والدليل على ان التيمم ليس كالغسل في جميع احكامه، إذ المغتسل من الجنابة لا يجب عليه غسل ثان إلا بجنابة حادثة، والتيمم في الجنابة عند الإعواز من الماء يجب عليه غسل عند وجود الماءوَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ التَّيَمُّمَ لَيْسَ كَالْغُسْلِ فِي جَمِيعِ أَحْكَامِهِ، إِذِ الْمُغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَةِ لَا يَجِبُ عَلَيْهِ غُسْلٌ ثَانٍ إِلَّا بِجَنَابَةٍ حَادِثَةٍ، وَالتَّيَمُّمُ فِي الْجَنَابَةِ عِنْدَ الْإِعْوَازِ مِنَ الْمَاءِ يَجِبُ عَلَيْهِ غُسْلٌ عِنْدَ وُجُودِ الْمَاءِ
اور اس دلیل کا بیان کہ تیمّم تمام احکام نسل میں غسل کی مانند نہیں ہے کیونکہ جنابت کی وجہ سے غسل کرنے والے شخص پر دوبارہ غسل اُس وقت واجب ہوگا جب وہ دوبارہ جنبی ہو گا۔ جبکہ پانی کی عدم موجودگی میں تیمّم کرنے والا جنبی شخص پانی ملنے پرلازم غسل کرے گا۔
نا بندار ، نا يحيى بن سعيد ، وابن ابي عدي ، ومحمد بن جعفر ، وسهل بن يوسف ، وعبد الوهاب بن عبد المجيد الثقفي ، قالوا: حدثنا عوف ، عن ابي رجاء العطاردي ، نا عمران بن حصين ، قال: كنا في سفر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإنا سرينا ذات ليلة، حتى إذا كان السحر قبل الصبح وقعنا تلك الوقعة، ولا وقعة احلى عند المسافر منها، فما ايقظنا إلا حر الشمس، فذكر بعض الحديث، وقال: ثم نادى بالصلاة، فصلى باناس , ثم انفتل من صلاته، فإذا رجل معتزل لم يصل مع القوم، فقال له:" ما منعك يا فلان ان تصلي مع القوم؟" فقال: يا رسول الله اصابتني جنابة ولا ماء، فقال:" عليك بالصعيد فإنه يكفيك" ، ثم سار واشتكى إليه الناس، فدعا فلانا قد سماه ابو رجاء ونسيه عوف، ودعا علي بن ابي طالب، فقال لهما:" اذهبا، فابغيا لنا الماء"، فانطلقا فتلقيا امراة بين سطيحتين او مزادتين على بعير، فذكر الحديث، وقال: ثم نودي في الناس ان اسقوا واستقوا، فسقي من شاء واستقى من شاء، قال: وكان آخر ذلك ان اعطى الذي اصابته الجنابة إناء من ماء، وقال:" اذهب، فافرغه عليك". قال ابو بكر: ففي هذا الخبر ايضا دلالة على ان المتيمم إذا صلى بالتيمم، ثم وجد الماء فاغتسل إن كان جنبا، او توضا إن كان محدثا، لم يجب عليه إعادة ما صلى بالتيمم، إذ النبي صلى الله عليه وسلم لم يامر المصلي بالتيمم، لما امره بالاغتسال بإعادة ما صلى بالتيمم، وفي الخبر ايضا دلالة على ان المغتسل بالجنابة لا يجب عليه الوضوء قبل إفاضة الماء على الجسد غير اعضاء الوضوء، إذ النبي صلى الله عليه وسلم لما امر الجنب بإفراغ الماء على نفسه، ولم يامره بالبدء بالوضوء وغسل اعضاء الوضوء , ثم إفاضة الماء على سائر البدن، كان في امره إياه ما بان، وصح ان الجنب إذا افاض على نفسه كان مؤد يا لما عليه من فرض الغسل، وفي هذا ما دل على ان بدء المغتسل بالوضوء , ثم إفاضة الماء على سائر البدن، اختيار واستحباب لا فرض وإيجابنا بُنْدَارٌ ، نا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَسَهْلُ بْنُ يُوسُفَ ، وَعَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الثَّقَفِيُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيِّ ، نا عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ ، قَالَ: كُنَا فِي سَفَرٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّا سَرَيْنَا ذَاتَ لَيْلَةٍ، حَتَّى إِذَا كَانَ السَّحَرُ قَبْلَ الصُّبْحِ وَقَعْنَا تِلْكَ الْوَقْعَةِ، وَلا وَقْعَةَ أَحْلَى عِنْدَ الْمُسَافِرِ مِنْهَا، فَمَا أَيْقَظَنَا إِلا حَرُّ الشَّمْسِ، فَذَكَرَ بَعْضَ الْحَدِيثِ، وَقَالَ: ثُمَّ نادَى بِالصَّلاةِ، فَصَلَّى بِأُنَاسٍ , ثُمَّ انْفَتَلَ مِنْ صَلاتِهِ، فَإِذَا رَجُلٌ مُعْتَزِلٌ لَمْ يُصَلِّ مَعَ الْقَوْمِ، فَقَالَ لَهُ:" مَا مَنَعَكَ يَا فُلانُ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَ الْقَوْمِ؟" فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَصَابَتْنِي جَنابَةٌ وَلا مَاءَ، فَقَالَ:" عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ فَإِنَّهُ يَكْفِيكَ" ، ثُمَّ سَارَ وَاشْتَكَى إِلَيْهِ النَّاسُ، فَدَعَا فُلانًا قَدْ سَمَّاهُ أَبُو رَجَاءٍ وَنَسِيَهُ عَوْفٌ، وَدَعَا عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ لَهُمَا:" اذْهَبَا، فَابْغِيَا لَنَا الْمَاءَ"، فَانْطَلَقَا فَتَلَقَّيَا امْرَأَةً بَيْنَ سَطِيحَتَيْنِ أَوْ مَزَادَتَيْنِ عَلَى بَعِيرٍ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ: ثُمَّ نُودِيَ فِي النَّاسِ أَنِ اسْقُوا وَاسْتَقُوا، فَسُقِيَ مَنْ شَاءَ وَاسْتَقَى مَنْ شَاءَ، قَالَ: وَكَانَ آخِرُ ذَلِكَ أَنْ أَعْطَى الَّذِي أَصَابَتْهُ الْجَنَابَةُ إِنَاءً مِنْ مَاءٍ، وَقَالَ:" اذْهَبْ، فَأَفْرِغْهُ عَلَيْكَ". قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَفِي هَذَا الْخَبَرِ أَيْضًا دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ الْمُتَيَمِّمَ إِذَا صَلَّى بِالتَّيَمُّمِ، ثُمَّ وَجَدَ الْمَاءَ فَاغْتَسَلَ إِنْ كَانَ جُنُبًا، أَوْ تَوَضَّأَ إِنْ كَانَ مُحْدِثًا، لَمْ يَجِبْ عَلَيْهِ إِعَادَةُ مَا صَلَّى بِالتَّيَمُّمِ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَأْمُرِ الْمُصَلِّيَ بِالتَّيَمُّمِ، لَمَّا أَمْرَهُ بِالاغْتِسَالِ بِإِعَادَةِ مَا صَلَّى بِالتَّيَمُّمِ، وَفِي الْخَبَرِ أَيْضًا دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ الْمُغْتَسَلَ بِالْجَنَابَةِ لا يَجِبُ عَلَيْهِ الْوُضُوءُ قَبْلَ إِفَاضَةِ الْمَاءِ عَلَى الْجَسَدِ غَيْرَ أَعْضَاءِ الْوُضُوءِ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَمَرَ الْجُنُبَ بِإِفْرَاغِ الْمَاءِ عَلَى نَفْسِهِ، وَلَمْ يَأْمُرْهُ بِالْبَدْءِ بِالْوَضُوءِ وَغَسْلِ أَعْضَاءِ الْوُضُوءِ , ثُمَّ إِفَاضَةِ الْمَاءِ عَلَى سَائِرِ الْبَدَنِ، كَانَ فِي أَمْرِهِ إِيَّاهُ مَا بَانَ، وَصَحَّ أَنَّ الْجُنُبَ إِذَا أَفَاضَ عَلَى نَفْسِهِ كَانَ مُؤَدِّ يًا لِمَا عَلَيْهِ مِنْ فَرْضِ الْغُسْلِ، وَفِي هَذَا مَا دَلَّ عَلَى أَنَّ بَدْءَ الْمُغْتَسِلِ بِالْوَضُوءِ , ثُمَّ إِفَاضَةُ الْمَاءِ عَلَى سَائِرِ الْبَدَنِ، اخْتِيَارٌ وَاسْتِحْبَابٌ لا فَرْضٌ وَإِيجَابٌ
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہم ایک رات چلتے رہے حتیٰ کہ جب صبح سے قبل سحر کا وقت ہوا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا، اور مسافر کے نزدیک آخری رات کی نیند سے زیادہ پُر لُطف لمحہ کوئی نہیں ہوتا (لہٰذا ہم سو گئے) تو ہمیں سورج کی حرارت ہی نے بیدار کیا (یعنی صبح دیر تک سوتے رہے اور فجر کی نماز رہ گئی) پھر اُنہوں نے حدیث کا کچھ حصّہ بیان کیا۔ اور کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے اذان کہلوائی اور لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر الگ تھلگ بیٹھے ایک شخص پر پڑی جس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے پوچھا: ”اے فلاں، تجھے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا ہے؟“ تواُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، میں جنبی ہو گیا ہوں اور (نہا نے کے لیے) پانی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھ پر پاک مٹّی (سے تمیّم کرنا) لازم ہے کیونکہ وہ تُجھے کافی ہو جائے گا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے (راستے میں) لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (پانی کی قلّت کا) شکوہ کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں کو بلایا۔ ابورجاء نے اُن کا نام بیان کیا تھا مگر عوف بھول گئے۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کوبُلایا اور اُن دونوں کوحکم دیا ”جاؤ، ہمارے لیے پانی تلاش کر کے لاؤ۔“ تو وہ دونوں (پانی کی تلاش میں) چل پڑے۔ تو وہ ایک عورت سے ملے جو اپنے اونٹ پر دو پانی کے تھیلوں یا مشکیزوں کے درمیان سوار جا رہی تھی۔ پھر حدیث کا کچھ حصّہ بیان کیا۔ اور کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں اعلان کروا دیا: ”جانوروں کو پلا لو اور خود بھی پی لو“ تو جس نے چاہا (اپنے جانوروں کو) پلا لیا اور جس نے چاہا خود پی لیا۔ سب سے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس شخص کو پانی کا برتن دیا جو جنبی ہوگیا تھا۔ اور فرمایا: ”جاؤ اُسے اپنے اوپر بہالو۔ (یعنی غسل کرلو)“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ بھی دلیل ہے کہ تیمّم کر کے نماز پڑھنے والا شخص جب پانی پالے تو اُسے غسل کرنا ہو گا اگر وہ جنبی تھا۔ اور اگر مُحدث تھا تو اُسے وضو کرنا ہو گا۔ لیکن تیمّم کے ساتھ ادا کی گئی نمازوں کا اعادہ اس پر واجب نہیں ہے۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمّم کرکے نماز پڑھنے والے کو جب (پانی ملنے پر) غسل کرنے کا حُکم دیا تو اُسے تیمّم کے ساتھ پڑھی گئی نمازوں کے اعادے کا حُکم نہیں دیا۔ اس حدیث میں یہ بھی دلیل ہے کہ غسلِ جنابت کرنے والے شخص پر اعضائے وضو کے علاوہ (باقی) جسم پر پانی بہانے سے پہلے وضو کرنا واجب نہیں ہے۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب جنبی شخص کو اپنے جسم پر پانی بہانے کا حُکم دیا تو اُسے وضو اور اعضائے وضو کو دھونے سے ابتدا کرنے اور پھر پورے جسم پر پانی بہانے کا حُکم نہیں دیا، جنبی شخص کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم سے یہ واضح اور صحیح ثابت ہو گیا کہ جنبی شخص جب اپنے جسم پر پانی بہا لے تو وہ فرض غسل کو ادا کرنے والا سمجھا جائے گا۔ اور اس میں یہ بھی دلیل ہے کہ غسل کرنے والے شخص کا وضو سے ابتداء کرنا پھر سارے بدن پر پانی بہانا اختیاری اور مستحب عمل ہے، فرضی اور و جوبی نہیں۔