حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن بكير بن عطاء ، قال: سمعت عبد الرحمن بن يعمر ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وساله رجل عن الحج بعرفة فقال: " الحج يوم عرفة، او عرفات ومن ادرك ليلة جمع قبل صلاة الصبح، فقد تم حجه، ايام منى ثلاثة، فمن تعجل في يومين، فلا إثم عليه، ومن تاخر، فلا إثم عليه" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَعْمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنِ الْحَجِّ بِعَرَفَةَ فَقَالَ: " الْحَجُّ يَوْمُ عَرَفَةَ، أَوْ عَرَفَاتٍ وَمَنْ أَدْرَكَ لَيْلَةَ جَمْعٍ قَبْلَ صَلَاةِ الصُّبْحِ، فَقَدْ تَمَّ حَجُّهُ، أَيَّامُ مِنًى ثَلَاَثَةٌ، فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ، فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ، وَمَنْ تَأَخَّرَ، فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ" .
حضرت عبدالرحمن بن یعمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرفہ کے دن حج کے متعلق پوچھا تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ حج تو ہوتا ہی عرفہ کے دن ہے جو شخص مزدلفہ کی رات نماز فجر ہونے سے پہلے بھی میدان عرفات کو پالے تو اس کا حج مکمل ہوگیا اور منٰی کے تین دن ہیں سو جو شخص پہلے ہی دو دن میں واپس آجائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو بعد میں آجائے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔
حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن بكير بن عطاء الليثي ، قال سمعت عبد الرحمن بن يعمر الديلي ، يقول: شهدت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو واقف بعرفة واتاه ناس من اهل نجد، فقالوا: يا رسول الله، كيف الحج؟ فقال: " الحج عرفة، فمن جاء قبل صلاة الفجر من ليلة جمع، فقد تم حجه، ايام منى ثلاثة ايام، فمن تعجل في يومين، فلا إثم عليه، ومن تاخر، فلا إثم عليه"، ثم اردف رجلا خلفه، فجعل ينادي بهن .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ اللَّيْثِيِّ ، قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَعْمَرَ الدِّيلِيَّ ، يَقُولُ: شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ وَاقِفٌ بِعَرَفَةَ وَأَتَاهُ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ الْحَجُّ؟ فَقَالَ: " الْحَجُّ عَرَفَةُ، فَمَنْ جَاءَ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ مِنْ لَيْلَةِ جَمْعٍ، فَقَدْ تَمَّ حَجُّهُ، أَيَّامُ مِنًى ثَلَاَثَةُ أَيَّامٍ، فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ، فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ، وَمَنْ تَأَخَّرَ، فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ"، ثُمَّ أَرْدَفَ رَجُلًا خَلْفَهُ، فَجَعَلَ يُنَادِي بِهِنَّ .
حضرت عبدالرحمن بن یعمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرفہ کے دن حج کے متعلق پوچھا تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ حج تو ہوتا ہی عرفہ کے دن ہے جو شخص مزدلفہ کی رات نماز فجر ہونے سے پہلے بھی میدان عرفات کو پالے تو اس کا حج مکمل ہوگیا اور منٰی کے تین دن ہیں سو جو شخص پہلے ہی دو دن میں واپس آجائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو بعد میں آجائے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اپنے پیچھے بٹھالیا جو ان باتوں کی منادی کرنے لگا۔
حدثنا روح ، حدثنا شعبة ، عن بكير بن عطاء الليثي ، قال: سمعت عبد الرحمن بن يعمر الديلي ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول وساله رجل عن الحج، فقال: " الحج يوم عرفات، او عرفة، من ادرك ليلة جمع قبل ان يصلي الصبح، فقد ادرك الحج، ايام منى ثلاثة ايام، فمن تعجل في يومين، فلا إثم عليه ومن تاخر، فلا إثم عليه" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ اللَّيْثِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَعْمَرَ الدِّيلِيَّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ وَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنِ الْحَجِّ، فَقَالَ: " الْحَجُّ يَوْمُ عَرَفَاتٍ، أَوْ عَرَفَةَ، مَنْ أَدْرَكَ لَيْلَةَ جَمْعٍ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَ الصُّبْحَ، فَقَدْ أَدْرَكَ الْحَجَّ، أَيَّامُ مِنًى ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ، فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ، فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَنْ تَأَخَّرَ، فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ" .
حضرت عبدالرحمن بن یعمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرفہ کے دن حج کے متعلق پوچھا تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ حج تو ہوتا ہی عرفہ کے دن ہے جو شخص مزدلفہ کی رات نماز فجر ہونے سے پہلے بھی میدان عرفات کو پالے تو اس کا حج مکمل ہوگیا اور منٰی کے تین دن ہیں سو جو شخص پہلے ہی دو دن میں واپس آجائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو بعد میں آجائے اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔
حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن عبد الملك بن عمير ، قال: سمعت عطية القرظي ، يقول: عرضنا على النبي صلى الله عليه وسلم يوم قريظة، فكان من انبت قتل، ولم ينبت خلي سبيله، فكنت فيمن لم ينبت فخلي سبيلي" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطِيَّةَ الْقُرَظِيَّ ، يَقُولُ: عُرِضْنَا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ قُرَيْظَةَ، فَكَانَ مَنْ أَنْبَتَ قُتِلَ، وَلَمْ يُنْبِتْ خُلِّيَ سَبِيلُهُ، فَكُنْتُ فِيمَنْ لَمْ يُنْبِتْ فَخُلِّيَ سَبِيلِي" .
حضرت عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بنوقریظہ کے موقع پر ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو یہ فیصلہ ہوا کہ جس کے زیر ناف بال اگ آئے ہیں اسے قتل کردیا جائے اور جس کے زیر ناف بال نہیں اگے اس کا راستہ چھوڑ دیا جائے میں ان لوگوں میں سے تھا جن کے بال نہیں اگے تھے لہٰذا مجھے چھوڑ دیا گیا۔
حدثنا علي بن عاصم ، اخبرنا المغيرة ، عن شباك ، عن عامر ، اخبرني فلان الثقفي ، قال: سالنا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ثلاث فلم يرخص لنا في شيء منهن، سالناه ان يرد إلينا ابا بكرة وكان مملوكا واسلم قبلنا، فقال: " لا، هو طليق الله، ثم طليق رسول الله صلى الله عليه وسلم" ثم سالناه ان يرخص لنا في الشتاء، وكانت ارضنا ارضا باردة يعني في الطهور، فلم يرخص لنا، وسالناه ان يرخص لنا في الدباء فلم يرخص لنا فيه .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ ، أَخْبَرَنَا الْمُغِيرَةُ ، عَنْ شِبَاك ، ٍعَنْ عَامِرٍ ، أَخْبَرَنِي فُلَاَنٌ الثَّقَفِيُّ ، قَالَ: سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَلَاَثٍ فَلَمْ يُرَخِّصْ لَنَا فِي شَيْءٍ مِنْهُنَّ، سَأَلْنَاهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْنَا أَبَا بَكْرَةَ وَكَانَ مَمْلُوكًا وَأَسْلَمَ قَبْلَنَا، فَقَالَ: " لَا، هُوَ طَلِيقُ اللَّهِ، ثُمَّ طَلِيقُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ثُمَّ سَأَلْنَاهُ أَنْ يُرَخِّصَ لَنَا فِي الشِّتَاءِ، وَكَانَتْ أَرْضُنَا أَرْضًا بَارِدَةً يَعْنِي فِي الطَّهُورِ، فَلَمْ يُرَخِّصْ لَنَا، وَسَأَلْنَاهُ أَنْ يُرَخِّصَ لَنَا فِي الدُّبَّاءِ فَلَمْ يُرَخِّصْ لَنَا فِيهِ .
ایک ثقفی صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تین چیزوں کی درخواست کی تھی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رخصت نہیں دی، ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہمارا علاقہ بہت ٹھنڈا ہے ہمیں نماز سے قبل وضو نہ کرنے کی رخصت دے دیں، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت نہیں دی پھر ہم نے کدو کے برتن کی اجازت مانگی تو اس وقت اس کی بھی اجازت نہیں دی پھر ہم نے درخواست کی کہ ابوبکرہ کو ہمارے حوالے کردیں؟ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا اور فرمایا وہ اللہ اور اس کے رسول کا آزاد کردہ ہے دراصل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت طائف کا محاصرہ کیا تھا تو حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے وہاں سے نکل کر اسلام قبول کرلیا تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف ، على بن عاصم ضعيف، لكنه توبع
حدثنا وكيع ، حدثنا ابان بن عبد الله البجلي ، حدثني عمومتي ، عن جدهم صخر بن عيلة ان قوما من بني سليم فروا عن ارضهم حين جاء الإسلام، فاخذتها، فاسلموا، فخاصموني فيها إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فردها عليهم، وقال: " إذا اسلم الرجل، فهو احق بارضه وماله" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَجَلِيُّ ، حَدَّثَنِي عُمُومَتِي ، عَنْ جَدِّهِمْ صَخْرِ بْنِ عَيْلَةَ أَنَّ قَوْمًا مِنْ بَنِي سُلَيْمٍ فَرُّوا عَنْ أَرْضِهِمْ حِينَ جَاءَ الْإَِسْلَامُ، فَأَخَذْتُهَا، فَأَسْلَمُوا، فَخَاصَمُونِي فِيهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَدَّهَا عَلَيْهِمْ، وَقَالَ: " إِذَا أَسْلَمَ الرَّجُلُ، فَهُوَ أَحَقُّ بِأَرْضِهِ وَمَالِهِ" .
حضرت صخر بن عیلہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب اسلام آیا تو بنوسلیم کے کچھ لوگ اپنی جائیدادیں چھوڑ کر بھاگ گئے میں نے ان پر قبضہ کرلیا وہ لوگ مسلمان ہوگئے اور ان جائیدادوں کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میرے خلاف مقدمہ کردیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ جائیدادیں انہیں واپس لوٹا دیں اور فرمایا جب کوئی شخص مسلمان ہوجائے تو اپنی زمین اور مال کا سب سے زیادہ حقدار وہی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، فقد اختلف فيه على أبان بن عبدالله البجلي
حضرت عبداللہ بن عکیم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک خط ہمارے پاس آیا جبکہ ہم جہینہ میں رہتے تھے اور میں اس وقت نوجوان تھا کہ مردار جانور کی کھال اور پٹھوں سے کوئی فائدہ مت اٹھاؤ۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، فيه علتان، أولاهما: الانقطاع، عبد الله بن عكيم أدرك زمان رسول الله* ولا يعرف له سماع صحيح، وثانيهما: الاضطراب
عیسیٰ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عکیم رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ بیمار ہوگئے ہم ان کی عیادت کے لئے حاضر ہوئے تو کسی نے کہا کہ آپ کوئی تعویذ وغیرہ گلے میں ڈال لیتے؟ انہوں نے فرمایا میں کوئی چیز لٹکاؤں گا؟ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص کوئی بھی چیز لٹکائے گا وہ اسی کے حوالے کردیا جائے گا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، عبدالله بن عكيم لم يسمع من النبى * ، وابن أبى ليلى سيئ الحفظ، وعيسى لم يلق عبدالله بن عكيم