حدثنا ابو اليمان ، اخبرنا شعيب ، عن الزهري ، اخبرني علي بن حسين ، ان المسور بن مخرمة اخبره، ان علي بن ابي طالب خطب ابنة ابي جهل، وعنده فاطمة ابنة النبي صلى الله عليه وسلم، فلما سمعت بذلك فاطمة اتت النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت له: إن قومك يتحدثون انك لا تغضب لبناتك، وهذا علي ناكح ابنة ابي جهل، قال المسور: فقام النبي صلى الله عليه وسلم، فسمعته حين تشهد، ثم قال:" اما بعد، فإني انكحت ابا العاص بن الربيع، فحدثني فصدقني، وإن فاطمة بنت محمد بضعة مني، وانا اكره ان تفتنوها، وإنها والله لا تجتمع ابنة رسول الله وابنة عدو الله عند رجل واحد ابدا" قال: فترك علي الخطبة .حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخَبَرَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ خَطَبَ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ، وَعِنْدَهُ فَاطِمَةُ ابْنَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا سَمِعَتْ بِذَلِكَ فَاطِمَةُ أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ لَهُ: إِنَّ قَوْمَكَ يَتَحَدَّثُونَ أَنَّكَ لَا تَغْضَبُ لِبَنَاتِكَ، وَهَذَا عَلِيٌّ نَاكِحٌ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ، قَالَ الْمِسْوَرُ: فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْتُهُ حِينَ تَشَهَّدَ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَنْكَحْتُ أَبَا الْعَاصِ بْنَ الرَّبِيعِ، فَحَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي، وَإِنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ بَضْعَةٌ مِنِّي، وَأَنَا أَكْرَهُ أَنْ تَفْتِنُوهَا، وَإِنَّهَا وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ وَابْنَةُ عَدُوِّ اللَّهِ عِنْدَ رَجُلٍ وَاحِدٍ أَبَدًا" قَالَ: فَتَرَكَ عَلِيٌّ الْخِطْبَةَ .
حضرت مسور رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں) ابوجہل کی بیٹی کے پاس پیغام نکاح بھیجا اور نکاح کا وعدہ کرلیا اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں آپ کی قوم کے لوگ آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کے معاملے میں بھی غصہ نہیں آتا کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کے پاس پیغام نکاح بھیجا ہے یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے درمیان کھڑے ہوئے اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور فرمایا فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے میں اس بات کو اچھا نہیں سمجھتا کہ اسے آزمائش میں مبتلا کیا جائے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بڑے داماد حضرت ابوالعاص بن الربیع رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا اور ان کی خوب تعریف فرمائی، پھر فرمایا کہ اللہ کے نبی کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتی چناچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ خیال ترک کردیا۔
حدثنا يعقوب يعني ابن إبراهيم ، حدثنا ابي ، عن الوليد بن كثير ، حدثني محمد بن عمرو بن حلحلة الدؤلي ، ان ابن شهاب حدثه، ان علي بن الحسين حدثه، انهم حين قدموا المدينة من عند يزيد بن معاوية مقتل حسين بن علي لقيه المسور بن مخرمة ، فقال: هل لك إلي من حاجة تامرني بها؟ قال: فقلت له: لا، قال له: هل انت معطي سيف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإني اخاف ان يغلبك القوم عليه، وايم الله، لئن اعطيتنيه لا يخلص إليه ابدا حتى تبلغ نفسي، إن علي بن ابي طالب خطب ابنة ابي جهل على فاطمة، فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يخطب الناس في ذلك على منبره هذا وانا يومئذ محتلم، فقال:" إن فاطمة بضعة مني، وانا اتخوف ان تفتن في دينها" قال: ثم ذكر صهرا له من بني عبد شمس، فاثنى عليه في مصاهرته إياه، فاحسن، قال: " حدثني فصدقني، ووعدني فوفى لي، وإني لست احرم حلالا ولا احل حراما، ولكن والله لا تجتمع ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وابنة عدو الله مكانا واحدا ابدا" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ الدُّؤَلِيُّ ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُمْ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ مِنْ عِنْدِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ مَقْتَلَ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ لَقِيَهُ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ إِلَيَّ مِنْ حَاجَةٍ تَأْمُرُنِي بِهَا؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: لاَ، قَالَ لَهُ: هَلْ أَنْتَ مُعْطِيَّ سَيْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَغْلِبَكَ الْقَوْمُ عَلَيْهِ، وَأَيْمُ اللَّهِ، لَئِنْ أَعْطَيْتَنِيهِ لَا يُخْلَصُ إِلَيْهِ أَبَدًا حَتَّى تَبْلُغَ نَفْسِي، إِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ خَطَبَ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ عَلَى فَاطِمَةَ، فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ النَّاسَ فِي ذَلِكَ عَلَى مِنْبَرِهِ هَذَا وَأَنَا يَوْمَئِذٍ مُحْتَلِمٌ، فَقَالَ:" إِنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّي، وَأَنَا أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا" قَالَ: ثُمَّ ذَكَرَ صِهْرًا لَهُ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، فَأَثْنَى عَلَيْهِ فِي مُصَاهَرَتِهِ إِيَّاهُ، فَأَحْسَنَ، قَالَ: " حَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي، وَوَعَدَنِي فَوَفَى لِي، وَإِنِّي لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلَالًا وَلَا أُحِلُّ حَرَامًا، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَابْنَةُ عَدُوِّ اللَّهِ مَكَانًا وَاحِدًا أَبَدًا" .
امام زین العابدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعدجب وہ لوگ یزید کے پاس سے مدینہ منورہ پہنچے تو حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ ان سے ملے اور فرمایا آپ کو مجھ سے کوئی کام ہو تو بتائیے؟ میں نے کہا نہیں، انہوں نے فرمایا کیا آپ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار دے سکتے ہیں کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ آپ پر غالب آجائیں گے واللہ اگر آپ وہ مجھے دے دیں تو میری جان سے گذر کر ہی کوئی آدمی اس تک پہنچ سکے گا ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں) ابوجہل کی بیٹی کے پاس پیغام نکاح بھیجا اور نکاح کا وعدہ کرلیا اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں عنہا کہنے لگیں آپ کی قوم کے لوگ آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کے معاملے میں بھی غصہ نہیں آتا کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کے پاس پیغام نکاح بھیجا ہے یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے درمیان کھڑے ہوئے اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور فرمایا فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے میں اس بات کو اچھا نہیں سمجھتا کہ اسے آزمائش میں مبتلا کیا جائے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بڑے داماد حضرت ابوالعاص بن الربیع رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا اور ان کی خوب تعریف فرمائی، پھر فرمایا کہ میں کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال تو نہیں کرتا البتہ اللہ کے نبی کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتی چناچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ خیال ترک کردیا۔
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابن اخي ابن شهاب ، عن عمه ، قال: وزعم عروة بن الزبير ، ان مروان ، والمسور بن مخرمة اخبراه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قام حين جاءه وفد هوازن مسلمين، فسالوا ان يرد إليهم اموالهم وسبيهم، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: " معي من ترون، واحب الحديث إلي اصدقه، فاختاروا إحدى الطائفتين: إما السبي، وإما المال، وقد كنت استانيت بكم" وكان انظرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بضع عشرة ليلة حين قفل من الطائف، فلما تبين لهم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم غير راد إليهم إلا إحدى الطائفتين، قالوا: فإنا نختار سبينا، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسلمين، فاثنى على الله عز وجل بما هو اهله، ثم قال:" اما بعد، فإن إخوانكم قد جاءوا تائبين، وإني قد رايت ان ارد إليهم سبيهم، فمن احب منكم ان يطيب ذلك فليفعل، ومن احب منكم ان يكون على حظه حتى نعطيه إياه من اول ما يفيء الله عز وجل علينا فليفعل"، فقال الناس: قد طيبنا ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنا لا ندري من اذن منكم في ذلك ممن لم ياذن، فارجعوا حتى يرفع إلينا عرفاؤكم امركم" فجمع الناس، فكلمهم عرفاؤهم، ثم رجعوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبروه انهم قد طيبوا واذنوا . هذا الذي بلغني عن سبي هوازن.حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمِّهِ ، قَالَ: وَزَعَمَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ مَرْوَانَ ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ، فَسَأَلُوا أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَعِي مَنْ تَرَوْنَ، وَأَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ، فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ: إِمَّا السَّبْيُ، وَإِمَّا الْمَالُ، وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِكُمْ" وَكَانَ أَنْظَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنَ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ، قَالُوا: فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُسْلِمِينَ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ قَدْ جَاءُوا تَائِبِينَ، وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ"، فَقَالَ النَّاسُ: قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ فِي ذَلِكَ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ" فَجَمَعَ النَّاسُ، فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا . هَذَا الَّذِي بَلَغَنِي عَنْ سَبْيِ هَوَازِنَ.
حضرت مروان رضی اللہ عنہ اور مسور رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب بنوہوازن کے مسلمانوں کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان لوگوں نے درخواست کی کہ ان کے قیدی اور مال و دولت واپس کردیا جائے (کیونکہ اب وہ مسلمان ہوگئے ہیں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے ساتھ جتنے لوگ ہیں تم انہیں دیکھ رہے ہو سچی بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے اس لئے دو میں سے کوئی ایک صورت اختیار کرلو یا قیدی یا مال؟ میں تمہیں سوچنے کا وقت دیتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے واپسی کے بعد دس سے کچھ اوپر راتیں انہیں سوچنے کی مہلت دی جب انہیں یقین ہوگیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں صرف ایک ہی چیز واپس کریں گے تو وہ کہنے لگے کہ ہم قیدیوں کو چھڑانے والی صورت کو ترجیح دیتے ہیں چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد وثناء اس کے شایان شان کی پھر امابعد کہہ کر فرمایا کہ تمہارے بھائی تائب ہو کر آئے ہیں میری رائے یہ بن رہی ہے کہ انہیں ان کے قیدی واپس لوٹادوں سو تم میں سے جو شخص اپنے دل کی خوشی سے ایسا کرسکتا ہو تو وہ ایسا ہی کرلے؟ لوگ کہنے لگے کہ ہم خوشی سے اس کی اجازت دیتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمیں کیا معلوم کہ تم میں سے کس نے اپنی خوشی سے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں؟ اس لئے اب تم لوگ واپس چلے جاؤ یہاں تک کہ تمہارے بڑے ہمارے سامنے تمہاری اجازت کا معاملہ پیش کریں چناچہ لوگ واپس چلے گئے پھر ان کے بڑوں نے ان سے بات کی اور واپس آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ سب نے اپنی خوشی سے ہی اجازت دی ہے بنوہوازن کے قیدیوں کے متعلق مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2307، ابن أخي ابن شهاب حديثه فوق الحسن. وهذا الحديث من مراسيل الصحابة
حدثنا ابو اليمان ، اخبرنا شعيب ، عن الزهري ، حدثنا عروة بن الزبير ، ان المسور بن مخرمة اخبره، ان عمرو ابن عوف الانصاري وهو حليف بني عامر بن لؤي، وكان قد شهد بدرا مع النبي صلى الله عليه وسلم اخبره:" ان النبي صلى الله عليه وسلم بعث ابا عبيدة بن الجراح إلى البحرين ياتي بجزيتها، وكان النبي صلى الله عليه وسلم صالح اهل البحرين، وامر عليهم العلاء بن الحضرمي، فقدم ابو عبيدة بمال من البحرين". فذكر الحديث يعني مثل حديث معمر..حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِي ، حَدَّثَنَا عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أخْبَرَهُ، أَنَّ عَمْرَو ابْنَ عَوْفٍ الْأنْصَارِيَّ وَهُوَ حَلِيفُ بَنِي عَامِرِ بْنِ لُؤَيٍّ، وَكَانَ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَهُ:" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ إِلَى الْبَحْرَيْنِ يَأْتِي بِجِزْيَتِهَا، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَالَحَ أَهْلَ الْبَحْرَيْنِ، وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ، فَقَدِمَ أَبُو عُبَيْدَةَ بِمَالٍ مِنَ الْبَحْرَيْنِ". فَذَكَرَ الْحَدِيثَ يَعْنِي مِثْلَ حَدِيثِ مَعْمَرٍ..
حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ جو کہ غزوہ بدر کے شرکاء میں سے تھے " سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کو بحرین کی طرف بھیجا تاکہ وہاں سے جزیہ وصول کرکے لائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بحرین سے صلح کرلی تھی اور ان پر حضرت علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ کو امیر بنادیا تھا چناچہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بحرین سے مال لے کر آئے۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ حضرت مسوربن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بحرین سے مال لے کر آئے، انصار کو جب ان کے آنے کا پتہ چلا تو وہ نماز فجر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز فجر پڑھ کر فارغ ہوئے تو وہ سامنے آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر مسکرا پڑے اور فرمایا شاید تم نے ابوعبیدہ کی واپسی اور ان کے کچھ لے آنے کی خبر سنی ہے؟ انہوں نے عرض کیا جی یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خوش ہوجاؤ اور اس چیز کی امید رکھو جس سے تم خوش ہوجاؤگے واللہ مجھے تم پر فقر و فاقہ کا اندیشہ نہیں بلکہ مجھے تو اندیشہ ہے کہ تم پر دنیا اسی طرح کشادہ کردی جائے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر کشادہ کردی گئی تھی اور تم اس میں ان ہی کی طرح مقابلہ بازی کرنے لگوگے۔
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن عروة بن الزبير ، عن المسور بن مخرمة ، قال: سمعت الانصار ان ابا عبيدة قدم بمال من قبل البحرين، وكان النبي صلى الله عليه وسلم بعثه على البحرين، فوافق مع رسول الله صلاة الصبح، فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم، تعرضوا، فلما رآهم، تبسم، وقال:" لعلكم سمعتم ان ابا عبيدة بن الجراح قدم وقدم بمال"، قالوا: اجل يا رسول الله، قال: قال: " ابشروا واملوا خيرا، فوالله ما الفقر اخشى عليكم، ولكن إذا صبت عليكم الدنيا، فتنافستموها كما تنافسها من كان قبلكم" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، قَالَ: سَمِعَتْ الْأَنْصَارُ أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ قَدِمَ بِمَالٍ مِنْ قِبَلِ الْبَحْرَيْنِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ عَلَى الْبَحْرَيْنِ، فَوَافَق مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَاةَ الصُّبْحِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَعَرَّضُوا، فَلَمَّا رَآهُمْ، تَبَسَّمَ، وَقَالَ:" لَعَلَّكُمْ سَمِعْتُمْ أَنَّ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ قَدِمَ وَقَدِمَ بِمَالٍ"، قَالُوا: أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ: " أَبْشِرُوا وَأَمِّلُوا خَيْرًا، فَوَاللَّهِ مَا الْفَقْرُ أَخْشَى عَلَيْكُمْ، وَلَكِنْ إِذَا صُبَّتْ عَلَيْكُمْ الدُّنْيَا، فَتَنَافَسْتُمُوهَا كَمَا تَنَافَسَهَا مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ" .
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سبیعہ کے یہاں اپنے شوہر کی وفات کے چند دن بعد ہی بچے کی ولادت ہوگئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم حلال ہوچکی ہو لہٰذا نکاح کرسکتی ہو۔
حدثنا حماد بن اسامة ، اخبرنا هشام ، عن ابيه ، عن المسور بن مخرمة ،" ان سبيعة الاسلمية توفي عنها زوجها وهي حامل، فلم تمكث إلا ليالي حتى وضعت، فلما تعلت من نفاسها خطبت، فاستاذنت النبي صلى الله عليه وسلم في النكاح، فاذن لها ان تنكح، فنكحت" ..حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ ، أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ،" أَنَّ سُبَيْعَةَ الْأَسْلَمِيَّةَ تُوُفِّيَ عَنْهَا زَوْجُهَا وَهِيَ حَامِلٌ، فَلَمْ تَمْكُثْ إِلَّا لَيَالِيَ حَتَّى وَضَعَتْ، فَلَمَّا تَعَلَّتْ مِنْ نِفَاسِهَا خُطِبَتْ، فَاسْتَأْذَنَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النِّكَاحِ، فَأَذِنَ لَهَا أَنْ تَنْكِحَ، فَنَكَحَتْ" ..
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سبیعہ کے یہاں اپنے شوہر کی وفات کے چند دن بعد ہی بچے کی ولادت ہوگئی اور وہ دوسرے رشتے کے لئے تیار ہونے لگیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کی اجازت مانگی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی اور انہوں نے دوسرا نکاح کرلیا۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن عروة بن الزبير ، عن المسور بن مخرمة ، ومروان ، قالا: " قلد رسول الله صلى الله عليه وسلم الهدي، واشعره، بذي الحليفة، واحرم منها بالعمرة، حلق بالحديبية في عمرته، وامر اصحابه بذلك، ونحر بالحديبية قبل ان يحلق، وامر اصحابه بذلك" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ ، وَمَرْوَانَ ، قَالاَ: " قَلَّدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْهَدْيَ، وَأَشْعَرَهُ، بِذِي الْحُلَيْفَةِ، وَأَحْرَمَ مِنْهَا بِالْعُمْرَةِ، حَلَقَ بِالْحُدَيْبِيَةِ فِي عُمْرَتِهِ، وَأَمَرَ أَصْحَابَهُ بِذَلِكَ، وَنَحَرَ بِالْحُدَيْبِيَةِ قَبْلَ أَنْ يَحْلِقَ، وَأَمَرَ أَصْحَابَهُ بِذَلِكَ" .
حضرت مسور رضی اللہ عنہ اور مروان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ پہنچ کر ہدی کے جانور کے گلے میں قلادہ باندھا اس کا شعار کیا اور وہاں سے احرام باندھ لیا حدیبیہ میں حلق کرلیا اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کو بھی اس کا حکم دیا اور حلق کرنے سے پہلے ہی قربانی کرلی اور صحابہ رضی اللہ عنہ کو بھی اس کا حکم دیا۔
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن عوف بن الحارث ؛ وهو ابن اخي عائشة لامها، ان عائشة حدثته، ان عبد الله بن الزبير، قال في بيع او عطاء اعطته: والله لتنتهين عائشة، او لاحجرن عليها، فقالت عائشة رضي الله عنها: اوقال هذا؟ قالوا: نعم، قالت: هو لله علي نذر ان لا اكلم ابن الزبير كلمة ابدا، فاستشفع عبد الله بن الزبير المسور بن مخرمة، وعبد الرحمن بن الاسود بن عبد يغوث، وهما من بني زهرة، فذكر الحديث. وطفق المسور ، وعبد الرحمن يناشدان عائشة: إلا كلمته وقبلت منه، ويقولان لها: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد نهى عما قد علمت من الهجر: " إنه لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ الْحَارِثِ ؛ وَهُوَ ابْنُ أَخِي عَائِشَةَ لِأُمِّهَا، أَنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، قَالَ فِي بَيْعٍ أَوْ عَطَاءٍ أَعْطَتْهُ: وَاللَّهِ لَتَنْتَهِيَنَّ عَائِشَةُ، أَوَ لَأَحْجُرَنَّ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَوَقَالَ هَذَا؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَتْ: هُوَ لِلَّهِ عَلَيَّ نَذْرٌ أَنْ لَا أُكَلِّمَ ابْنَ الزُّبَيْرِ كَلِمَةً أَبَدًا، فَاسْتَشْفَعَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ، وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ، وَهُمَا مِنْ بَنِي زُهْرَةَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. وَطَفِقَ الْمِسْوَرُ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ يُنَاشِدَانِ عَائِشَةَ: إِلَّا كَلَّمَتْهُ وَقَبِلَتْ مِنْهُ، وَيَقُولَانِ لَهَا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَهَى عَمَّا قَدْ عَلِمْتِ مِنَ الْهَجْرِ: " إِنَّهُ لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ انہوں نے کوئی بیع کی یا کسی کو کوئی بخشش دی تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ (جو ان کے بھانجے تھے) نے کہا کہ بخدا! عائشہ رضی اللہ عنہ کو رکنا پڑے گا ورنہ میں انہیں اب کچھ نہیں دوں گا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو فرمایا کیا اس نے یہ بات کہی ہے؟ لوگوں نے بتایاجی ہاں! فرمایا میں اللہ کے نام پر منت مانتی ہوں کہ آج کے بعد ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے کبھی کوئی بات نہیں کروں گی پھر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن اسود رضی اللہ عنہ جن کا تعلق بنو زہرہ سے تھا " سے سفارش کروائی۔۔۔۔۔۔ یہ دونوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے بات کرنے اور ان کی معذرت قبول کرنے کے لئے قسمیں دیتے رہے اور کہنے لگے کہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قطع کلامی سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کسی مسلمان کے لئے اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع کلامی جائز نہیں ہے۔ طفیل بن حارث " جو کہ ازدشنوہ کے ایک فرد تھے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے ماں شریک بھائی بھائی تھے " سے مروی ہے۔۔۔۔۔ پھر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبدالرحمن بن اسود رضی اللہ عنہ جن کا تعلق بنو زہرہ سے تھا " سے سفارش کروائی۔۔۔۔۔۔ یہ دونوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے بات کرنے اور ان کی معذرت قبول کرنے کے لئے قسمیں دیتے رہے اور کہنے لگے کہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قطع کلامی سے منع کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ کسی مسلمان کے لئے اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع کلامی جائز نہیں ہے۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔