جماع أَبْوَابِ ذِكْرِ السِّعَايَةِ عَلَى الصَّدَقَةِ زکوٰۃ کی وصولی کے ابواب کا مجموعہ 1624. (69) بَابُ الزَّجْرِ عَنِ اسْتِعْمَالِ مَوَالِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الصَّدَقَةِ إِذَا طَلَبُوا الْعِمَالَةَ، إِذْ هُمْ مِمَّنْ لَا تَحِلُّ لَهُمُ الصَّدَقَةُ الْمَفْرُوضَةُ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آل میں سے کوئی شخص زکوٰۃ کی وصولی کا عامل بننے کی آرزو کرے تو اسے روک دیا جائے گا کیونکہ ان کے لئے فرض زکوٰۃ حلال نہیں ہے۔
جناب عبدالمطلب بن ربیعہ بن حارث بیان کرتے ہیں کہ ان کے والد گرامی سیدنا ربیعہ بن حارث اور عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہما نے (اپنے اپنے بیٹوں) عبدالمطلب بن ربیعہ اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہم سے کہا کہ تم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرو کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ہم جوان ہو چکے ہیں، جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں اور اب ہم شادی کرنا چاہتے ہیں اور آپ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، سب سے بڑھ کر احسان کرنے والے اور سب سے بڑھ کر صلہ رحمی کرنے والے ہیں اور ہمارے والدین کے پاس اتنا مال نہیں ہے کہ وہ ہمارا حق مہر ادا کرسکیں، لہٰذا اے اللہ کے رسول، آپ ہمیں بھی زکوۃ کی وصولی پر مقرر فرمائیں، ہم آپ کو دیگر عاملوں کی طرح زکوٰۃ کا مال ادا کریں اور اس میں سے اپنا حصّہ وصول کریںگے۔ کہتے ہیں کہ ہم ابھی یہی گفتگو کر رہے تھے کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور فرمانے لگے کہ نہیں، اللّٰہ کی قسم بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی کو زکوٰۃ کی وصولی پر مقرر نہیں فرمائیں گے تو سیدنا ربیعہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم یہ باتیں حسد کی وجہ سے کر رہے ہو حالانکہ تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو خیر و برکت حاصل ہوئی ہے ہم نے اس پر کبھی حسد نہیں کیا۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر بچھائی اور اس پر لیٹ گئے، پھر فرمایا، میں قوم کا عقلمند اور صاحب رائے شخص ہوں، اللہ کی قسم میں اپنی اس جگہ سے اس وقت تک نہیں اُٹھوں گا جب تک تمہارے بیٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تمہارے مطالبے کا جواب لیکر نہیں آجاتے۔ سیدنا عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور فضل رضی اللہ عنہما گئے تو ہم نے دیکھا کہ نماز ظہر کی اقامت ہوچکی ہے۔ لہٰذا ہم نے بھی لوگوں کے ساتھ نماز ادا کی۔ پھر میں اور فضل رضی اللہ عنہما تیزی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرے کے دروازے کی طرف گئے اور آپ اس دن زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھے۔ لہٰذا ہم دروازے پر کھڑے ہوگئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے میرا اور فضل کا کان (از راہ پیار و شفقت) پکڑا، پھر فرمایا: ”جو بات تم دل میں چھپائے ہوئے ہو وہ نکالو۔“ پھر آپ اندر تشریف لے گئے اور ہمیں بھی اجازت دی تو ہم بھی اندر داخل ہوگئے پھر تھوڑی دیر ہم ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے رہے کہ وہ کلام کریگا۔ پھر میں نے بات شروع کی یا فضل نے بات کی۔ اس میں عبداللہ بن حارث کو شک ہے۔ پھر جب ہم نے آپ سے وہ بات کی جو ہمارے والدین نے ہم سے کہی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش ہوگئے اور آپ نے اپنی نظر چھت کی طرف اُٹھا کر دیکھنا شروع کردیا۔ جب کافی دیر ہوگئی تو ہم نے محسوس کیا کہ آپ ہمیں جواب نہیں دیںگے۔ حتّیٰ کہ ہم نے دیکھا کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا پردے کے پیچھے سے ہمیں اشارہ کر رہی تھیں کہ جلدی نہ کرو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہی معاملے میں غور وفکر کر رہے ہیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک جھکایا تو ہم سے فرمایا: ”یہ زکوٰۃ کا مال تو لوگوں کی میل کچیل ہے اور یہ محمد اور آپ کی آل کے لئے حلال نہیں ہے۔ تم نوفل بن حارث کو میرے پاس بلا کر لاؤ۔“ سیدنا نوفل رضی اللہ عنہ حاضرہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے نوفل، عبدالمطلب کی شادی اپنی بیٹی سے کردو۔“ تو انہوں نے مجھے رشتہ دے دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”محمیہ بن جزء کو بلا لاؤ۔“ وہ بنو زبید کا ایک شخص تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس کے مال کا عامل مقرر کیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محمیہ سے کہا: ”فضل کا نکاح اپنی بیٹی سے کردو۔“ تو سیدنا محمیہ بن جزء رضی اللہ عنہ نے حضرت فضل کی شادی اپنی بیٹی سے کردی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ خمس میں سے ان دونوں کا اتنا اتنا حق مہر ادا کردو۔“ جناب عبداللہ بن حارث نے اس کی مقدار بیان نہیں کی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ جناب احمد بن عبدالرحمان نے ہمیں بتایا کہ الحور کا معنی جواب ہے۔
تخریج الحدیث: صحيح مسلم
جناب عبداللہ بن حارث سے روایت ہے۔ مذکورہ بالا کی مثل روایت بیان کی اور اس میں یہ الفاظ ہیں کہ اور ہمارے والدین کے پاس مہر دینے کے لئے رقم نہیں ہے اور یہ الفاظ مزید بیان کیے کہ ہم واپس آئے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ وہیں بیٹھے تھے۔ کہتے ہیں ہمیں بتاؤ کہ تم کیا جواب لیکر آئے ہو۔ ان دونوں نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب لوگوں سے بڑھ کر احسان کرنے والا اور صلہ رحمی کرنے والا پایا ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا تو کیا آپ نے تمہیں زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے عامل بنایا ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ آپ نے اس سے بڑھ کر ہمارے ساتھ حسن سلوک کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے نکا ح کردیئے ہیں اور حق مہر بھی خود ادا کیا ہے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں قوم کا عقلمند و دانا آدمی ہوں۔ کیا میں نے تمہیں بتایا نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں زکوٰۃ کی وصولی کا عامل ہرگز مقرر نہیں فرمائیں گے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے الفاظ ”أَنْكَحَنَا“ (آپ نے ہمارا نکا ح کر دیا) یہ مسئلہ اسی قسم سے تعلق رکھتا ہے جس کے بارے میں میں کہتا ہوں کہ عرب لوگ جس طرح کسی اچھے کام کی نسبت اس کے کرنے والے کی طرف کرتے ہیں۔ اسی طرح کسی خیر و بھلائی کی نسبت اس کام کے کرنے کا حُکم دینے والے کی طرف بھی کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالمطلب اور فضل رضی اللہ عنہما کے نکا ح کرنے کا حُکم دیا تھا جو پورا کردیا گیا تو آپ کے حُکم دینے کی وجہ سے اس حدیث میں نکا ح کی نسبت آپ کی طرف کی گئی ہے حالانکہ آپ نے بذات خود ان نکاحوں میں سر پرستی کے فرائض انجام نہیں دیئے بلکہ صرف حُکم دیا تھا۔ جناب احمد بن عبدالرحمٰن کی سند سے روایت ہے کہ اس میں یہ الفاظ ہیں (سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا) میں تو قوم کا صاحب رائے عقلمند شخص ہوں۔ جناب احمد نے ہمیں بتایا کہ القوم سے مراد قوم کا سردار اور صاحب رائے مراد ہے اور الحور سے مراد جواب ہے۔ یعنی جس مقصد کے لئے تم نے اپنے بیٹوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا ہے۔ میں اس کا جواب آنے تک ادھر ہی بیٹھوں گا۔
تخریج الحدیث: انظر الحديث السابق
|