حدثنا ابو اليمان ، اخبرنا شعيب ، عن الزهري ، اخبرني علي بن حسين ، ان المسور بن مخرمة اخبره، ان علي بن ابي طالب خطب ابنة ابي جهل، وعنده فاطمة ابنة النبي صلى الله عليه وسلم، فلما سمعت بذلك فاطمة اتت النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت له: إن قومك يتحدثون انك لا تغضب لبناتك، وهذا علي ناكح ابنة ابي جهل، قال المسور: فقام النبي صلى الله عليه وسلم، فسمعته حين تشهد، ثم قال:" اما بعد، فإني انكحت ابا العاص بن الربيع، فحدثني فصدقني، وإن فاطمة بنت محمد بضعة مني، وانا اكره ان تفتنوها، وإنها والله لا تجتمع ابنة رسول الله وابنة عدو الله عند رجل واحد ابدا" قال: فترك علي الخطبة .حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ ، أَنَّ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ أَخَبَرَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ خَطَبَ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ، وَعِنْدَهُ فَاطِمَةُ ابْنَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا سَمِعَتْ بِذَلِكَ فَاطِمَةُ أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ لَهُ: إِنَّ قَوْمَكَ يَتَحَدَّثُونَ أَنَّكَ لَا تَغْضَبُ لِبَنَاتِكَ، وَهَذَا عَلِيٌّ نَاكِحٌ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ، قَالَ الْمِسْوَرُ: فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْتُهُ حِينَ تَشَهَّدَ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَنْكَحْتُ أَبَا الْعَاصِ بْنَ الرَّبِيعِ، فَحَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي، وَإِنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ بَضْعَةٌ مِنِّي، وَأَنَا أَكْرَهُ أَنْ تَفْتِنُوهَا، وَإِنَّهَا وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ وَابْنَةُ عَدُوِّ اللَّهِ عِنْدَ رَجُلٍ وَاحِدٍ أَبَدًا" قَالَ: فَتَرَكَ عَلِيٌّ الْخِطْبَةَ .
حضرت مسور رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں) ابوجہل کی بیٹی کے پاس پیغام نکاح بھیجا اور نکاح کا وعدہ کرلیا اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں آپ کی قوم کے لوگ آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کے معاملے میں بھی غصہ نہیں آتا کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کے پاس پیغام نکاح بھیجا ہے یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے درمیان کھڑے ہوئے اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور فرمایا فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے میں اس بات کو اچھا نہیں سمجھتا کہ اسے آزمائش میں مبتلا کیا جائے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بڑے داماد حضرت ابوالعاص بن الربیع رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا اور ان کی خوب تعریف فرمائی، پھر فرمایا کہ اللہ کے نبی کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتی چناچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ خیال ترک کردیا۔