كِتَابُ الْعِتْقِ وَالْوَلَاءِ کتاب: عتق اور ولاء کے بیان میں 12. بَابُ مِيرَاثِ الْوَلَاءِ ولاء کی میراث کا بیان
حضرت عبدالملک بن ابی بکر بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ عاصی بن ہشام مر گئے اور تین بیٹے چھوڑ گئے، دو اس میں سے سگے بھائی تھے اور ایک سوتیلا (یعنی ماں اس کی اور تھی)، تو سگے بھائیوں میں سے ایک بھائی مر گیا اور مال اور غلام آزاد کئے ہوئے چھوڑ گیا، اس کا وارث سگا بھائی ہوا، مال اور غلاموں کی سب ولاء اس نے لی۔ پھر وہ بھائی بھی مر گیا اور ایک بیٹا اور سوتیلا بھائی (یعنی وہ عاصی بن ہشام کا بیٹا) چھوڑ گیا، بیٹے نے کہا: میں اپنے باپ کے مال اور ولاء کا مالک ہوں۔ بھائی نے کہا: بے شک مال کا تو مالک ہے مگر ولاء کا مالک نہیں۔ فرض کر کہ اگر پہلا بھائی میرا آج مرتا تو میں اس کا وارث ہوتا، تو پھر دونوں نے جھگڑا کیا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، آپ رضی اللہ عنہ نے ولاء بھائی کو دلائی۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21492، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 6068، ولدارمي فى «سننه» برقم: 3155، وبغوي فى «شرح السنة» برقم: 2227، فواد عبدالباقي نمبر: 38 - كِتَابُ الْعِتْقِ وَالْوَلَاءِ-ح: 22»
حضرت عبداللہ بن ابی بکر بن حزم کے والد ابان بن عثمان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں کچھ لوگ جہینہ کے اور کچھ لوگ بنی حارث بن خزرج کے لڑتے جھگڑتے آئے۔ مقدمہ یہ تھا کہ ایک عورت جہینہ کی نکاح میں تھی ایک شخص کے بنی حارث بن خزرج میں سے، جس کا نام ابراہیم بن کلیب تھا۔ وہ عورت مر گئی اور مال اور غلام آزاد کئے ہوئے چھوڑ گئی، اس کا خاوند اور بیٹا وارث ہوا، پھر اس کا بیٹا مر گیا، اب بیٹے کے وارثوں نے کہا: ولاء ہم کے ملے گی کیونکہ عورت کا بیٹا اس ولاء پر قابض ہو گیا تھا، اور جہینہ کے لوگ یہ کہتے تھے کہ ولاء کے مستحق ہم ہیں اس لئے کہ وہ غلام ہمارے کنبے کی عورت کے غلام ہیں، جب اس عورت کا لڑکا مر گیا ولاء ہم کو ملے گی۔ ابان بن عثمان نے جہینہ کے لوگوں کو ولاء دلائی۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21499، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 6069، 6070، والشافعي فى «الاُم» برقم: 128/4، فواد عبدالباقي نمبر: 38 - كِتَابُ الْعِتْقِ وَالْوَلَاءِ-ح: 23»
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ سعید بن مسیّب نے کہا: جو شخص مر جائے اور تین بیٹے چھوڑ جائے اور آزاد کئے ہوئے غلام چھوڑ جائے، پھر ان تینوں بیٹوں میں سے دو بیٹے مر جائیں اور اولاد اپنی چھوڑ جائیں، تو ولاء کا وارث تیسرا بھائی ہو گا، جب وہ مرجائے تو اس کی اولاد اور ان دونوں بھائیوں کی اولاد ولاء کے استحقاق میں برابر ہوگی۔
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21500، فواد عبدالباقي نمبر: 38 - كِتَابُ الْعِتْقِ وَالْوَلَاءِ-ح: 24»
|