حدثنا حسن بن موسى ، قال: حدثنا ابن لهيعة ، عن الحارث بن يزيد ، قال: حدثني حنش ، قال: كنا مع رويفع بن ثابت غزوة جربة، فقسمها علينا، وقال لنا رويفع : من اصاب من هذا السبي، فلا يطاها حتى تحيض، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا يحل لرجل ان يسقي ماءه ولد غيره" حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَنَشٌ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ غَزْوَةَ جَرَبَّةَ، فَقَسَمَهَا عَلَيْنَا، وَقَالَ لَنَا رُوَيْفِعٌ : مَنْ أَصَابَ مِنْ هَذَا السَّبْيِ، فَلَا يَطَأْهَا حَتَّى تَحِيضَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يَحِلُّ لِرَجُلٍ أَنْ يَسْقِيَ مَاءَهُ وَلَدَ غَيْرِهِ"
خنش صنعانی کہتے ہیں کہ ہم لوگوں نے حضرت رویفع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مغرب کی ایک بستی جسکا نام جربہ تھا کے لوگوں کے ساتھ جہاد کیا، انہوں نے اسے ہم پر تقسیم کر دیا، پھر وہ خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والے کسی مرد کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے ”پانی“ سے کسی دوسرے کا کھیت (بیوی) کو سیراب کرنے لگے۔ یہاں تک کہ اسے ”ایام“ آ جائیں۔ کیونکہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ کسی شخص کے لئے حلال نہیں کہ وہ اپنے ”پانی“ سے کسی دوسرے کی اولاد کو سیراب کرے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال شيبان القتباني
حدثنا يحيى بن غيلان ، قال: حدثنا المفضل ، قال: حدثني عياش بن عباس ، ان شييم بن بيتان اخبره، انه سمع شيبان القتباني، يقول: استخلف مسلمة بن مخلد رويفع بن ثابت الانصاري على اسفل الارض، قال: فسرنا معه، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا رويفع، لعل الحياة ستطول بك بعدي، فاخبر الناس انه من عقد لحيته، او تقلد وترا، او استنجى برجيع دابة، او بعظم، فإن محمدا صلى الله عليه وسلم بريء منه" حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ غَيْلَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عَبَّاسٍ ، أَنَّ شِيَيْمَ بْنَ بَيْتَانَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ شَيْبَانَ الْقِتْبَانِيَّ، يَقُولُ: اسْتَخْلَفَ مَسْلَمَةُ بْنُ مُخَلَّدٍ رُوَيْفِعَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ عَلَى أَسْفَلِ الْأَرْضِ، قَالَ: فَسِرْنَا مَعَهُ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا رُوَيْفِعُ، لَعَلَّ الْحَيَاةَ سَتَطُولُ بِكَ بَعْدِي، فَأَخْبِرْ النَّاسَ أَنَّهُ مَنْ عَقَدَ لِحْيَتَهُ، أَوْ تَقَلَّدَ وَتَرًا، أَوْ اسْتَنْجَى بِرَجِيعِ دَابَّةٍ، أَوْ بِعَظْمٍ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَرِيءٌ مِنْهُ"
شییم بن بیتان کہتے ہیں کہ حضرت مسلمہ بن مخلد رضی اللہ عنہ نے حضرت رویفع بن ثابت رضی اللہ عنہ کو زمین کے نشیب پر ایک ذمہ داری سونپ دی۔ چنانچہ ہم نے ان کے ساتھ سفر طے کیا، پھر حضرت رویفع رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اے رویفع! ہو سکتا ہے کہ تمہیں لمبی زندگی ملے، تم لوگوں کو بتا دینا کہ جو شخص ڈاڑھی میں گرہ لگائے، یا تانت گلے میں لٹکائے، یا کسی جانور کی لید یا ہڈی سے استنجا کرے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بیزار ہیں۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، أبوالخير لم يرو هذا الحديث بصيغة تحتمل الاتصال، وابن لهيعة مختلط، لكن سماع قتيبة منه صحيح
ابوالخیر کہتے ہیں کہ حضرت مسلمہ بن مخلد رضی اللہ عنہ جو مصر کے گورنر تھے، نے حضرت رویفع رضی اللہ عنہ کو عشر وصول کرنے کا عہدہ دینے کی پیشکش کی تو وہ کہنے لگے کہ میں نے نبی علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ٹیکس وصول کرنے والا جہنم میں ہو گا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، أبوالخير لم يرو هذا الحديث بصيغة تحتمل الاتصال، وابن لهيعة مختلط، لكن سماع قتيبة منه صحيح
حدثنا ابو المغيرة ، قال: حدثنا حريز ، قال: سمعت عبد الله ابن غابر الالهاني ، قال: دخل المسجد حابس بن سعد الطائي من السحر وقد ادرك النبي صلى الله عليه وسلم فراى الناس يصلون في مقدم المسجد، فقال: مراءون ورب الكعبة، ارعبوهم، فمن ارعبهم فقد اطاع الله ورسوله، قال: فاتاهم الناس، فاخرجوهم، قال: فقال: " إن الملائكة تصلي من السحر في مقدم المسجد" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَرِيزٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ ابْنَ غَابِرٍ الْأَلْهَانِيَّ ، قَالَ: دَخَلَ الْمَسْجِدَ حَابِسُ بْنُ سَعْدٍ الطَّائِيُّ مِنَ السَّحَرِ وَقَدْ أَدْرَكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَأَى النَّاسَ يُصَلُّونَ فِي مُقَدَّمِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: مُرَاءونَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، أَرْعِبُوهُمْ، فَمَنْ أَرْعَبَهُمْ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، قَالَ: فَأَتَاهُمْ النَّاسُ، فَأَخْرَجُوهُمْ، قَالَ: فَقَالَ: " إِنَّ الْمَلَائِكَةَ تُصَلِّي مِنَ السَّحَرِ فِي مُقَدَّمِ الْمَسْجِدِ" .
عبداللہ بن عامر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سحری کے وقت حضرت حابس بن سعد طائی رضی اللہ عنہ مسجد میں داخل ہوئے ”انہوں نے نبی علیہ السلام کو پایا تھا“ دیکھا کہ کچھ لوگ مسجد کے اگلے حصے میں نماز پڑھ رہے ہیں، فرمایا رب کعبہ کی قسم! یہ سب ریا کار ہیں، انہیں بھگاؤ، جو انہیں بھگائے گا وہ اللّٰہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، چنانچہ لوگوں نے آکر انہیں باہر نکال دیا، پھر وہ فرمانے لگے کہ سحری کے وقت مسجد کے اگلے حصے میں فرشتے نماز پڑھتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص تین چیزوں سے نجات پا گیا وہ نجات پا گیا (تین مرتبہ فرمایا) میری موت، دجال اور حق پر ثابت قدم خلیفہ کے قتل سے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، ليس هذا الحديث بمصر من حديث يحيى بن أيوب، لكنه توبع
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، قال: حدثنا الجريري ، عن عبد الله بن شقيق ، عن ابن حوالة ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو جالس في ظل دومة وعنده كاتب له يملي عليه، فقال: " الا اكتبك يا ابن حوالة؟" قلت: لا ادري، ما خار الله لي ورسوله، فاعرض عني، وقال إسماعيل مرة في الاولى:" نكتبك يا ابن حوالة؟" قلت: لا ادري، فيم يا رسول الله؟ فاعرض عني، فاكب على كاتبه يملي عليه ثم قال:" انكتبك يا ابن حوالة؟" قلت: لا ادري، ما خار الله لي ورسوله فاعرض عني، فاكب على كاتبه يملي عليه، قال: فنظرت فإذا في الكتاب عمر، فقلت: إن عمر لا يكتب إلا في خير، ثم قال:" انكتبك يا ابن حوالة؟" قلت: نعم، فقال:" يا ابن حوالة، كيف تفعل في فتنة تخرج في اطراف الارض كانها صياصي بقر؟" قلت: لا ادري، ما خار الله لي ورسوله، قال:" وكيف تفعل في اخرى تخرج بعدها كان الاولى فيها انتفاجة ارنب؟" قلت: لا ادري، ما خار الله لي ورسوله، قال:" اتبعوا هذا"، قال: ورجل مقفي حينئذ، قال: فانطلقت فسعيت، واخذت بمنكبيه، فاقبلت بوجهه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: هذا؟ قال:" نعم"، قال: وإذا هو عثمان بن عفان رضي الله تعالى عنه .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، عَنِ ابْنِ حَوَالَةَ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ دَوْمَةٍ وَعِنْدَهُ كَاتِبٌ لَهُ يُمْلِي عَلَيْهِ، فَقَالَ: " أَلَا أَكْتُبُكَ يَا ابْنَ حَوَالَةَ؟" قُلْتُ: لَا أَدْرِي، مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ، فَأَعْرَضَ عَنِّي، وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ مَرَّةً فِي الْأُولَى:" نَكْتُبُكَ يَا ابْنَ حَوَالَةَ؟" قُلْتُ: لَا أَدْرِي، فِيمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَأَعْرَضَ عَنِّي، فَأَكَبَّ عَلَى كَاتِبِهِ يُمْلِي عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ:" أَنَكْتُبُكَ يَا ابْنَ حَوَالَةَ؟" قُلْتُ: لَا أَدْرِي، مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ فَأَعْرَضَ عَنِّي، فَأَكَبَّ عَلَى كَاتِبِهِ يُمْلِي عَلَيْهِ، قَالَ: فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِي الْكِتَابِ عُمَرُ، فَقُلْتُ: إِنَّ عُمَرَ لَا يُكْتَبُ إِلَّا فِي خَيْرٍ، ثُمَّ قَالَ:" أَنَكْتُبُكَ يَا ابْنَ حَوَالَةَ؟" قُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ:" يَا ابْنَ حَوَالَةَ، كَيْفَ تَفْعَلُ فِي فِتْنَةٍ تَخْرُجُ فِي أَطْرَافِ الْأَرْضِ كَأَنَّهَا صَيَاصِي بَقَرٍ؟" قُلْتُ: لَا أَدْرِي، مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ، قَالَ:" وَكَيْفَ تَفْعَلُ فِي أُخْرَى تَخْرُجُ بَعْدَهَا كَأَنَّ الْأُولَى فِيهَا انْتِفَاجَةُ أَرْنَبٍ؟" قُلْتُ: لَا أَدْرِي، مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ، قَالَ:" اتَّبِعُوا هَذَا"، قَالَ: وَرَجُلٌ مُقَفِّيٍ حِينَئِذٍ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ فَسَعَيْتُ، وَأَخَذْتُ بِمَنْكِبَيْهِ، فَأَقْبَلْتُ بِوَجْهِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: هَذَا؟ قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: وَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ .
حضرت ابن حوالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک کاتب تھا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لکھوا رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابن حوالہ! کیا ہم تمہیں بھی نہ لکھ دیں؟“ میں نے عرض کیا کہ مجھے معلوم نہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے کیا پسند فرمایا ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اعراض فرما لیا اور دوبارہ کاتب کو املاء کرانے کے لیے جھک گئے، کچھ دیر بعد دوبارہ یہی سوال جواب ہوئے، اس کے بعد میں نے دیکھا تو اس تحریر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام لکھا ہوا تھا میں نے اپنے دل میں سوچا کہ عمر رضی اللہ عنہ کا نام خیر کے ہی کام میں لکھا جا سکتا ہے، چنانچہ تیسری مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پوچھا کہ اے ابن حوالہ! ہم تمہیں بھی نہ لکھ دیں؟ تو میں نے عرض کیا، جی ہاں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن حوالہ ! جب زمین کے اطراف و اکناف میں فتنے اس اس طرح ابل پڑیں گے جیسے گائے کے سینگ ہوتے تو تم کیا کرو گے؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے معلوم نہیں، اللہ اور اس کے رسول میرے لیے کیا پسند فرماتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلا سوال پوچھا کہ اس کئے بعد جب دوسرا فتنہ بھی فوراً ہی نمودار ہو گا تب کیا کرو گے؟ میں نے حسب سابق جواب دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی پیروی کرنا“، اس وقت وہ آدمی پیٹھ پھیر کر جا رہا تھا میں دوڑتا ہوا گیا اور اسے شانوں سے پکڑا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسے لے کر آیا اور عرض کیا کہ یہی شخص ہے جس کے بارے میں ابھی آپ نے یہ حکم دیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں!“ اور وہ شخص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔
حدثنا حيوة بن شريح ، ويزيد بن عبد ربه ، قالا: حدثنا بقية ، قال: حدثني بحير بن سعد ، عن خالد بن معدان ، عن ابي قتيلة ، عن ابن حوالة ، انه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " سيصير الامر إلى ان تكونوا جنود مجندة، جند بالشام، وجند باليمن، وجند بالعراق"، فقال ابن حوالة: خر لي يا رسول الله إن ادركت ذاك، قال:" عليك بالشام، فإنه خيرة الله من ارضه، يجتبي إليه خيرته من عباده، فإن ابيتم فعليكم بيمنكم، واسقوا من غدركم، فإن الله عز وجل قد توكل لي بالشام واهله" .حَدَّثَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ ، وَيَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي بَحِيرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ ، عَنْ أَبِي قُتَيْلَةَ ، عَنِ ابْنِ حَوَالَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سَيَصِيرُ الْأَمْرُ إِلَى أَنْ تَكُونوا جُنُودٌ مُجَنَّدَةٌ، جُنْدٌ بِالشَّامِ، وَجُنْدٌ بِالْيَمَنِ، وَجُنْدٌ بِالْعِرَاقِ"، فَقَالَ ابْنُ حَوَالَةَ: خِرْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَدْرَكْتُ ذَاكَ، قَالَ:" عَلَيْكَ بِالشَّامِ، فَإِنَّهُ خِيرَةُ اللَّهِ مِنْ أَرْضِهِ، يَجْتَبِي إِلَيْهِ خِيرَتَهُ مِنْ عِبَادِهِ، فَإِنْ أَبَيْتُمْ فَعَلَيْكُمْ بِيَمَنِكُمْ، وَاسْقُوا مِنْ غُدُرِكُمْ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ تَوَكَّلَ لِي بِالشَّامِ وَأَهْلِهِ" .
حضرت ابن حوالہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”عنقریب یہ معاملہ اتنا بڑھ جائے گا کہ بے شمار لشکر تیار ہو جائیں گے چنانچہ ایک لشکر شام میں ہو گا, اہک یمن میں اور ایک عراق میں“، ابن حوالہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر میں اس زمانے کو پاؤں تو مجھے کوئی منتخب راستہ بتا دیجئے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”شام“ کو اپنے اوپر لازم کر لینا, کیونکہ وہ اللہ کی بہترین زمین ہے، جس کے لئے وہ اپنے منتخب بندوں کو چنتا ہے، اگر یہ نہ کر سکو تو پھر ”یمن“ کو اپنے اوپر لازم کر لینا اور لوگوں کو اپنے حوضوں سے پانی پلاتے رہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے اہل شام اعت ملک شام کی کفالت اپنے ذمے لے رکھی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه، وهذا إسناد ضعيف، بقية بن الوليد يدلس ويسوي، وقد عنعن، وأبو قتيلة مختلف فى صحبته
حضرت عبداللہ بن حوالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص تین چیزوں سے نجات پا گیا، وہ نجات پا گیا (تین مرتبہ فرمایا) میری موت، دجال اور حق پر ثابت قدم خلیفہ کے قتل سے۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، ليس هذا الحديث بمصر من حديث يحيى بن أيوب، لكنه توبع
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا سليمان بن المغيرة القيسي ، قال: حدثنا حميد بن هلال ، قال: حدثني بشر بن عاصم الليثي ، عن عقبة بن مالك وكان من رهطه، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية، فسلحت رجلا سيفا، قال: فلما رجع، قال: ما رايت مثل ما لامنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " اعجزتم إذ بعثت رجلا، فلم يمض لامري ان تجعلوا مكانه من يمضي لامري؟! .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ الْقَيْسِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي بَشْرُ بْنُ عَاصِمٍ اللَّيْثِيُّ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ مَالِكٍ وَكَانَ مِنْ رَهْطِهِ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً، فَسَلَّحْتُ رَجُلًا سَيْفًا، قَالَ: فَلَمَّا رَجَعَ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ مِثْلَ مَا لَامَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَعَجَزْتُمْ إِذْ بَعَثْتُ رَجُلًا، فَلَمْ يَمْضِ لِأَمْرِي أَنْ تَجْعَلُوا مَكَانَهُ مَنْ يَمْضِي لِأَمْرِي؟! .
حضرت عقبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کا ایک دستہ روانہ فرمایا، میں نے اس میں ایک آدمی کو تلوار دی، جب وہ واپس آیا تو کہنے لگا کہ میں نے ملامت کرنے کا ایسا عمدہ انداز نہیں دیکھا جیسا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا اور فرمایا کیا تم اس بات سے بھی عاجز ہو گئے تھے کہ اگر کوئی شخص میرا کام نہیں کر سکا تو تم کسی دوسرے کو مقرر کر دیتے جو اس کام کو پورا کر دیتا؟
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، إن كان بشر بن عاصم هو الذي وثقه النسائي
حدثنا هاشم ، قال: حدثنا سليمان ، عن حميد بن هلال ، عن بشر بن عاصم ، قال: حدثنا عقبة بن مالك الليثي ، قال: بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب، إذ قال القائل: يا رسول الله، والله ما قال الذي قال إلا تعوذا من القتل، فذكر قصته، فاقبل عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم تعرف المساءة في وجهه، ثم قال: " إن الله عز وجل ابى علي من قتل مؤمنا"، قالها ثلاث مرات .حَدَّثَنَا هَاشِمٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ بِشْرِ بْنِ عَاصِمٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مَالِكٍ اللَّيْثِيُّ ، قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ، إِذْ قَالَ الْقَائِلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا قَالَ الَّذِي قَالَ إِلَّا تَعَوُّذًا مِنَ الْقَتْلِ، فَذَكَرَ قِصَّتَهُ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُعْرَفُ الْمَسَاءَةُ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَبَى عَلَيَّ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا"، قَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ .
حضرت عقبہ بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ کسی شخص نے کہا: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! اس نے یہ کلمہ صرف اپنی جان بچانے کے لئے پڑھا تھا، پھر راوی نے مکمل حدیث ذکر کہ اور کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور پر اس وقت غم و غصے کے آثار تھے، اور تین مرتبہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے کسی مسلمان کو قتل کرنے والے کے حق میں میری بات ماننے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، إن كان بشر بن عاصم هو الذى وثقه النسائي