كِتَاب الْفَرَائِضِ وراث کے مقررہ حصوں کا بیان The Book of the Rules of Inheritance 2. باب مِيرَاثِ الْكَلاَلَةِ: باب: کلالہ کی وراثت کا بیان۔ Chapter: Inheritance Of The Kalalah سفیان بن عیینہ نے ہمیں محمد بن منکدر سے حدیث بیان کی: انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا: میں بیمار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ میری عیادت کرنے کے لیے پیدل چل کر تشریف لائے، مجھ پر غشی ہو گئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر اپنے وضو کا پانی مجھ پر ڈالا تو مجھے افاقہ ہو گیا، میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں اپنے مال کے بارے میں کیسے فیصلہ کروں؟ (اس کو ایسے ہی چھوڑ جاؤں یا وصیت کروں، وصیت کروں تو کتنے حصے میں؟ اس وقت حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد زندہ تھے نہ اور کوئی بیٹا تھا۔) آپ نے مجھے جواب نہ دیا حتی کہ وراثت کی آیت نازل ہوئی: "وہ آپ سے فتویٰ مانتے ہیں، کہہ دیجئے: اللہ تمہیں کلالہ کے بارے میں فتویٰ دیتا ہے۔" حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں بیمار پڑ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر پیدل چل کر میری بیمار پرسی کے لیے تشریف لائے، تو مجھ پر غشی طاری ہو گئی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر اپنے وضو کا پانی مجھ پر ڈالا، تو مجھے ہوش آ گیا، میں نے کہا، اے اللہ کے رسول! میں اپنے مال کے بارے میں کیا فیصلہ کروں، کیسے تقسیم کروں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا، حتی کہ وراثت کی آیت اتری، ”وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھتے ہیں، آپ فرمادیجئے، اللہ تعالیٰ تمہیں کلالہ کے بارے میں جواب دیتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ابن جریج نے ہمیں حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھے ابن منکدر نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے خبر دی، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بنوسلمہ (کے علاقے) میں پیدل چل کر میری عیادت کی، آپ نے مجھے اس حالت میں پایا کہ میں کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا، آپ نے پانی منگوایا، وضو کیا، پھر اس میں سے مجھ پر چھینٹے مارے تو مجھے افاقہ ہو گیا، میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں اپنے مال میں کیا کروں؟ تو (یہ آیت) نازل ہوئی: "اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں تاکیدی حکم دیتا ہے، مرد کے لیے دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے۔" حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر نے پیدل چل کر، بنو سلمہ میں میری بیمار پرسی کی، اور انہوں نے مجھے بے ہوش پایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر وضو کیا پھر اس سے مجھ پر چھڑکا، تو میں ہوش میں آ گیا، تو میں نے پوچھا، میں اپنے مال میں کیا کروں؟ یعنی کیسے تقسیم کروں، اے اللہ کے رسول! تو یہ آیت اتری، ”اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں تلقین فرماتا ہے، کہ مذکر کے لیے مؤنث سے دگنا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سفیان (ثوری) نے ہمیں حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں نے محمد بن منکدر سے سنا، انہوں نے کہا: میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں بیمار تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری عیادت کی، آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تھے، دونوں پیدل چل کر تشریف لائے۔ آپ نے مجھے (اس حالت میں) پایا کہ مجھ پر غشی طاری تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر اپنے وضو کا بچا ہوا پانی مجھ پر ڈالا، میں ہوش میں آ گیا تو دیکھا سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں، میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں اپنے مال کے بارے میں کیا کروں؟ کہا: آپ نے مجھے کوئی جواب نہ دیا یہاں تک کہ وراثت کی آیت نازل ہوئی۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری عیادت فرمائی، جبکہ میں بیمار تھا، آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ تھے، اور دونوں پیدل چل کر آئے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بے ہوشی کی حالت میں پایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر اپنے وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، تو میں ہوش میں آ گیا، میرے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود تھے، تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! میں اپنا مال کس طرح تقسیم کروں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا، حتی کہ وراثت کے بارے میں آیت اتری۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدثني محمد بن حاتم ، حدثنا بهز ، حدثنا شعبة ، اخبرني محمد بن المنكدر ، قال: سمعت جابر بن عبد الله ، يقول: " دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا مريض لا اعقل، فتوضا فصبوا علي من وضوئه، فعقلت، فقلت: يا رسول الله إنما يرثني كلالة، فنزلت آية الميراث "، فقلت لمحمد بن المنكدر: يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة سورة النساء آية 176، قال: هكذا انزلت،حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: " دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَرِيضٌ لَا أَعْقِلُ، فَتَوَضَّأَ فَصَبُّوا عَلَيَّ مِنْ وَضُوئِهِ، فَعَقَلْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا يَرِثُنِي كَلَالَةٌ، فَنَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ "، فَقُلْتُ لِمُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ: يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلالَةِ سورة النساء آية 176، قَالَ: هَكَذَا أُنْزِلَتْ، بہز نے ہمیں حدیث بیان کی: شعبہ نے ہمیں حدیث بیان کی: مجھے محمد بن منکدر نے خبر دی، انہوں نے کہا: میں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے جبکہ میں بیمار تھا اور بے ہوش تھا، آپ نے وضو کیا تو لوگوں نے آپ کے وضو کا بچا ہوا پانی مجھ پر ڈالا، (اس پر) مجھے افاقہ ہوا تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا وارث کلالہ بنے گا۔ (اس وقت حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی بہنیں ہی تھیں جو وارث بنتی تھیں) اس پر وراثت کی آیت نازل ہوئی۔ میں نے محمد بن منکدر سے پوچھا: (یَسْتَفْتُونَکَ قُلِ اللَّـہُ یُفْتِیکُمْ فِی الْکَلَالَۃِ ۚ) (والی آیت)؟ انہوں نے کہا: اسی طرح (حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے سوال پر) نازل کی گئی۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، جبکہ میں بیماری کی وجہ سے کچھ شعور نہ رکھتا تھا، (بے ہوش تھا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، تو لوگوں نے مجھ پر آپصلی اللہ علیہ وسلم کے وضوء کا پانی ڈالا، تو مجھے ہوش آ گیا، اور میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! میرا وارث کلالہ ہو گا، اس پر میراث کے بارے میں آیت اتری، امام شعبہ کہتے ہیں، میں نے اپنے استاد محمد بن منکدر سے پوچھا، ﴿يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ﴾،
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
نضر بن شمیل، ابو عامر عقدی اور وہب بن جریر سب نے شعبہ سے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی، وہب بن جریر کی حدیث میں ہے: تو آیت فرائض نازل ہوئی۔ اور ان میں سے کسی کی حدیث میں ابن منکدر سے شعبہ کے سوال کا تذکرہ نہیں ہے۔ امام صاحب اپنے دو اساتذہ سے شعبہ کے تین شاگردوں سے روایت کرتے ہیں، ان میں سے وہب بن جریر کی روایت ہے کہ فرائض کی آیت اتری، اور نصر اور عَقدی کی روایت ہے، آیت الفرض اتری، (فرائض اور فرض کا معنی و مقصد ایک ہی ہے) لیکن ان میں سے کسی نے، شعبہ کا محمد بن منکدر سے سوال کرنے کا تذکرہ نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
ہشام نے ہمیں حدیث بیان کی: ہمیں قتادہ نے سالم بن ابی جعد سے حدیث بیان کی، انہوں نے معدان بن ابی طلحہ سے روایت کی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن خطبہ دیا، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا، پھر کہا: میں اپنے بعد کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑ رہا جو میرے ہاں کلالہ سے زیادہ اہم ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے بارے میں اتنی مراجعت نہیں کی جتنی کلالہ کے بارے میں کی، اور آپ نے بھی مجھ سے کسی چیز کے بارے میں اتنی شدت اختیار نہیں فرمائی جتنی کلالہ کے بارے میں فرمائی حتی کہ آپ نے اپنی انگلی میرے سینے میں چبھوئی اور فرمایا: "اے عمر! تمہیں موسم گرما (میں نازل ہونے) والی آیت کافی نہیں جو سورہ نساء کے آخر میں ہے؟ (جس سے مسئلہ واضح ہو گیا ہے) " اور میں (عمر) اگر زندہ رہا تو اس کے بارے میں ایسا واضح فیصلہ کروں گا جس (کو دیکھتے ہوئے) ایسا شخص (بھی) فیصلہ کر سکے گا جو قرآن پڑھتا (اور سمجھتا) ہے اور وہ بھی جو قرآن نہیں پڑھتا۔ معدان بن ابی طلحہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے جمعہ کے دن خطبہ دیا، اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا، میں اپنے بعد (پیچھے) کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑ رہا، جو میرے نزدیک کلالہ کے مسئلہ سے زیادہ اہمیت والی ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے بارے میں، کلالہ کے مسئلہ سے زیادہ بار بار نہیں پوچھا، اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز میں مجھ سے اس قدر سخت گفتگو نہیں کی، جس قدر اس کے بارے میں شدت اختیار کی، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے میرے سینے میں کچوکا لگایا، اور فرمایا، اے عمر! کیا تیرے لیے گرمی کے موسم میں اترنے والی، سورۃ نساء کے آخر میں آنے والی آیت کافی نہیں ہے، (اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا) اگر میں زندہ رہا تو اس کے بارے میں ایسا دو ٹوک فیصلہ کروں گا، جس کے مطابق ہر وہ انسان فیصلہ کر سکے گا، جو قرآن پڑھتا ہے یا قرآن نہیں پڑھتا ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
سعید بن ابی عروبہ اور شعبہ دونوں نے قتادہ سے اسی سند کے ساتھ اسی کے ہم معنی حدیث بیان کی امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|