حدثنا حاجب بن الوليد ، حدثنا محمد بن حرب ، عن الزبيدي ، اخبرني الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله ، ان ابن عباس ، او ابا هريرة ، كان يحدث: ان رجلا اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم. ح وحدثني حرملة بن يحيي التجيبيواللفظ له، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، ان عبيد الله بن عبد الله بن عتبة اخبره، ان ابن عباس كان يحدث: " ان رجلا اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إني ارى الليلة في المنام ظلة تنطف السمن والعسل، فارى الناس يتكففون منها بايديهم، فالمستكثر، والمستقل، وارى سببا واصلا من السماء إلى الارض، فاراك اخذت به فعلوت، ثم اخذ به رجل من بعدك فعلا، ثم اخذ به رجل آخر فعلا، ثم اخذ به رجل آخر فانقطع به، ثم وصل له فعلا، قال ابو بكر: يا رسول الله، بابي انت، والله لتدعني فلاعبرنها، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اعبرها، قال ابو بكر: اما الظلة، فظلة الإسلام، واما الذي ينطف من السمن والعسل، فالقرآن حلاوته ولينه، واما ما يتكفف الناس من ذلك، فالمستكثر من القرآن والمستقل، واما السبب الواصل من السماء إلى الارض، فالحق الذي انت عليه تاخذ به فيعليك الله به، ثم ياخذ به رجل من بعدك فيعلو به، ثم ياخذ به رجل آخر فيعلو به، ثم ياخذ به رجل آخر فينقطع به، ثم يوصل له فيعلو به، فاخبرني يا رسول الله، بابي انت، اصبت ام اخطات؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اصبت بعضا، واخطات بعضا، قال: فوالله يا رسول الله لتحدثني ما الذي اخطات، قال: لا تقسم ".حَدَّثَنَا حَاجِبُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ الزُّبَيْدِيِّ ، أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ ، أَوْ أَبَا هُرَيْرَةَ ، كَانَ يُحَدِّثُ: أَنَّ رَجُلًا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي التُّجِيبِيُّوَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ كَانَ يُحَدِّثُ: " أَنَّ رَجُلًا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَرَى اللَّيْلَةَ فِي الْمَنَامِ ظُلَّةً تَنْطِفُ السَّمْنَ وَالْعَسَلَ، فَأَرَى النَّاسَ يَتَكَفَّفُونَ مِنْهَا بِأَيْدِيهِمْ، فَالْمُسْتَكْثِرُ، وَالْمُسْتَقِلُّ، وَأَرَى سَبَبًا وَاصِلًا مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، فَأَرَاكَ أَخَذْتَ بِهِ فَعَلَوْتَ، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ مِنْ بَعْدِكَ فَعَلَا، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَعَلَا، ثُمَّ أَخَذَ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَانْقَطَعَ بِهِ، ثُمَّ وُصِلَ لَهُ فَعَلَا، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ، وَاللَّهِ لَتَدَعَنِّي فَلَأَعْبُرَنَّهَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اعْبُرْهَا، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَمَّا الظُّلَّةُ، فَظُلَّةُ الْإِسْلَامِ، وَأَمَّا الَّذِي يَنْطِفُ مِنَ السَّمْنِ وَالْعَسَلِ، فَالْقُرْآنُ حَلَاوَتُهُ وَلِينُهُ، وَأَمَّا مَا يَتَكَفَّفُ النَّاسُ مِنْ ذَلِكَ، فَالْمُسْتَكْثِرُ مِنَ الْقُرْآنِ وَالْمُسْتَقِلُّ، وَأَمَّا السَّبَبُ الْوَاصِلُ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ، فَالْحَقُّ الَّذِي أَنْتَ عَلَيْهِ تَأْخُذُ بِهِ فَيُعْلِيكَ اللَّهُ بِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ مِنْ بَعْدِكَ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَعْلُو بِهِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِهِ رَجُلٌ آخَرُ فَيَنْقَطِعُ بِهِ، ثُمَّ يُوصَلُ لَهُ فَيَعْلُو بِهِ، فَأَخْبِرْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ، أَصَبْتُ أَمْ أَخْطَأْتُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَصَبْتَ بَعْضًا، وَأَخْطَأْتَ بَعْضًا، قَالَ: فَوَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ لَتُحَدِّثَنِّي مَا الَّذِي أَخْطَأْتُ، قَالَ: لَا تُقْسِمْ ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں نے رات کو خواب میں دیکھا ایک ابر کے ٹکڑے سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے لوگ اس کو اپنی لپوں سے لیتے ہیں کوئی زیادہ لیتا ہے کوئی کم اور میں نے دیکھا آسمان سے زمین تک ایک رسی لٹکی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پکڑ کر اوپر چڑھ گئے، پھر اور ایک شخص نے تھاما وہ بھی اوپر چڑھ گیا، پھر اور ایک شخص نے تھاما وہ بھی چڑھ گیا، پھر اور ایک شخص نے تھاما تو وہ ٹوٹ گئی پھر وہ جڑ گئی اور وہ بھی اوپر چلا گیا۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! میر باپ آپ پر قربان ہو، مجھے اس کی تعبیر کہنے دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا کہہ۔“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ ابر کا ٹکڑا تو اسلام ہے۔ گھی اور شہد سے قرآن کی حلاوت اور نرمی مراد ہے اور لوگ جو زیادہ اور کم لیتے ہیں وہ بھی بعض کو بہت قرآن یاد ہے اور بعض کو کم اور رسی جو آسمان سے زمین تک لٹکی وہ دین حق ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پھر اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دین پر اپنے پاس بلا لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک اور شخص اس کو تھامے گا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ) وہ بھی اسی طرح سے چڑھ جائے گا پھر ایک اور تھامے گا اور اس کا بھی یہی حال ہو گا پھر ایک شخص تھامے گا تو کچھ خلل پڑے گا لیکن وہ آخر خلل مٹ جائے گا اور وہ بھی چڑھ جائے گا اور مجھ سے بیان کیجئیے یا رسول اللہ! میں نے ٹھیک تعبیر کی یا غلط۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کچھ تو نے ٹھیک کہا کچھ تو نے غلط کہا۔“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! آپ بیان کیجئیے میں نے کیا غلطی کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم مت کھا۔“
سفیان نے زہری سے، انھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ سے، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: احد سے واپسی پر ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اورکہا: اللہ کے رسول! صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے آج رات خواب میں بادل کے ایک ٹکڑے کو سایہ فگن دیکھا ہے جو شہد اور گھی ٹپکا رہا تھا، یونس کی حدیث کے مفہوم کے مطابق (حدیث بیان کی۔)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں،غزوہ احد سے واپسی کے وقت ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا،اے اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )!آج رات میں نے ایک بادل کا سایہ دار ٹکڑا دیکھا ہے، جس سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے، آگے مذکورہ بالا حدیث بیان کی۔
عبدالرزاق نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں معمر نے زہری سے خبر دی انھوں نےعبیداللہ بن عبداللہ سے بن عتبہ سے (آگے) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ یا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، عبدالرزاق نے کہا کہ معمر کبھی کہتے تھے: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اور کبھی کہتے تھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: میں نے آج رات ایک بادل کو سایہ فگن دیکھا ہے۔ان سب کی بیان کردہ حدیث کے مفہوم کے مطابق۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما یا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، عبدالرزاق رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں، معمر رحمۃ اللہ علیہ بعض دفعہ، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے اور بعض دفعہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کرتے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا، میں آج رات ایک سائبان دیکھتا ہوں، آگے مذکورہ بالا روایت ہے۔
سلمان بن کثیر نے زہری سے، انھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ سے، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے رویت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سے یہ فرمایا کرتے تھے: "تم میں سے جس شخص نے خواب دیکھا ہے، وہ بیان کرے، میں اس کی تعبیر بتاؤں گا۔"کہا: تو ایک شخص آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے ایک بادل کو سایہ فگن دیکھا۔جس طرح ان سب (بیان کرنے والوں) کی حدیث ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت دفعہ اپنے ساتھیوں سے فرماتے، ”تم میں سے جس نے خواب دیکھا ہے تو وہ بیان کرے، میں اسکے لیے، اس کی تعبیر لگاؤں،“ تو ایک آدمی آ کر کہنے لگا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے ایک سائبان دیکھا ہے، جیسا کہ مذکورہ بالاراویوں نے بیان کیا ہے۔