حدثنا يعقوب يعني ابن إبراهيم ، حدثنا ابي ، عن الوليد بن كثير ، حدثني محمد بن عمرو بن حلحلة الدؤلي ، ان ابن شهاب حدثه، ان علي بن الحسين حدثه، انهم حين قدموا المدينة من عند يزيد بن معاوية مقتل حسين بن علي لقيه المسور بن مخرمة ، فقال: هل لك إلي من حاجة تامرني بها؟ قال: فقلت له: لا، قال له: هل انت معطي سيف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإني اخاف ان يغلبك القوم عليه، وايم الله، لئن اعطيتنيه لا يخلص إليه ابدا حتى تبلغ نفسي، إن علي بن ابي طالب خطب ابنة ابي جهل على فاطمة، فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يخطب الناس في ذلك على منبره هذا وانا يومئذ محتلم، فقال:" إن فاطمة بضعة مني، وانا اتخوف ان تفتن في دينها" قال: ثم ذكر صهرا له من بني عبد شمس، فاثنى عليه في مصاهرته إياه، فاحسن، قال: " حدثني فصدقني، ووعدني فوفى لي، وإني لست احرم حلالا ولا احل حراما، ولكن والله لا تجتمع ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وابنة عدو الله مكانا واحدا ابدا" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ الدُّؤَلِيُّ ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُمْ حِينَ قَدِمُوا الْمَدِينَةَ مِنْ عِنْدِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ مَقْتَلَ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ لَقِيَهُ الْمِسْوَرُ بْنُ مَخْرَمَةَ ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ إِلَيَّ مِنْ حَاجَةٍ تَأْمُرُنِي بِهَا؟ قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: لاَ، قَالَ لَهُ: هَلْ أَنْتَ مُعْطِيَّ سَيْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يَغْلِبَكَ الْقَوْمُ عَلَيْهِ، وَأَيْمُ اللَّهِ، لَئِنْ أَعْطَيْتَنِيهِ لَا يُخْلَصُ إِلَيْهِ أَبَدًا حَتَّى تَبْلُغَ نَفْسِي، إِنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ خَطَبَ ابْنَةَ أَبِي جَهْلٍ عَلَى فَاطِمَةَ، فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ النَّاسَ فِي ذَلِكَ عَلَى مِنْبَرِهِ هَذَا وَأَنَا يَوْمَئِذٍ مُحْتَلِمٌ، فَقَالَ:" إِنَّ فَاطِمَةَ بَضْعَةٌ مِنِّي، وَأَنَا أَتَخَوَّفُ أَنْ تُفْتَنَ فِي دِينِهَا" قَالَ: ثُمَّ ذَكَرَ صِهْرًا لَهُ مِنْ بَنِي عَبْدِ شَمْسٍ، فَأَثْنَى عَلَيْهِ فِي مُصَاهَرَتِهِ إِيَّاهُ، فَأَحْسَنَ، قَالَ: " حَدَّثَنِي فَصَدَقَنِي، وَوَعَدَنِي فَوَفَى لِي، وَإِنِّي لَسْتُ أُحَرِّمُ حَلَالًا وَلَا أُحِلُّ حَرَامًا، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَا تَجْتَمِعُ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَابْنَةُ عَدُوِّ اللَّهِ مَكَانًا وَاحِدًا أَبَدًا" .
امام زین العابدین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعدجب وہ لوگ یزید کے پاس سے مدینہ منورہ پہنچے تو حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ ان سے ملے اور فرمایا آپ کو مجھ سے کوئی کام ہو تو بتائیے؟ میں نے کہا نہیں، انہوں نے فرمایا کیا آپ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار دے سکتے ہیں کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ لوگ آپ پر غالب آجائیں گے واللہ اگر آپ وہ مجھے دے دیں تو میری جان سے گذر کر ہی کوئی آدمی اس تک پہنچ سکے گا ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے (حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں) ابوجہل کی بیٹی کے پاس پیغام نکاح بھیجا اور نکاح کا وعدہ کرلیا اس پر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں عنہا کہنے لگیں آپ کی قوم کے لوگ آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ آپ کو اپنی بیٹیوں کے معاملے میں بھی غصہ نہیں آتا کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کے پاس پیغام نکاح بھیجا ہے یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے درمیان کھڑے ہوئے اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور فرمایا فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے میں اس بات کو اچھا نہیں سمجھتا کہ اسے آزمائش میں مبتلا کیا جائے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بڑے داماد حضرت ابوالعاص بن الربیع رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا اور ان کی خوب تعریف فرمائی، پھر فرمایا کہ میں کسی حلال کو حرام یا حرام کو حلال تو نہیں کرتا البتہ اللہ کے نبی کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہیں ہوسکتی چناچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ خیال ترک کردیا۔