كِتَاب الْوَصِيَّةِ وصیت کے احکام و مسائل 2. باب الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ: باب: ایک تہائی مال کی وصیت کے بارے میں۔
ابراہیم بن سعد (بن ابراہیم بن عبدالرحمان بن عوف) نے ہمیں ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے عامر بن سعد اور انہوں نے اپنے والد (حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انہوں نے کہا: حجۃ الوداع کی موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بیماری میں میری عیادت کی جس کی وجہ سے میں موت کے کنارے پہنچ چکا تھا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے ایسی بیماری نے آ لیا ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں اور میں مالدار آدمی ہوں اور صرف ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں (بنتا۔) تو کیا میں اپنے مال کا دو تہائی حصہ صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں۔" میں نے عرض کی: کیا میں اس کا آدھا حصہ صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، (البتہ) ایک تہائی (صدقہ کر دو) اور ایک تہائی بہت ہے، بلاشبہ اگر تم اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ جاؤ، وہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتے پھریں، اور تم کوئی چیز بھی خرچ نہیں کرتے جس کے ذریعے سے تم اللہ کی رضا چاہتے ہو، مگر تمہیں اس کا اجر دیا جاتا ہے حتی کہ اس لقمے کا بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو۔" کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں اپنے ساتھیوں کے (مدینہ لوٹ جانے کے بعد) پیچھے (یہیں مکہ میں) چھوڑ دیا جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا: "تمہیں پیچھے نہیں چھوڑا جائے گا، پھر تم کوئی ایسا عمل نہیں کرو گے جس کے ذریعے سے تم اللہ کی رضا چاہتے ہو گے، مگر اس کی بنا پر تم درجے اور بلندی میں (اور) بڑھ جاؤ گے اور شاید تمہیں چھوڑ دیا جائے (لمبی عمر دی جائے) حتی کہ تمہارے ذریعے سے بہت سی قوموں کو نفع ملے اور دوسری بہت سی قوموں کو نقصان پہنچے۔ اے اللہ! میرے ساتھیوں کے لیے ان کی ہجرت کو جاری رکھ اور انہیں ان کی ایڑیوں کے بل واپس نہ لوٹا، لیکن بے چارے سعد بن خولہ (وہ تو فوت ہو ہی گئے۔) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وجہ سے ان کے لیے غم کا اظہارِ افسوس کیا کہ وہ (اس سے پہلے ہی) مکہ میں (آ کر) فوت ہو گئے تھے۔
سفیان بن عیینہ، یونس اور معمر سب نے ابن شہاب سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی
سعد بن ابراہیم نے عامر بن سعد سے اور انہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کرنے کے لیے میرے ہاں تشریف لائے۔۔۔ آگے زہری کی حدیث کے ہم معنی بیان کیا اور انہوں نے سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا تذکرہ نہیں کیا، مگر انہوں نے کہا: اور وہ (حضرت سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ) ناپسند کرتے تھے کہ اس سرزمین میں وفات پائیں جہاں سے ہجرت کر گئے تھے
زہیر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سماک بن حرب نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے مصعب بن سعد (بن ابی وقاص) نے اپنے والد سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں بیمار ہوا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا، میں نے عرض کی: مجھے اجازت دیجیے کہ میں اپنا مال جہاں چاہوں تقسیم کر دوں۔ آپ نے انکار فرمایا، میں نےعرض کی: آدھا مال (تقسیم کر دوں؟) آپ نے انکار فرمایا، میں نے عرض کی: ایک تہائی؟ کہا: (میرے) ایک تہائی (کہنے) کے بعد آپ خاموش ہو گئے۔ (ایک تہائی کی وصیت سے آپ نے منع نہ فرمایا مگر اس کے بارے میں بھی یہ فرمایا: ایک تہائی بھی بہت ہے، حدیث: 4215، 4214) کہا: اس کے بعد ایک تہائی (کی وصیت) جائز ٹھہری۔
شعبہ نے سماک سے اسی سند کے ساتھ اسی کے ہم معنی حدیث بیان کی اور انہوں نے یہ بیان نہیں کیا: "اس کے بعد ایک تہائی (کی وصیت) جائز ٹھہری
عبدالملک بن عُمَیر نے مُصعب بن سعد سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری عیادت کی تو میں نے عرض کی: کیا میں اپنے سارے مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں۔" میں نے عرض کی: تو آدھے کی؟ آپ نے فرمایا: "نہیں۔" میں نے عرض کی: ایک تہائی کی؟ تو آپ نے فرمایا: "ہاں، اور تہائی بھی زیادہ ہے
عبدالوہاب) ثقفی نے ہمیں ایوب سختیانی سے حدیث بیان کی، انہوں نے عمرو بن سعید سے، انہوں نے حُمید بن عبدالرحمان حمیری سے اور انہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے (دس سے زائد میں سے) تین بیٹوں (عامر، مصعب اور محمد) سے روایت کی، وہ سب اپنے والد سے حدیث بیان کرتے تھے کہ مکہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم عیادت کرنے کے لیے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لائے تو وہ رونے لگے، آپ نے پوچھا: "تمہیں کیا بات رلا رہی ہے؟" انہوں نے کہا: مجھے ڈر ہے کہ میں اس سرزمین میں فوت ہو جاؤں گا جہاں سے ہجرت کی تھی، جیسے سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ! سعد کو شفا دے۔ اے اللہ! سعد کو شفا دے۔" تین بار فرمایا۔ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس بہت سا مال ہے اور میری وارث صرف میری بیٹی بنے گی، کیا میں اپنے سارے مال کی وصیت کر دوں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں۔" انہوں نے کہا: دو تہائی کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں۔" انہوں نے کہا: نصف کی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں۔" انہوں نے کہا: ایک تہائی کی؟ آپ نے فرمایا: " (ہاں) ایک تہائی کی (وصیت کر دو) اور ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔ اپنے مال میں سے تمہارا صدقہ کرنا صدقہ ہے، اپنے عیال پر تمہارا خرچ کرنا صدقہ ہے اور جو تمہارے مال سے تمہاری بیوی کھاتی ہے صدقہ ہے اور تم اپنے اہل و عیال کو (کافی مال دے کر) خیر کے عالم میں چھوڑ جاؤ۔۔ یا فرمایا: (اچھی) گزران کے ساتھ چھوڑ جاؤ۔۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں اس حال میں چھوڑو کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔" اور آپ نے اپنے ہاتھ سےاشارہ کر کے دکھایا۔
ہمیں حماد نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں ایوب نے عمرو بن سعید سے حدیث بیان کی، انہوں نے حمید بن عبدالرحمان حمیری سے اور انہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے تین بیٹوں سے روایت کی، انہوں نے کہا: حضرت سعد رضی اللہ عنہ مکہ میں بیمار ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کرنے کے لیے ان کے ہاں تشریف لائے۔۔ آگے ثقفی کی حدیث کے ہم معنی ہے
محمد نے حمید بن عبدالرحمان سے روایت کی، انہوں نے کہا: مجھے حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ کے تین بیٹوں نے حدیث بیان کی، ان میں ہر ایک مجھے اپنے دوسرے ساتھی کے مانند حدیث بیان کر رہا تھا، کہا: حضرت سعد رضی اللہ عنہ مکہ میں بیمار ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔۔ آگے حمید حمیری سے عمرو بن سعید کی حدیث کے ہم معنی ہے
عیسیٰ بن یونس، وکیع اور ابن نمیر سب نے ہشام بن عروہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: کاش لوگ تہائی سے کم کر کے چوتھائی کی وصیت کریں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "تہائی (تک کی وصیت کرو)، اور تہائی بھی زیادہ ہے وکیع کی حدیث میں "بڑا ہے" یا "زیادہ ہے" کے الفاظ ہیں
|