حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، قال: حدثنا الجريري ، عن عبد الله بن شقيق ، عن ابن حوالة ، قال: اتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو جالس في ظل دومة وعنده كاتب له يملي عليه، فقال: " الا اكتبك يا ابن حوالة؟" قلت: لا ادري، ما خار الله لي ورسوله، فاعرض عني، وقال إسماعيل مرة في الاولى:" نكتبك يا ابن حوالة؟" قلت: لا ادري، فيم يا رسول الله؟ فاعرض عني، فاكب على كاتبه يملي عليه ثم قال:" انكتبك يا ابن حوالة؟" قلت: لا ادري، ما خار الله لي ورسوله فاعرض عني، فاكب على كاتبه يملي عليه، قال: فنظرت فإذا في الكتاب عمر، فقلت: إن عمر لا يكتب إلا في خير، ثم قال:" انكتبك يا ابن حوالة؟" قلت: نعم، فقال:" يا ابن حوالة، كيف تفعل في فتنة تخرج في اطراف الارض كانها صياصي بقر؟" قلت: لا ادري، ما خار الله لي ورسوله، قال:" وكيف تفعل في اخرى تخرج بعدها كان الاولى فيها انتفاجة ارنب؟" قلت: لا ادري، ما خار الله لي ورسوله، قال:" اتبعوا هذا"، قال: ورجل مقفي حينئذ، قال: فانطلقت فسعيت، واخذت بمنكبيه، فاقبلت بوجهه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: هذا؟ قال:" نعم"، قال: وإذا هو عثمان بن عفان رضي الله تعالى عنه .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، عَنِ ابْنِ حَوَالَةَ ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ دَوْمَةٍ وَعِنْدَهُ كَاتِبٌ لَهُ يُمْلِي عَلَيْهِ، فَقَالَ: " أَلَا أَكْتُبُكَ يَا ابْنَ حَوَالَةَ؟" قُلْتُ: لَا أَدْرِي، مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ، فَأَعْرَضَ عَنِّي، وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ مَرَّةً فِي الْأُولَى:" نَكْتُبُكَ يَا ابْنَ حَوَالَةَ؟" قُلْتُ: لَا أَدْرِي، فِيمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَأَعْرَضَ عَنِّي، فَأَكَبَّ عَلَى كَاتِبِهِ يُمْلِي عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ:" أَنَكْتُبُكَ يَا ابْنَ حَوَالَةَ؟" قُلْتُ: لَا أَدْرِي، مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ فَأَعْرَضَ عَنِّي، فَأَكَبَّ عَلَى كَاتِبِهِ يُمْلِي عَلَيْهِ، قَالَ: فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِي الْكِتَابِ عُمَرُ، فَقُلْتُ: إِنَّ عُمَرَ لَا يُكْتَبُ إِلَّا فِي خَيْرٍ، ثُمَّ قَالَ:" أَنَكْتُبُكَ يَا ابْنَ حَوَالَةَ؟" قُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ:" يَا ابْنَ حَوَالَةَ، كَيْفَ تَفْعَلُ فِي فِتْنَةٍ تَخْرُجُ فِي أَطْرَافِ الْأَرْضِ كَأَنَّهَا صَيَاصِي بَقَرٍ؟" قُلْتُ: لَا أَدْرِي، مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ، قَالَ:" وَكَيْفَ تَفْعَلُ فِي أُخْرَى تَخْرُجُ بَعْدَهَا كَأَنَّ الْأُولَى فِيهَا انْتِفَاجَةُ أَرْنَبٍ؟" قُلْتُ: لَا أَدْرِي، مَا خَارَ اللَّهُ لِي وَرَسُولُهُ، قَالَ:" اتَّبِعُوا هَذَا"، قَالَ: وَرَجُلٌ مُقَفِّيٍ حِينَئِذٍ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ فَسَعَيْتُ، وَأَخَذْتُ بِمَنْكِبَيْهِ، فَأَقْبَلْتُ بِوَجْهِهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: هَذَا؟ قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: وَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ .
حضرت ابن حوالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک کاتب تھا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لکھوا رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابن حوالہ! کیا ہم تمہیں بھی نہ لکھ دیں؟“ میں نے عرض کیا کہ مجھے معلوم نہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے کیا پسند فرمایا ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اعراض فرما لیا اور دوبارہ کاتب کو املاء کرانے کے لیے جھک گئے، کچھ دیر بعد دوبارہ یہی سوال جواب ہوئے، اس کے بعد میں نے دیکھا تو اس تحریر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام لکھا ہوا تھا میں نے اپنے دل میں سوچا کہ عمر رضی اللہ عنہ کا نام خیر کے ہی کام میں لکھا جا سکتا ہے، چنانچہ تیسری مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پوچھا کہ اے ابن حوالہ! ہم تمہیں بھی نہ لکھ دیں؟ تو میں نے عرض کیا، جی ہاں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن حوالہ ! جب زمین کے اطراف و اکناف میں فتنے اس اس طرح ابل پڑیں گے جیسے گائے کے سینگ ہوتے تو تم کیا کرو گے؟ میں نے عرض کیا کہ مجھے معلوم نہیں، اللہ اور اس کے رسول میرے لیے کیا پسند فرماتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلا سوال پوچھا کہ اس کئے بعد جب دوسرا فتنہ بھی فوراً ہی نمودار ہو گا تب کیا کرو گے؟ میں نے حسب سابق جواب دیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص کی پیروی کرنا“، اس وقت وہ آدمی پیٹھ پھیر کر جا رہا تھا میں دوڑتا ہوا گیا اور اسے شانوں سے پکڑا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسے لے کر آیا اور عرض کیا کہ یہی شخص ہے جس کے بارے میں ابھی آپ نے یہ حکم دیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں!“ اور وہ شخص حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔