حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھتے اور بازار آتے اس وقت اگر ہم میں سے کوئی شخص تیر پھینکتا تو وہ تیر گرنے کی جگہ کو بھی دیکھ سکتا تھا۔
حدثنا ابن نمير ، عن يحيى بن سعيد ، عن محمد بن يحيى . ويزيد قال: حدثنا يحيى بن سعيد ، عن محمد بن يحيى ، عن ابن ابي عمرة ، انه سمع زيد بن خالد الجهني، قال يزيد: ان ابا عمرة مولى زيد بن خالد الجهني، انه سمع زيد بن خالد الجهني يحدث، ان رجلا من المسلمين توفي بخيبر، وانه ذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " صلوا على صاحبكم"، قال: فتغيرت وجوه القوم لذلك، فلما راى الذي بهم، قال:" إن صاحبكم غل في سبيل الله"، ففتشنا متاعه، فوجدنا فيه خرزا من خرز اليهود ما يساوي درهمين .حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى . وَيَزِيدُ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَمْرَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ، قَالَ يَزِيدُ: أَنَّ أَبَا عَمْرَةَ مَوْلَى زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ يُحَدِّثُ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ تُوُفِّيَ بِخَيْبَرَ، وَأَنَّهُ ذُكِرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ"، قَالَ: فَتَغَيَّرَتْ وُجُوهُ الْقَوْمِ لِذَلِكَ، فَلَمَّا رَأَى الَّذِي بِهِمْ، قَالَ:" إِنَّ صَاحِبَكُمْ غَلَّ فِي سَبِيلِ اللَّهِ"، فَفَتَّشْنَا مَتَاعَهُ، فَوَجَدْنَا فِيهِ خَرَزًا مِنْ خَرَزِ الْيَهُودِ مَا يُسَاوِي دِرْهَمَيْنِ .
حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ خیبر میں ایک مسلمان فوت ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگوں نے اس کا ذکر کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے ساتھی کی نماز جنازہ تم خود ہی پڑھ لو، یہ سن کر لوگوں کے چہرے کا رنگ اڑ گیا“(کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح انکار فرمانا اس شخص کے حق میں اچھی علامت نہ تھی) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی کیفیت بھانپ کر فرمایا: ”تمہارے اس ساتھی نے اللہ کی راہ میں نکل کر بھی (مال غنیمت میں) خیانت کی ہے، ہم نے اس کے سامان کی تلاشی لی تو ہمیں اس میں سے ایک رسی ملی جس کی قیمت صرف دو درہم کے برابر تھی۔“
حضرت زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر مجھے اپنی امت پر شفقت کا اندیشہ نہ ہوتا تو میں نماز عشاء ایک تہائی رات تک مؤخر کر کے پڑھتا اور انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1895، وهذا إسناد ضعيف، محمد بن إسحاق مدلس، وقد عنعن
حدثنا يعلى ، حدثنا عبد الملك ، عن عطاء ، عن زيد بن خالد الجهني ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من فطر صائما، كتب له مثل اجره، إلا انه لا ينقص من اجر الصائم شيء، ومن جهز غازيا في سبيل الله او خلفه في اهله، كتب له مثل اجره إلا انه لا ينقص من اجر الغازي شيء" .، ويزيد قال: انبانا، إلا انه قال:" من غير ان لا ينتقص".حَدَّثَنَا يَعْلَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا، كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ، إِلَّا أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْءٌ، وَمَنْ جَهَّزَ غَازِيًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَوْ خَلَفَهُ فِي أَهْلِهِ، كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ إِلَّا أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الْغَازِي شَيْءٌ" .، وَيَزِيدُ قَالَ: أَنْبَأَنَا، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ:" مِنْ غَيْرِ أَنْ لَا يُنْتَقَصُ".
حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص کسی روزہ دار کو روزہ افطار کرائے، اس کے لیے روزہ دار کے برابر اجر و ثواب لکھا جائے گا اور روزہ دار کے ثواب میں ذرا سی کمی بھی نہیں کی جائے گی، اور جو شخص کسی مجاہد کے لئے سامانِ جہاد مہیا کرے یا اس پیچھے اس کے اہلِ خانہ کی حفاظت کرے تو اس کے لئے مجاہد کے برابر اجر و ثواب لکھا جائے گا اور مجاہد کے ثواب میں ذرا سی کمی بھی نہیں کی جائے گی۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: «من فطر صائما» فحسن بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، عطاء لم يسمع من زيد بن خالد
حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک شخص نے ایک مرغے پر ”اس کے چیخنے کی وجہ سے“ لعنت کی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس پر لعنت نہ کرو، کیونکہ یہ نماز کی طرف بلاتا ہے۔“
حكم دارالسلام: رجاله ثقات، وقد اختلف فى وصله وإرساله
حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیبیہ میں بارش کے اثرات میں نماز فجر پڑھائی۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
حدثنا عبد الرزاق ، وابن بكر ، قالا: اخبرنا ابن جريج ، قال: سمعت ابا سعيد الاعمى يخبر، عن رجل يقال له: السائب مولى الفارسيين، وقال ابن بكر: مولى لفارس، وقال حجاج : مولى الفارسي، عن زيد بن خالد ، انه رآه عمر بن الخطاب وهو خليفة ركع بعد العصر ركعتين، فمشى إليه، فضربه بالدرة وهو يصلي كما هو، فلما انصرف، قال زيد: يا امير المؤمنين، فوالله لا ادعهما ابدا بعد ان رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصليهما، قال: فجلس إليه عمر، وقال: يا زيد بن خالد، لولا اني اخشى ان يتخذها الناس سلما إلى الصلاة حتى الليل لم اضرب فيهما .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، وَابْنُ بَكْرٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْأَعْمَى يُخْبِرُ، عَنْ رَجُلٍ يُقَالُ لَهُ: السَّائِبُ مَوْلَى الْفَارِسِيِّينَ، وَقَالَ ابْنُ بَكْرٍ: مَوْلًى لِفَارِسَ، وَقَالَ حَجَّاجٌ : مَوْلَى الْفَارِسِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ ، أَنَّهُ رَآهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ خَلِيفَةٌ رَكَعَ بَعْدَ الْعَصْرِ رَكْعَتَيْنِ، فَمَشَى إِلَيْهِ، فَضَرَبَهُ بِالدِّرَّةِ وَهُوَ يُصَلِّي كَمَا هُوَ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قَالَ زَيْدٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، فَوَاللَّهِ لَا أَدَعُهُمَا أَبَدًا بَعْدَ أَنْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهِمَا، قَالَ: فَجَلَسَ إِلَيْهِ عُمَرُ، وَقَالَ: يَا زَيْدُ بْنَ خَالِدٍ، لَوْلَا أَنِّي أَخْشَى أَنْ يَتَّخِذَهَا النَّاسُ سُلَّمًا إِلَى الصَّلَاةِ حَتَّى اللَّيْلِ لَمْ أَضْرِبْ فِيهِمَا .
حدثنا عبد الرزاق ، قال: حدثنا معمر ، عن عبد الله بن محمد بن عقيل بن ابي طالب ، عن خالد بن زيد بن خالد الجهني ، عن ابيه زيد بن خالد ، انه سال النبي صلى الله عليه وسلم، او ان رجلا سال النبي صلى الله عليه وسلم عن ضالة راعي الغنم؟ قال:" هي لك او للذئب" . قال: يا رسول الله، ما تقول في ضالة راعي الإبل؟ قال: " وما لك ولها، معها سقاؤها، وحذاؤها، وتاكل من اطراف الشجر" . قال: يا رسول الله، ما تقول في الورق إذا وجدتها؟ قال: " اعلم وعاءها، ووكاءها، وعددها، ثم عرفها سنة، فإن جاء صاحبها فادفعها إليه، وإلا فهي لك، او استمتع بها" ، او نحو هذا.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ زَيْدٍ بْنِ خَالِدِ الْجُهَنِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ ، أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ضَالَّةِ رَاعِي الْغَنَمِ؟ قَالَ:" هِيَ لَكَ أَوْ لِلذِّئْبِ" . قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا تَقُولُ فِي ضَالَّةِ رَاعِي الْإِبِلِ؟ قَالَ: " وَمَا لَكَ وَلَهَا، مَعَهَا سِقَاؤُهَا، وَحِذَاؤُهَا، وَتَأْكُلُ مِنْ أَطْرَافِ الشَّجَرِ" . قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا تَقُولُ فِي الْوَرِقِ إِذَا وَجَدْتُهَا؟ قَالَ: " اعْلَمْ وِعَاءَهَا، وَوِكَاءَهَا، وَعَدَدَهَا، ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَادْفَعْهَا إِلَيْهِ، وَإِلَّا فَهِيَ لَكَ، أَوْ اسْتَمْتِعْ بِهَا" ، أَوْ نَحْوَ هَذَا.
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة خالد بن زيد
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله ، عن ابي هريرة ، وزيد بن خالد الجهني ، ان رجلا جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إن ابني كان عسيفا على هذا، فزنى بامراته، فاخبروني، ان على ابني الرجم، فافتديت منه بوليدة، وبمائة شاة، ثم اخبرني اهل العلم ان على ابني جلد مائة، وتغريب عام، وان على امراة هذا الرجم، حسبت انه قال: فاقض بيننا بكتاب الله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" والذي نفسي بيده لاقضين بينكما بكتاب الله، اما الغنم والوليدة فرد عليك، واما ابنك، فعليه جلد مئة، وتغريب عام"، ثم قال لرجل من اسلم: يقال له: انيس:" قم يا انيس فاسال امراة هذا، فإن اعترفت فارجمها" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، أن رجلا جاء إلى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا، فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ، فَأَخْبَرُونِي، أَنَّ عَلَى ابْنِي الرَّجْمَ، فَافْتَدَيْتُ مِنْهُ بِوَلِيدَةٍ، وَبِماِئَةِ شَاةٍ، ثُمَّ أَخْبَرَنِي أَهْلُ الْعِلْمِ أَنَّ عَلَى ابْنِي جَلْدَ مِائَةٍ، وَتَغْرِيبَ عَامٍ، وَأَنَّ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا الرَّجْمَ، حَسِبْتُ أَنَّهُ قَالَ: فَاقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، أَمَّا الْغَنَمُ وَالْوَلِيدَةُ فَرَدٌّ عَلَيْكَ، وَأَمَّا ابْنُكَ، فَعَلَيْهِ جَلْدُ مِئَةٍ، وَتَغْرِيبُ عَامٍ"، ثُمَّ قَالَ لِرَجُلٍ مِنْ أَسْلَمَ: يُقَالُ لَهُ: أُنَيْسٌ:" قُمْ يَا أُنَيْسُ فَاسْأَلْ امْرَأَةَ هَذَا، فَإِنْ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا" .
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میرا بیٹا اس شخص کے ہاں مزدور تھا، اس نے اس کی بیوی سے بدکاری کی، لوگوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کو رجم کیا جائے گا، میں نے اس کے فدیے میں ایک لونڈی اور سو بکریاں پیش کر دیں، پھر مجھے اہل علم نے بتایا کہ میرے بیٹے کو سو کوڑے مارے جائیں، ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے، اس کی بیوی کو رجم کیا جائے، اب آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کی روشنی میں فیصلہ کر دیجئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کی روشنی میں فیصلہ کروں گا، وہ لونڈی اور بکریاں تجھے واپس دے دی جائیں گی، تمہارے بیٹے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے گا“، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ ”اسلم“ کے ایک آدمی”انیس“ سے فرمایا: ”انیس اٹھو اور اس شخص کی بیوی سے جا کر پوچھو، اگر وہ اعتراف جرم کر لے تو اسے رجم کر دو۔“