حدثنا يعقوب ، حدثنا ابن اخي ابن شهاب ، عن عمه ، قال: وزعم عروة بن الزبير ، ان مروان ، والمسور بن مخرمة اخبراه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قام حين جاءه وفد هوازن مسلمين، فسالوا ان يرد إليهم اموالهم وسبيهم، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: " معي من ترون، واحب الحديث إلي اصدقه، فاختاروا إحدى الطائفتين: إما السبي، وإما المال، وقد كنت استانيت بكم" وكان انظرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بضع عشرة ليلة حين قفل من الطائف، فلما تبين لهم ان رسول الله صلى الله عليه وسلم غير راد إليهم إلا إحدى الطائفتين، قالوا: فإنا نختار سبينا، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسلمين، فاثنى على الله عز وجل بما هو اهله، ثم قال:" اما بعد، فإن إخوانكم قد جاءوا تائبين، وإني قد رايت ان ارد إليهم سبيهم، فمن احب منكم ان يطيب ذلك فليفعل، ومن احب منكم ان يكون على حظه حتى نعطيه إياه من اول ما يفيء الله عز وجل علينا فليفعل"، فقال الناس: قد طيبنا ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنا لا ندري من اذن منكم في ذلك ممن لم ياذن، فارجعوا حتى يرفع إلينا عرفاؤكم امركم" فجمع الناس، فكلمهم عرفاؤهم، ثم رجعوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاخبروه انهم قد طيبوا واذنوا . هذا الذي بلغني عن سبي هوازن.حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمِّهِ ، قَالَ: وَزَعَمَ عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ مَرْوَانَ ، وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَاهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ حِينَ جَاءَهُ وَفْدُ هَوَازِنَ مُسْلِمِينَ، فَسَأَلُوا أَنْ يَرُدَّ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ وَسَبْيَهُمْ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَعِي مَنْ تَرَوْنَ، وَأَحَبُّ الْحَدِيثِ إِلَيَّ أَصْدَقُهُ، فَاخْتَارُوا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ: إِمَّا السَّبْيُ، وَإِمَّا الْمَالُ، وَقَدْ كُنْتُ اسْتَأْنَيْتُ بِكُمْ" وَكَانَ أَنْظَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً حِينَ قَفَلَ مِنَ الطَّائِفِ، فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ رَادٍّ إِلَيْهِمْ إِلَّا إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ، قَالُوا: فَإِنَّا نَخْتَارُ سَبْيَنَا، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمُسْلِمِينَ، فَأَثْنَى عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ إِخْوَانَكُمْ قَدْ جَاءُوا تَائِبِينَ، وَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنْ أَرُدَّ إِلَيْهِمْ سَبْيَهُمْ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُطَيِّبَ ذَلِكَ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَكُونَ عَلَى حَظِّهِ حَتَّى نُعْطِيَهُ إِيَّاهُ مِنْ أَوَّلِ مَا يُفِيءُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْنَا فَلْيَفْعَلْ"، فَقَالَ النَّاسُ: قَدْ طَيَّبْنَا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّا لَا نَدْرِي مَنْ أَذِنَ مِنْكُمْ فِي ذَلِكَ مِمَّنْ لَمْ يَأْذَنْ، فَارْجِعُوا حَتَّى يَرْفَعَ إِلَيْنَا عُرَفَاؤُكُمْ أَمْرَكُمْ" فَجَمَعَ النَّاسُ، فَكَلَّمَهُمْ عُرَفَاؤُهُمْ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّهُمْ قَدْ طَيَّبُوا وَأَذِنُوا . هَذَا الَّذِي بَلَغَنِي عَنْ سَبْيِ هَوَازِنَ.
حضرت مروان رضی اللہ عنہ اور مسور رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب بنوہوازن کے مسلمانوں کا وفد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو ان لوگوں نے درخواست کی کہ ان کے قیدی اور مال و دولت واپس کردیا جائے (کیونکہ اب وہ مسلمان ہوگئے ہیں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے ساتھ جتنے لوگ ہیں تم انہیں دیکھ رہے ہو سچی بات مجھے سب سے زیادہ پسند ہے اس لئے دو میں سے کوئی ایک صورت اختیار کرلو یا قیدی یا مال؟ میں تمہیں سوچنے کا وقت دیتا ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف سے واپسی کے بعد دس سے کچھ اوپر راتیں انہیں سوچنے کی مہلت دی جب انہیں یقین ہوگیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں صرف ایک ہی چیز واپس کریں گے تو وہ کہنے لگے کہ ہم قیدیوں کو چھڑانے والی صورت کو ترجیح دیتے ہیں چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد وثناء اس کے شایان شان کی پھر امابعد کہہ کر فرمایا کہ تمہارے بھائی تائب ہو کر آئے ہیں میری رائے یہ بن رہی ہے کہ انہیں ان کے قیدی واپس لوٹادوں سو تم میں سے جو شخص اپنے دل کی خوشی سے ایسا کرسکتا ہو تو وہ ایسا ہی کرلے؟ لوگ کہنے لگے کہ ہم خوشی سے اس کی اجازت دیتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمیں کیا معلوم کہ تم میں سے کس نے اپنی خوشی سے اجازت دی ہے اور کس نے نہیں؟ اس لئے اب تم لوگ واپس چلے جاؤ یہاں تک کہ تمہارے بڑے ہمارے سامنے تمہاری اجازت کا معاملہ پیش کریں چناچہ لوگ واپس چلے گئے پھر ان کے بڑوں نے ان سے بات کی اور واپس آکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ سب نے اپنی خوشی سے ہی اجازت دی ہے بنوہوازن کے قیدیوں کے متعلق مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2307، ابن أخي ابن شهاب حديثه فوق الحسن. وهذا الحديث من مراسيل الصحابة