ أَدِيمٍ، أَوْ جِرَابٍ، فَقَالَ مَنْ يَقْرَأُ، أَوَفِيكُمْ مَنْ يَقْرَأُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، فَأَخَذْتُهُ فَإِذَا فِيهِ " بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ، لِبَنِي زُهَيْرِ بْنِ أُقَيْشٍ حَيٍّ مِنْ عُكْلٍ أَنَّهُمْ إِنْ شَهِدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَفَارَقُوا الْمُشْرِكِينَ، وَأَقَرُّوا بِالْخُمُسِ فِي غَنَائِمِهِمْ، وَسَهْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَفِيَّهُ، فَإِنَّهُمْ آمِنُونَ بِأَمَانِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ" . فَقَالَ لَهُ بَعْضُ الْقَوْمِ هَلْ سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا تُحَدِّثُنَاهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالُوا: فَحَدِّثْنَا رَحِمَكَ اللَّهُ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: " مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنْ وَحَرِ صَدْرِهِ فَلْيَصُمْ شَهْرَ الصَّبْرِ، وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ"، فَقَالَ لَهُ الْقَوْمُ أَوْ بَعْضُهُمْ: أَأَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: أَلَا أُرَاكُمْ تَتَّهِمُونِي أَنْ أَكْذِبَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟! وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ مَرَّةً تَخَافُونَ، وَاللَّهِ لَا حَدَّثْتُكُمْ حَدِيثًا سَائِرَ الْيَوْمِ، ثُمَّ انْطَلَقَ .
ابوعلاء کہتے ہیں کہ میں اونٹوں کی منڈی میں مطرف کے ساتھ بیٹھا تھا ایک دیہاتی آیا اس کے پاس ایک چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا وہ کہنے لگا کہ تم میں سے کوئی شخص پڑھناجانتا ہے میں نے کہا ہاں اور اس سے وہ چمڑے کا ٹکڑا لے لیا اس پر لکھا تھا بسم اللہ الرحمن الرحیم، محمد رسول اللہ کی طرف سے بنوزہیرہ بن اقیش کے نام جو عکل کا ایک قبیلہ ہے وہ اگر غنیمت میں خمس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے اور انتخاب کا اقرار کرتے ہیں تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی امان میں ہیں کسی نے اس دیہاتی سے پوچھا کیا آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسی چیز سنی ہے جو آپ ہم سے بیان کرسکیں اس نے کہا جی ہاں لوگوں نے کہا کہ اس سے کہا کہ پھر ہمیں بھی سنا دیجیے اللہ آپ پر رحم فرمائے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کے سینے کا کینہ ختم ہوجائے تو اسے چاہیے کہ وہ ماہ صبر رمضان اور ہر مہینے میں تین دن روزرے رکھا کرے کسی نے اس سے پوچھا کہ کیا واقعی آپ نے یہ حدیث خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے انہوں نے کہا میں نہیں سمجھتا تھا کہ تم مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے سے مہتم کرو گے واللہ آج کے بعد میں کبھی تم سے کوئی حدیث بیان نہیں کروں گا پھر وہ چلے گئے۔
بنواقیش کے ایک آدمی جن کے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خط بھی تھا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر مہینے تین روزے رکھنا سینے کو کینے سے دور کرتا ہے۔
حدثنا إسماعيل ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، عن حميد بن هلال ، عن ابي قتادة ، وابي الدهماء ، قالا: كانا يكثران السفر نحو هذا البيت، قالا: اتينا على رجل من اهل البادية، فقال البدوي اخذ بيدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجعل يعلمني مما علمه الله، وقال:" إنك لن تدع شيئا اتقاء الله إلا اعطاك الله خيرا منه" ..حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ ، وَأَبِي الدَّهْمَاءِ ، قَالَا: كَانَا يُكْثِرَانِ السَّفَرَ نَحْوَ هَذَا الْبَيْتِ، قَالَا: أَتَيْنَا عَلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، فَقَالَ الْبَدَوِيُّ أَخَذَ بِيَدِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ يُعَلِّمُنِي مِمَّا عَلَّمَهُ اللَّهُ، وَقَالَ:" إِنَّكَ لَنْ تَدَعَ شَيْئًا اتِّقَاءَ اللَّهِ إِلَّا أَعْطَاكَ اللَّهُ خَيْرًا مِنْهُ" ..
ابوقتادہ اور ابودھماء جو اس مکان کی طرف کثرت سے سفر کرتے تھے کہتے ہیں کہ ہم ایک دیہاتی آدمی کے پاس پہنچے اس نے بتایا کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے وہ باتیں سکھانا شروع کردیں جو اللہ نے انہیں سکھائی تھیں اور فرمایا کہ تم جس چیز کو بھی اللہ کے خوف سے چھوڑ دوگے اللہ تمہیں اس سے بہتر عطا فرمادے گا
ابوعلاء کہتے ہیں کہ میں اونٹوں کی منڈی میں مطرف کے ساتھ بیٹھا تھا ایک دیہاتی آیا اس کے پاس ایک چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا وہ کہنے لگا کہ تم میں سے کوئی شخص پڑھناجانتا ہے میں نے کہا ہاں اور اس سے وہ چمڑے کا ٹکڑا لے لیا اس پر لکھا تھا بسم اللہ الرحمن الرحیم، محمد رسول اللہ کی طرف سے بنوزہیرہ بن اقیش کے نام جو عکل کا ایک قبیلہ ہے وہ اگر اس بات کی تصدیق کریں کہ غنیمت میں خمس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے اور انتخاب کا اقرار کرتے ہیں تو وہ اللہ اور اس کے رسول کی امان میں ہیں۔
حدثنا روح بن عبادة ، حدثنا قرة بن خالد ، قال: سمعت يزيد بن عبد الله بن الشخير ، قال كنا بالمربد جلوسا، فاتى علينا رجل من اهل البادية، لما رايناه قلنا هذا كان رجل ليس من اهل البلد، قال: اجل، فإذا معه كتاب في قطعة اديم، قال: وربما قال: في قطعة جراب، فقال: هذا كتاب كتبه لي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإذا فيه:" بسم الله الرحمن الرحيم، هذا كتاب من محمد النبي رسول الله، لبني زهير بن اقيش وهم حي من عكل، إنكم إن اقمتم الصلاة، وآتيتم الزكاة، وفارقتم المشركين، واعطيتم الخمس من المغنم، ثم سهم النبي والصفي"، وربما قال" وصفيه، فانتم آمنون بامان الله، وامان رسوله"، فذكر معني حديث الجريري .حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَزِيدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، قَالَ كُنَّا بِالْمِرْبَدِ جُلُوسًا، فَأَتَى عَلَيْنَا رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، لَمَّا رَأَيْنَاهُ قُلْنَا هَذَا كَأَنَّ رَجُلٌ لَيْسَ مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ، قَالَ: أَجَلْ، فَإِذَا مَعَهُ كِتَابٌ فِي قِطْعَةِ أَدِيمٍ، قَالَ: وَرُبَّمَا قَالَ: فِي قِطْعَةِ جِرَابٍ، فَقَالَ: هَذَا كِتَابٌ كَتَبَهُ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا فِيهِ:" بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، هَذَا كِتَابٌ مِنْ مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ رَسُولِ اللَّهِ، لِبَنِي زُهَيْرِ بْنِ أُقَيْشٍ وَهُمْ حَيٌّ مِنْ عُكْلٍ، إِنَّكُمْ إِنْ أَقَمْتُمْ الصَّلَاةَ، وَآتَيْتُمْ الزَّكَاةَ، وَفَارَقْتُمِ الْمُشْرِكِينَ، وَأَعْطَيْتُمْ الْخُمُسَ مِنَ الْمَغْنَمِ، ثُمَّ سَهْمَ النَّبِيِّ وَالصَّفِيَّ"، وَرُبَّمَا قَالَ" وَصَفِيَّهُ، فَأَنْتُمْ آمِنُونَ بِأَمَانِ اللَّهِ، وَأَمَانِ رَسُولِهِ"، فَذَكَرَ مَعْنِي حَدِيثَ الْجُرَيْرِيِّ .
حدثنا عفان ، حدثنا عبد الوارث ، حدثني عبد الله بن سوادة القشيري ، قال: حدثني رجل من اهل البادية، عن ابيه ، وكان ابوه اسيرا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: سمعت محمدا صلى الله عليه وسلم يقول: " لا تقبل صلاة لا يقرا فيها بام الكتاب" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَوَادَةَ الْقُشَيْرِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، عَنْ أَبِيهِ ، وَكَانَ أَبُوهُ أَسِيرًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا تُقْبَلُ صَلَاةٌ لَا يُقْرَأُ فِيهَا بِأُمِّ الْكِتَابِ" .
ایک دیہاتی آدمی کا کہنا ہے کہ اس کے والد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قید تھے وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ وہ نماز قبول نہیں ہوتی جس میں سورت فاتحہ نہ پڑھی جائے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة الرجل البدوي الذى روى عنه عبدالله بن سوادة
ایک انصاری صحابی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عرق النساء کے مرض کا علاج یہ تجویز کیا ہے کہ ایک عربی مینڈھے کی چکنی لے جائے جو بہت بڑی ہو اور نہ چھوٹی ہو اسے پگھلا کر تین حصوں میں تقسیم کرلیا جائے اور روز نہار منہ اس کا ایک حصہ پی لیا جائے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف الإبهام الرجل الأنصاري