حدثنا ابن رافع، قال: حدثنا ابو اسامة قال: حدثني موسى بن عبد الله قال: حدثتنا عائشة بنت طلحة قالت: قلت لعائشة - وانا في حجرها - وكان الناس ياتونها من كل مصر، فكان الشيوخ ينتابوني لمكاني منها، وكان الشباب يتاخوني فيهدون إلي، ويكتبون إلي من الامصار، فاقول لعائشة: يا خالة، هذا كتاب فلان وهديته، فتقول لي عائشة: اي بنية، فاجيبيه واثيبيه، فإن لم يكن عندك ثواب اعطيتك، فقالت: فتعطيني.حَدَّثَنَا ابْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ عَبْدِ اللهِ قَالَ: حَدَّثَتْنَا عَائِشَةُ بِنْتُ طَلْحَةَ قَالَتْ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ - وَأَنَا فِي حِجْرِهَا - وَكَانَ النَّاسُ يَأْتُونَهَا مِنْ كُلِّ مِصْرٍ، فَكَانَ الشُّيُوخُ يَنْتَابُونِي لِمَكَانِي مِنْهَا، وَكَانَ الشَّبَابُ يَتَأَخَّوْنِي فَيُهْدُونَ إِلَيَّ، وَيَكْتُبُونَ إِلَيَّ مِنَ الأَمْصَارِ، فَأَقُولُ لِعَائِشَةَ: يَا خَالَةُ، هَذَا كِتَابُ فُلاَنٍ وَهَدِيَّتُهُ، فَتَقُولُ لِي عَائِشَةُ: أَيْ بُنَيَّةُ، فَأَجِيبِيهِ وَأَثِيبِيهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَكِ ثَوَابٌ أَعْطَيْتُكِ، فَقَالَتْ: فَتُعْطِينِي.
سیدہ عائشہ بنت طلحہ رحمہا اللہ سے روایت ہے کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا اور میں ان کی زیرِ پرورش تھی۔ ان کے پاس دنیا کے اطراف و اکناف سے لوگ آتے تھے۔ بزرگ حضرات باری باری میرے پاس آتے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ میں ان کی خادمہ ہوں، اور نوجوان طالب علم بہنوں کی طرح میرا قصد کرتے اور مجھے ہدیے ارسال کرتے، اور مختلف شہروں سے مجھے خط لکھتے تو میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتاتی۔ خالہ جان یہ فلاں کا خط اور تحفہ ہے، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مجھے فر ماتیں: بیٹی! خط کا جواب دے دو اور ہدیے کا بدلہ بھی دے دو، اور اگر تمہارے پاس عطیے کا بدلہ دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو میں دے دیتی ہوں۔ وہ کہتی ہیں کہ پھر وہ مجھے دے دیتیں۔