كِتَاب الْعِتْق کتاب: غلاموں کی آزادی سے متعلق احکام و مسائل 6. باب فِيمَنْ رَوَى أَنَّهُ، لاَ يَسْتَسْعِي باب: جنہوں نے اس حدیث میں محنت کرانے کا ذکر نہیں کیا ان کی دلیل کا بیان۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص (مشترک) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو اس غلام کی واجبی قیمت لگا کر ہر ایک شریک کو اس کے حصہ کے مطابق ادا کرے گا اور غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو جتنا آزاد ہوا ہے اتنا ہی حصہ آزاد رہے گا“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشرکة 5 (2491)، 14 (2503)، العتق 4 (2522)، صحیح مسلم/العتق 1 (1501)، الأیمان 12 (1501)، سنن النسائی/البیوع 104 (4703)، سنن ابن ماجہ/العتق 7 (2528)، (تحفة الأشراف: 8328)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/العتق 1 (1)، مسند احمد (1/56) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے بھی اسی مفہوم کی روایت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے۔ راوی کہتے ہیں: نافع نے کبھی «فقد عتق منه ما عتق» کی روایت کی ہے اور کبھی نہیں کی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/ الشرکة 5 (2491)، العتق 4 (2524)، صحیح مسلم/ العتق 1 (1501)، سنن الترمذی/ الأحکام 14 (1346)، سنن النسائی/ البیوع 104 (4703)، (تحفة الأشراف: 7511)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/15) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث مرفوعاً مروی ہے ایوب کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ «وإلا عتق منه ما عتق» نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا حصہ ہے یا نافع کا قول ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 7511) (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص (مشترک) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو اس پر اس کی مکمل آزادی لازم ہے اگر اس کے پاس اتنا مال ہو کہ اس کی قیمت کو پہنچ سکے، اور اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو صرف اس کا حصہ آزاد ہو گا“ (اور باقی شرکاء کو اختیار ہو گا چاہیں تو آزاد کریں اور چاہیں تو غلام رہنے دیں)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 8083)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العتق 4 (2523)، صحیح مسلم/الأیمان والنذور 12 (1501)، سنن الترمذی/الأحکام 14 (1346)، سنن النسائی/البیوع 104 (4703) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ابراہیم بن موسیٰ کی روایت کے ہم معنی روایت مرفوعاً مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العتق 4 (2525تعلیقًا) صحیح مسلم/ العتق 1 (1501)، سنن النسائی/ الکبری (4958)، (تحفة الأشراف: 8521) (صحیح)»
اس سند سے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مالک کی روایت کے ہم معنی روایت مرفوعاً مروی ہے مگر اس میں: «وإلا فقد عتق منه ما عتق» کا ٹکڑا مذکور نہیں اور «وأعتق عليه العبد» کے ٹکڑے ہی پر روایت ختم ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/ الشرکة 14 (2503)، (تحفة الأشراف: 7617) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ابوہریرہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کی جملہ روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کرنے والا اگر مالدار ہے تو بقیہ حصہ کی قیمت اپنے شریک کو ادا کرے گا اور غلام آزاد ہو جائے گا، ورنہ غلام سے بقیہ رقم کے لیے بغیر دباؤ کے محنت کرائی جائے گی، اور جب یہ بھی ممکن نہ ہو تو بقیہ حصہ غلام ہی باقی رہے گا، اور اسی کے بقدر وہ اپنے دوسرے مالک کی خدمت کرتا رہے گا۔ اس مفہوم کے اعتبار سے روایات میں کوئی اختلاف نہیں ہے (فتح الباری)۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص (مشترک) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو جتنا حصہ باقی بچا ہے وہ بھی اسی کے مال سے آزاد ہو گا بشرطیکہ اس کے پاس اتنا مال ہو کہ وہ غلام کی قیمت کو پہنچ سکے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/ العتق 1 (1501)، سنن الترمذی/ الأحکام 14 (1347)، سنن النسائی/ الکبری (4944)، (تحفة الأشراف: 6935)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/34) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب غلام دو آدمیوں کے درمیان مشترک ہو پھر ان میں سے ایک شخص اپنا حصہ آزاد کر دے تو اگر آزاد کرنے والا مالدار ہو تو اس غلام کی واجبی قیمت ٹھہرائی جائے گی نہ کم نہ زیادہ پھر وہ غلام آزاد کر دیا جائے گا ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/ العتق 4 (2521)، صحیح مسلم/ العتق 1 (1501)، سنن النسائی/ الکبری (1541)، (تحفة الأشراف: 6788)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/11) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اور اپنا حصہ آزاد کرنے والا اس واجبی قیمت میں سے جتنا حصہ دوسرے شریک کا ہو گا اسے ادا کرے گا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
تلب بن ثعلبہ تمیمی عنبری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باقی قیمت کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔ احمد کہتے ہیں: (صحابی کا نام) تلب تائے فوقانیہ سے ہے نہ کہ ثلب ثائے مثلثہ سے اور راوی حدیث شعبہ ہکلے تھے یعنی ان کی زبان سے تاء ادا نہیں ہوتی تھی وہ تاء کو ثاء کہتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 0502) (ضعیف الإسناد)» (اس کے راوی ملقام بن تلب مجہول الحال ہیں، اور ان کی یہ روایت سابقہ صحیح روایات کے مخالف ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
|