حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا العوام ، حدثنا سعيد بن جمهان ، عن ابن ابي بكرة ، عن ابيه ، قال: " ذكر النبي صلى الله عليه وسلم ارضا يقال لها البصيرة، إلى جنبها نهر يقال له: دجلة، ذو نخل كثير، وينزل به بنو قنطوراء، فيفترق الناس ثلاث فرق فرقة تلحق باصلها، وهلكوا، وفرقة تاخذ على انفسها، وكفروا، وفرقة يجعلون ذراريهم خلف ظهورهم، فيقاتلون، قتلاهم شهداء، يفتح الله على بقيتهم" ، وشك يزيد فيه مرة، فقال: البصيرة او البصرة..حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُمْهَانَ ، عَنِ ابْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " ذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْضًا يُقَالُ لَهَا الْبُصَيْرَةُ، إِلَى جَنْبِهَا نَهَرٌ يُقَالُ لَهُ: دِجْلَةُ، ذُو نَخْلٍ كَثِيرٍ، وَيَنْزِلُ بِهِ بَنُو قَنْطُورَاءَ، فَيَفْتَرِّقُ النَّاسُ ثَلَاثَ فِرَقٍ فِرْقَةٌ تَلْحَقُ بِأَصْلِهَا، وَهَلَكُوا، وَفِرْقَةٌ تَأْخُذُ عَلَى أَنْفُسِهَا، وَكَفَرُوا، وَفِرْقَةٌ يَجْعَلُونَ ذَرَارِيَّهُمْ خَلْفَ ظُهُورِهِمْ، فَيُقَاتِلُونَ، قَتْلَاهُمْ شُهَدَاءُ، يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى بَقِيَّتِهِمْ" ، وَشَكَّ يَزِيدُ فِيهِ مَرَّةً، فَقَالَ: الْبُصَيْرَةُ أَوْ الْبَصْرَةُ..
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک علاقے کا ذکر فرمایا اس کا نام بصرہ ہے اور اس کے ایک طرف دجلہ نامی نہر بہتی ہے کثیر باغات والا علاقہ ہے وہاں بنوقنطوراء (ترک) آکر اتریں گے تو لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہوجائیں گے ایک گروہ تو اپنی اصل سے جا ملے گا یہ ہلاک ہوگا ایک گروہ اپنے اوپر زیادتی کرکے کفر کرے گا اور ایک گروہ اپنے بچوں کو پس پشت ڈال کر قتال کرے گا۔ ان کے مقتولین شہید ہوں گے اور ان کے ہی بقیہ لوگوں کے ہاتھوں ہی مسلمانوں کی فتح ہوگی۔
حكم دارالسلام: ضعيف، ومتنه منكر لأجل سعيد بن جمهان، وابن أبى بكرة اختلف الروايات فى تعيينه
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ کون سا انسان سب سے بہتر ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کی عمر لمبی ہو اور عمل اچھا ہو سائل نے پوچھا کہ سب سے بدترین انسان کون ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کی عمر لمبی ہو اور اس کا عمل برا ہو۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
حدثنا يزيد ، اخبرنا همام ، عن قتادة ، عن الحسن ، عن ابي بكرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يقولن احدكم قمت رمضان كله، ولا صمته كله" ، قال الحسن: وقال يزيد مرة: قال قتادة الله اعلم اخاف على امته التزكية، او لا بد من راقد او غافل؟.حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ قُمْتُ رَمَضَانَ كُلَّهُ، وَلَا صُمْتُهُ كُلَّهُ" ، قَالَ الْحَسَنُ: وَقَالَ يَزِيدُ مَرَّةً: قَالَ قَتَادَةُ اللَّهُ أَعْلَمُ أَخَافَ عَلَى أُمَّتِهِ التَّزْكِيَةَ، أَوْ لَا بُدَّ مِنْ رَاقِدٍ أَوْ غَافِلٍ؟.
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص یہ نہ کہے میں نے سارے رمضان قیام کیا اور روزے رکھتا رہا کیونکہ غفلت یا نیند آجانے سے کوئی چارہ کار بھی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے وہ کسی دن سوتا رہ جائے۔
حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا عيينة بن عبد الرحمن ، عن ابيه ، قال ذكرت ليلة القدر عند ابي بكرة ، فقال: ما انا بملتمسها بعدما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا في عشر الاواخر، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " التمسوها في العشر الاواخر، في الوتر منه"، قال: فكان ابو بكرة يصلي في العشرين من رمضان كصلاته في سائر السنة، فإذا دخل العشر اجتهد .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا عُيَيْنَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ ذُكِرَتْ لَيْلَةُ الْقَدْرِ عِنْدَ أَبِي بَكْرَةَ ، فَقَالَ: مَا أَنَا بِمُلْتَمِسِهَا بَعْدَمَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا فِي عَشْرِ الْأَوَاخِرِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، فِي الْوِتْرِ مِنْهُ"، قَالَ: فَكَانَ أَبُو بَكْرَةَ يُصَلِّي فِي الْعِشْرِينَ مِنْ رَمَضَانَ كَصَلَاتِهِ فِي سَائِرِ السَّنَةِ، فَإِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ اجْتَهَدَ .
عبدالرحمن کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے سامنے شب قدر کا ذکر ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ میں تو اسے صرف آخری عشرے میں تلاش کروں گا کیونکہ میں اس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرے میں تلاش کیا کرو۔ ٢١ ویں، ٢٣ ویں، ٢٥ ویں شب، یا ٢٧ ویں شب یا آخری رات میں۔
حدثنا يزيد ، اخبرنا حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد ، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يمكث ابوا الدجال ثلاثين عاما لا يولد لهما، ثم يولد لهما غلام اعور، اضر شيء واقله نفعا، تنام عيناه، ولا ينام قلبه"، ثم نعت ابويه، فقال:" ابوه رجل طوال مضطرب اللحم، طويل الانف، كان انفه منقار، وامه امراة فرضاخية، عظيمة الثديين"، قال: فبلغنا ان مولودا من اليهود ولد بالمدينة، قال: فانطلقت انا والزبير بن العوام حتى دخلنا على ابويه، فراينا فيهما نعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإذا هو منجدل في الشمس في قطيفة، له همهمة، فسالنا ابويه، فقالا: مكثنا ثلاثين عاما لا يولد لنا، ثم ولد لنا غلام اعور، اضر شيء واقله نفعا، فلما خرجنا مررنا به، فقال: ما كنتما فيه؟ قلنا وسمعت؟! قال: نعم، إنه تنام عيناي ولا ينام قلبي، فإذا هو ابن صياد .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَمْكُثُ أَبَوَا الدَّجَّالِ ثَلَاثِينَ عَامًا لَا يُولَدُ لَهُمَا، ثُمَّ يُولَدُ لَهُمَا غُلَامٌ أَعْوَرُ، أَضَرُّ شَيْءٍ وَأَقَلُّهُ نَفْعًا، تَنَامُ عَيْنَاهُ، وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ"، ثُمَّ نَعَتَ أَبَوَيْهِ، فَقَالَ:" أَبُوهُ رَجُلٌ طُوَالٌ مُضْطَرِبُ اللَّحْمِ، طَوِيلُ الْأَنْفِ، كَأَنَّ أَنْفَهُ مِنْقَارٌ، وَأُمُّهُ امْرَأَةٌ فِرْضَاخِيَّةٌ، عَظِيمَةُ الثَّدْيَيْنِ"، قَالَ: فَبَلَغَنَا أَنَّ مَوْلُودًا مِنَ الْيَهُودِ وُلِدَ بِالْمَدِينَةِ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَالزُّبَيْرُ بْنُ الْعَوَّامِ حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى أَبَوَيْهِ، فَرَأَيْنَا فِيهِمَا نَعْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِذَا هُوَ مُنْجَدِلٌ فِي الشَّمْسِ فِي قَطِيفَةٍ، لَهُ هَمْهَمَةٌ، فَسَأَلْنَا أَبَوَيْهِ، فَقَالَا: مَكَثْنَا ثَلَاثِينَ عَامًا لَا يُولَدُ لَنَا، ثُمَّ وُلِدَ لَنَا غُلَامٌ أَعْوَرُ، أَضَرُّ شَيْءٍ وَأَقَلُّهُ نَفْعًا، فَلَمَّا خَرَجْنَا مَرَرْنَا بِهِ، فَقَالَ: مَا كُنْتُمَا فِيهِ؟ قُلْنَا وَسَمِعْتَ؟! قَالَ: نَعَمْ، إِنَّهُ تَنَامُ عَيْنَايَ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي، فَإِذَا هُوَ ابْنُ صَيَّادٍ .
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا دجال کے ماں باپ تیس سال اس حال میں رہیں گے کہ ان کے ہاں یہاں کوئی اولاد نہ ہوگی پھر ان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہوگا جو کانا ہوگا اس کا نقصان زیادہ ہوگا اور نفع کم اس کی آنکھیں سوتی ہوں گی لیکن دل نہیں سوئے گا پھر اس کے والدین کا حلیہ بیان کرتے ہوئے فرمایا اس کا باپ ایک لمبے قد کا آدمی ہوگا اور اس کا گوشت ہلتا ہوگا اس کی ناک بھی لمبی ہوگی ایسا محسوس ہوگا کہ جیسے طوطے کی چونچ اور اس کی ماں بڑی چھاتی والی عورت ہوگی کچھ عرصے کے بعد ہمیں پتا چلا کہ مدینہ میں ایک یہودیوں کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے میں اور زبیر بن عوام اسے دیکھنے کے لئے گئے اس کے والدین کے پاس پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا حلیہ ان دونوں نے پایا وہ بچہ ایک چادر میں لپٹا ہوا پڑا ہوا تھا اس کی ہلکی ہلکی آواز آرہی تھی ہم نے اس کے والدین کو اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے تیس سال اس حال میں گزارے کہ ہمارے ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا پھر ہمارے ہاں یہ ایک کانابچہ پیدا ہوا جس کا نقصان زیادہ اور نفع کم ہے جب ہم وہاں سے نکلے تو ہم اس کے پاس سے گزرے وہ کہنے لگا تم لوگ کیا باتیں کررہے تھے ہم نے کہا تم نے وہ باتیں سن لیں؟ اس نے کہا جی ہاں میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرادل نہیں سوتا وہ ابن صیاد تھا۔
حدثنا اسباط بن محمد ، حدثنا اشعث ، عن ابن سيرين ، عن ابي بكرة ، قال: خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم النحر على ناقة له، قال: فجعل يتكلم هاهنا مرة، وهاهنا مرة عند كل قوم، ثم قال:" اي يوم هذا؟" قال: فسكتنا حتى ظننا انه سيسميه غير اسمه، قال" اليس يوم النحر؟" قال: قلنا: بلى، ثم قال:" اي شهر هذا؟" قال: فسكتنا حتى ظننا انه سيسميه غير اسمه، قال: ثم قال:" اليس ذا الحجة؟" قال: قلنا: بلى، ثم قال:" اي بلد هذا؟" قال: فسكتنا حتى ظننا انه سيسميه غير اسمه، قال: ثم قال:" اليس البلدة الحرام؟" قال: قلنا: بلى، قال:" فإن دماءكم، واموالكم، واعراضكم، حرام عليكم إلى ان تلقوا ربكم، كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا"، ثم قال:" ليبلغ الشاهد منكم الغائب، فلعل الغائب ان يكون اوعى له من الشاهد" .حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَشْعَثُ ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ عَلَى نَاقَةٍ لَهُ، قَالَ: فَجَعَلَ يَتَكَلَّمُ هَاهُنَا مَرَّةً، وَهَاهُنَا مَرَّةً عِنْدَ كُلِّ قَوْمٍ، ثُمَّ قَالَ:" أَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟" قَالَ: فَسَكَتْنَا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ غَيْرَ اسْمِهِ، قَالَ" أَلَيْسَ يَوْمَ النَّحْرِ؟" قَالَ: قُلْنَا: بَلَى، ثُمَّ قَالَ:" أَيُّ شَهْرٍ هَذَا؟" قَالَ: فَسَكَتْنَا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ غَيْرَ اسْمِهِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ:" أَلَيْسَ ذَا الْحِجَّةِ؟" قَالَ: قُلْنَا: بَلَى، ثُمَّ قَالَ:" أَيُّ بَلَدٍ هَذَا؟" قَالَ: فَسَكَتْنَا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيُسَمِّيهِ غَيْرَ اسْمِهِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ:" أَلَيْسَ الْبَلْدَةَ الْحَرَامَ؟" قَالَ: قُلْنَا: بَلَى، قَالَ:" فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ، وَأَمْوَالَكُمْ، وَأَعْرَاضَكُمْ، حَرَامٌ عَلَيْكُمْ إِلَى أَنْ تَلْقَوْا رَبَّكُمْ، كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا، فِي شَهْرِكُمْ هَذَا، فِي بَلَدِكُمْ هَذَا"، ثُمَّ قَالَ:" لِيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ مِنْكُمْ الْغَائِبَ، فَلَعَلَّ الْغَائِبَ أَنْ يَكُونَ أَوْعَى لَهُ مِنَ الشَّاهِدِ" .
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دینے کے لئے اونٹ پر سوار ہوئے ایک آدمی نے اس کی لگام پکڑ لی پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بتاؤ کہ آج کون سا دن ہے؟ ہم نے عرض کی کہ اللہ اور اس کے رسول ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر خاموش رہے۔ کہ ہم یہ سمجھے کہ شاید نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا دوسرا نام بتائیں گے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ یوم النحر نہیں ہے ہم نے عرض کیا کیوں نہیں پھر فرمایا یہ کون سا مہینہ ہے ہم نے عرض کی اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر خاموش رہے کہ ہم یہ سمجھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کا دوسرا نام بتائیں گے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے ہم نے عرض کیا کیوں نہیں پھر فرمایا کہ یہ کون سا شہر ہے ہم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم حسب سابق خاموش رہے پھر فرمایا کیا یہ شہر حرم نہیں ہے ہم نے عرض کیا کیوں نہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری جان اور مال اور عزت آبرو ایک دوسرے کے لئے اسی طرح قابل احترام ہے جیسا کہ اس شہر میں اس مہینے کے اس دن کی حرمت ہے اور عنقریب تم اپنے رب سے ملو گے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھے گا۔ یاد رکھو میرے بعد گمراہ نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ کیا میں نے پیغام الٰہی پہنچا دیا؟ تم میں سے جو موجود ہے وہ غائبین تک یہ پیغام پہنچا دے کیونکہ بعض اوقات جسے پیغام پہنچایا جاتا ہے وہ سننے والے سے زیادہ محفوظ رکھتا ہے راوی کہتے ہیں کہ ایسا ہی ہوا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 67، م: 1679، وهذا إسناد ضعيف لضعف الأشعث، ولانقطاعه بين ابن سيرين وأبي بكرة
حدثنا يزيد ، اخبرنا حماد بن سلمة ، عن زياد الاعلم ، عن الحسن ، عن ابي بكرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" استفتح الصلاة، فكبر، ثم اوما إليهم ان مكانكم، ثم دخل، فخرج وراسه يقطر، فصلى بهم، فلما قضى الصلاة، قال:" إنما انا بشر، وإني كنت جنبا" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ زِيَادٍ الْأَعْلَمِ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اسْتَفْتَحَ الصَّلَاةَ، فَكَبَّرَ، ثُمَّ أَوْمَأَ إِلَيْهِمْ أَنْ مَكَانَكُمْ، ثُمَّ دَخَلَ، فَخَرَجَ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ، فَصَلَّى بِهِمْ، فَلَمَّا قَضَى الصَّلَاةَ، قَالَ:" إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، وَإِنِّي كُنْتُ جُنُبًا" .
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا آغاز کیا اور تکبیر کہی پھر صحابہ کو اشارہ سے فرمایا کہ اپنی جگہ رہو پھر گھر تشریف لے گئے جب باہر آئے تو سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے پھر نماز پڑھائی اور نماز کے بعد فرمایا کہ میں بھی ایک انسان ہی ہوں مجھ پر غسل واجب تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، الحسن البصري مدلس، وقد عنعنه
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن خالد الحذاء ، عن عبد الرحمن بن ابي بكرة ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم انهم ذكروا رجلا عنده، فقال رجل: يا رسول الله، ما من رجل بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم افضل منه في كذا وكذا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ويحك، قطعت عنق صاحبك" مرارا يقول ذلك، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن كان احدكم مادحا اخاه لا محالة، فليقل احسب فلانا إن كان يرى انه كذاك ولا ازكي على الله احدا، وحسيبه الله، احسبه كذا وكذا" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ ذَكَرُوا رَجُلًا عِنْدَهُ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا مِنْ رَجُلٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْضَلُ مِنْهُ فِي كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَيْحَكَ، قَطَعْتَ عُنُقَ صَاحِبِكَ" مِرَارًا يَقُولُ ذَلِكَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ كَانَ أَحَدُكُمْ مَادِحًا أَخَاهُ لَا مَحَالَةَ، فَلْيَقُلْ أَحْسَبُ فُلَانًا إِنْ كَانَ يَرَى أَنَّهُ كَذَاكَ وَلَا أُزَكِّي عَلَى اللَّهِ أَحَدًا، وَحَسِيبُهُ اللَّهُ، أَحْسَبُهُ كَذَا وَكَذَا" .
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں لوگ ایک آدمی کا تذکرہ کررہے تھے ایک آدمی کہنے لگا یا رسول اللہ آپ کے بعد فلاں فلاں عمل میں اس شخص سے زیادہ کوئی افضل معلوم نہیں ہوتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا افسوس تم نے اپنے ساتھی کی گردن توڑ دی یہ جملہ کئی مرتبہ دہرایا اور فرمایا اگر تم میں سے کسی نے اپنے بھائی کی تعریف ضرور کرنی ہی ہو تو اسے یوں کہنا چاہیے میں یہ سمجھتا ہوں کہ فلاں آدمی اس طرح دکھائی دیتا ہے اور میں اللہ کے سامنے کسی کی پاکی بیان نہیں کرتا اور اس کا حقیقی نگہبان اللہ ہے میں اسے اس اس طرح سمجھتا ہوں۔