حدثنا محمد بن ابي بكر المقدمي ، ومحمد بن المثنى واللفظ لابن المثنى، قالا: حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا هشام ، حدثنا قتادة ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن معدان بن ابي طلحة : ان عمر بن الخطاب خطب يوم جمعة، فذكر نبي الله صلى الله عليه وسلم، وذكر ابا بكر ثم قال: " إني لا ادع بعدي شيئا اهم عندي من الكلالة، ما راجعت رسول الله صلى الله عليه وسلم في شيء ما راجعته في الكلالة، وما اغلظ لي في شيء ما اغلظ لي فيه، حتى طعن بإصبعه في صدري، وقال: يا عمر الا تكفيك آية الصيف التي في آخر سورة النساء، وإني إن اعش اقض فيها بقضية يقضي بها من يقرا القرآن ومن لا يقرا القرآن "،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ : أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ خَطَبَ يَوْمَ جُمُعَةٍ، فَذَكَرَ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ أَبَا بَكْرٍ ثُمَّ قَالَ: " إِنِّي لَا أَدَعُ بَعْدِي شَيْئًا أَهَمَّ عِنْدِي مِنَ الْكَلَالَةِ، مَا رَاجَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَيْءٍ مَا رَاجَعْتُهُ فِي الْكَلَالَةِ، وَمَا أَغْلَظَ لِي فِي شَيْءٍ مَا أَغْلَظَ لِي فِيهِ، حَتَّى طَعَنَ بِإِصْبَعِهِ فِي صَدْرِي، وَقَالَ: يَا عُمَرُ أَلَا تَكْفِيكَ آيَةُ الصَّيْفِ الَّتِي فِي آخِرِ سُورَةِ النِّسَاءِ، وَإِنِّي إِنْ أَعِشْ أَقْضِ فِيهَا بِقَضِيَّةٍ يَقْضِي بِهَا مَنْ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَمَنْ لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ "،
ہشام نے ہمیں حدیث بیان کی: ہمیں قتادہ نے سالم بن ابی جعد سے حدیث بیان کی، انہوں نے معدان بن ابی طلحہ سے روایت کی کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن خطبہ دیا، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا، پھر کہا: میں اپنے بعد کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑ رہا جو میرے ہاں کلالہ سے زیادہ اہم ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے بارے میں اتنی مراجعت نہیں کی جتنی کلالہ کے بارے میں کی، اور آپ نے بھی مجھ سے کسی چیز کے بارے میں اتنی شدت اختیار نہیں فرمائی جتنی کلالہ کے بارے میں فرمائی حتی کہ آپ نے اپنی انگلی میرے سینے میں چبھوئی اور فرمایا: "اے عمر! تمہیں موسم گرما (میں نازل ہونے) والی آیت کافی نہیں جو سورہ نساء کے آخر میں ہے؟ (جس سے مسئلہ واضح ہو گیا ہے) " اور میں (عمر) اگر زندہ رہا تو اس کے بارے میں ایسا واضح فیصلہ کروں گا جس (کو دیکھتے ہوئے) ایسا شخص (بھی) فیصلہ کر سکے گا جو قرآن پڑھتا (اور سمجھتا) ہے اور وہ بھی جو قرآن نہیں پڑھتا۔
معدان بن ابی طلحہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے جمعہ کے دن خطبہ دیا، اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا، میں اپنے بعد (پیچھے) کوئی ایسی چیز نہیں چھوڑ رہا، جو میرے نزدیک کلالہ کے مسئلہ سے زیادہ اہمیت والی ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے بارے میں، کلالہ کے مسئلہ سے زیادہ بار بار نہیں پوچھا، اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز میں مجھ سے اس قدر سخت گفتگو نہیں کی، جس قدر اس کے بارے میں شدت اختیار کی، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے میرے سینے میں کچوکا لگایا، اور فرمایا، اے عمر! کیا تیرے لیے گرمی کے موسم میں اترنے والی، سورۃ نساء کے آخر میں آنے والی آیت کافی نہیں ہے، (اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا) اگر میں زندہ رہا تو اس کے بارے میں ایسا دو ٹوک فیصلہ کروں گا، جس کے مطابق ہر وہ انسان فیصلہ کر سکے گا، جو قرآن پڑھتا ہے یا قرآن نہیں پڑھتا ہے۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4150
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کلالہ کے بارے میں بڑے فکر مند تھے، کیونکہ کلالہ کے بارے میں بہت سی باتیں غور طلب ہیں، اور بقول امام نووی رحمہ اللہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے سختی کی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ غوروفکر یا مسئلہ کے استنباط کے بجائے صریح نص چاہتے تھے، حالانکہ بعض جگہ استنباط کے بغیر چارہ کار نہیں ہے، کلالہ کے معنی میں اختلاف ہے، کیونکہ اس کا اطلاق وارث پر ہو سکتا ہے، اور مورث پر بھی، بعض اس کو وراثت کے معنی میں لیتے ہیں، اور بعض وراثت میں آنے والے مال کو مراد لیتے ہیں، اس طرح کلالہ کا حکم دو آیتوں میں بیان ہوا ہے۔ پہلی آیت اخیافی بہن بھائیوں کے بارے میں، اور آخری شقیق اور علاتی بہن بھائیوں کے بارے میں اس طرح اس میں اختلاف ہے کہ اگر میت کا دادا موجود ہو، تو وہ باپ کے قائم مقام ہو گا، میت کے بھائیوں کو وراثت سے محروم کرے گا یا نہیں، امام ابو حنیفہ کے نزدیک دادا، باپ کے قائم مقام ہو گا، لیکن امام مالک، امام شافعی، اور صاحبین کے نزدیک، دادا کے ساتھ بھائی بھی وارث ہوں گے، آگے اس میں اختلاف ہے، ان کو کیا ملے گا، اس طرح اگر میت اپنے پیچھے، بیٹی اور بہن چھوڑے، تو بہن کی وراثت میں اختلاف ہے، اس لیے حضرات اس کے بارے میں فکر مند تھے، لیکن آخر تک ان کو ایسا فیصلہ کرنے کا موقعہ نہیں مل سکا، جس پر ہر عالم اور جاہل مطمئن ہو جاتا۔ کلالہ کی تفسیر میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے، جمہور کے نزدیک کلالہ اس میت کا نام ہے جس نے اپنے پیچھے نہ اولاد چھوڑی اور نہ باپ دادا، اس سے اس کے بھائی وارث ہوں گے۔ (2) کلالہ وہ وارث ہیں جو نہ اولاد اور نہ باپ اس لئے بھائی کلالہ ہوں گے۔ (3) وہ وراثت جو نہ اولاد کے لیے اور نہ باپ کے لیے۔ (4) وہ مال جس کا وارث نہ اولاد ہے اور نہ باپ۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4150
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2726
´کلالہ کا بیان۔` معدان بن ابی طلحہ یعمری سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے، یا خطبہ دیا، تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور کہا: اللہ کی قسم! میں اپنے بعد کلالہ (ایسا مرنے والا جس کے نہ باپ ہو نہ بیٹا) کے معاملے سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں چھوڑ رہا ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قدر سختی سے جواب دیا کہ ویسی سختی آپ نے مجھ سے کبھی نہیں کی یہاں تک کہ اپنی انگلی سے میری پسلی یا سینہ میں ٹھوکا مارا پھر فرمایا: ”اے عمر! تمہارے لیے آیت صیف «يستفتونك قل الله يفتيكم في الكلالة»”آپ سے فتویٰ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب الفرائض/حدیث: 2726]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) کلالہ سے مراد وہ میت ہے جس کےماں باپ بھی نہ ہوں اور اولاد بھی نہ ہو۔ اس کی وراثت اس کے بھائی بہنوں میں تقسیم ہوگی۔
(2) موسم گرما میں نازل ہونے والی آیت سے مراد سورۂ نساء کی آیت 176 ہے۔ اس میں یہ مسئلہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر مرنے والے کلالہ مرد کی ایک حقیقی (ماں اور باپ دونوں میں شریک) بہن ہو، یا ایک علاتی (باپ شریک) بہن ہوتو اسے اپنے بھائی کا نصف ترکہ ملے گا، البتہ مرنے والی کلالہ عورت کا ایک بھائی ہو تو اسے پورے کا پورا ترکہ مل جائے گا۔
(3) اسی آیت میں ہے کہ اگر کلالہ کی دو حقیقی یا علاتی بہنیں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے گا۔
(4) اگر کلالہ میت کے وارث حقیقی یا علاتی بھائی بھی ہوں اور بہنیں بھی تو ترکہ ان میں اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ ہر بھائی کو بہن سے دگنا ملے گا۔
(5) اخیافی (ماں شریک) بھائی یا بہن کا حکم یہ ہے کہ اگر میت کا ایک ہی اخیافی بھائی یا بہن ہو تو اسے ترکے کا چھٹا حصہ دیا جائے گا۔ اوراگر دو بھائی یا دو بہنیں یا ایک بھائی اور ایک بہن یا دو سے زیادہ بھائی بہنیں ہوں تو ترکے کا ایک تہائی حصہ ان سب میں برابر تقسیم کیا جائے گا۔ اس صورت میں بھائی کا حصہ بہن سے دگنا نہیں ہوگا۔ (النساء، آیت: 12)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2726