حدثنا عفان ، حدثنا عبد الوارث ، حدثنا خالد ، عن ابي قلابة ، عن عمرو بن بجدان ، عن ابي زيد الانصاري ، قال: مر رسول الله صلى الله عليه وسلم بين اظهر ديارنا، فوجد قتارا، فقال:" من هذا الذي ذبح؟" قال فخرج إليه رجل منا، فقال يا رسول الله، كان هذا يوما الطعام فيه كريه، فذبحت لآكل، واطعم جيراني، قال:" فاعد"، قال: لا، والذي لا إله إلا هو، ما عندي إلا جذع من الضان، او حمل، قالها ثلاث مرات، قال:" فاذبحها، ولا تجزئ جذعة عن احد بعدك" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ بُجْدَانَ ، عَنْ أَبِي زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِ دِيَارِنَا، فَوَجَدَ قُتَارًا، فَقَالَ:" مَنْ هَذَا الَّذِي ذَبَحَ؟" قَالَ فَخَرَجَ إِلَيْهِ رَجُلٌ مِنَّا، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَانَ هَذَا يَوْمًا الطَّعَامُ فِيهِ كَرِيهٌ، فَذَبَحْتُ لِآكُلَ، وَأُطْعِمَ جِيرَانِي، قَالَ:" فَأَعِدْ"، قَالَ: لَا، وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، مَا عِنْدِي إِلَّا جَذَعٌ مِنَ الضَّأْنِ، أَوْ حَمَلٌ، قَالَهَا ثَلَاثَ مِرَاتٍ، قَالَ:" فَاذْبَحْهَا، وَلَا تُجْزِئُ جَذَعَةٌ عَنْ أَحَدٍ بَعْدَكَ" .
حضرت ابوزید انصاری سے مروی ہے کہ عیدالاضحی کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھروں کے درمیان سے گذر رہے تھے کہ آپ کو گوشت بھونے جانے کی خوشبو محسوس ہوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کس نے جانور ذبح کیا ہے ہم میں سے ایک آدمی نکلا اور عرض کیا یا رسول اللہ اس دن کھانا ایک مجبوری ہوتا ہے سو میں نے بھی اپنا جانور ذبح کرلیا تاکہ خود بھی کھاؤں اور اپنے ہمسایوں کو بھی کھلاؤں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قربانی دوبارہ کرو اس نے کہا اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں میرے پاس تو بکری کا ایک چھ ماہ کا بچہ ہے یا حمل ہے۔ اس نے یہ جملہ تین مرتبہ کہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسی کو ذبح کرلو لیکن تمہارے بعد یہ کسی کی طرف سے کفایت نہیں کرسکے گا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: من الضأن أو حمل وهو خطأ، وهذا إسناد ضعيف، فيه عمرو بن بجدان مجهول، وقد اختلف فيه على خالد