حدثنا بشر، قال: حدثنا عبد الله، قال: حدثنا داود بن قيس، قال: حدثنا عبيد الله بن مقسم قال: سمعت جابر بن عبد الله يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”اتقوا الظلم، فإن الظلم ظلمات يوم القيامة، واتقوا الشح، فإن الشح اهلك من كان قبلكم، وحملهم على ان سفكوا دماءهم، واستحلوا محارمهم.“حَدَّثَنَا بِشْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللهِ بْنُ مِقْسَمٍ قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”اتَّقُوا الظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَاتَّقُوا الشُّحَّ، فَإِنَّ الشُّحَّ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، وَحَمَلَهُمْ عَلَى أَنْ سَفَكُوا دِمَاءَهُمْ، وَاسْتَحَلُّوا مَحَارِمَهُمْ.“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظلم سے بچو کیونکہ ظلم روز قیامت تاریکیاں اور اندھیرے بن کر سامنے آئے گا۔ اور بخل سے بچو کیونکہ اسی بخل نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا اور انہیں اس بات پر ابھارا کہ انہوں نے آپس میں خون خرابا کیا اور حرام چیزوں کو حلال کیا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب البر و الصلة: 2578 - انظر الصحيحة: 858»
حدثنا حاتم، قال: حدثنا الحسن بن جعفر، قال: حدثنا المنكدر بن محمد بن المنكدر، عن ابيه، عن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”يكون في آخر امتي مسخ، وقذف، وخسف، ويبدا باهل المظالم.“حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُنْكَدِرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”يَكُونُ فِي آخِرِ أُمَّتِي مَسْخٌ، وَقَذْفٌ، وَخَسْفٌ، وَيُبْدَأُ بِأَهْلِ الْمَظَالِمِ.“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت کے آخری زمانہ میں صورتیں بگڑنے، پتھر برسنے اور دھنسائے جانے کے واقعات رونما ہوں گے، اور اس کا آغاز ظالموں سے ہو گا۔“
حدثنا احمد بن يونس، قال: حدثنا عبد العزيز بن الماجشون قال: اخبرني عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”الظلم ظلمات يوم القيامة.“حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمَاجِشُونِ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”الظُّلْمُ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظلم قیامت کے دن اندھیرے بن کر سامنے آئے گا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب المظالم، باب الظلم و ظلمات يوم القيامة: 2447 و مسلم: 2579 و الترمذي: 2030 - انظر الصحيحة: 858»
حدثنا مسدد، وإسحاق قالا: حدثنا معاذ قال: حدثني ابي، عن قتادة، عن ابي المتوكل الناجي، عن ابي سعيد، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا خلص المؤمنون من النار حبسوا بقنطرة بين الجنة والنار، فيتقاصون مظالم بينهم في الدنيا، حتى إذا نقوا وهذبوا، اذن لهم بدخول الجنة، فوالذي نفس محمد بيده، لاحدهم بمنزله ادل منه في الدنيا.“حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَإِسْحَاقُ قَالاَ: حَدَّثَنَا مُعَاذٌ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ النَّاجِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”إِذَا خَلَصَ الْمُؤْمِنُونَ مِنَ النَّارِ حُبِسُوا بِقَنْطَرَةٍ بَيْنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، فَيَتَقَاصُّونَ مَظَالِمَ بَيْنَهُمْ فِي الدُّنْيَا، حَتَّى إِذَا نُقُّوا وَهُذِّبُوا، أُذِنَ لَهُمْ بِدُخُولِ الْجَنَّةِ، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَأَحَدُهُمْ بِمَنْزِلِهِ أَدَلُّ مِنْهُ فِي الدُّنْيَا.“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب مومن آگ سے نجات پا جائیں گے تو انہیں جنت اور دوزخ کے درمیان ایک پل پر روک دیا جائے گا۔ پھر وہ دنیا میں ایک دوسرے پر کیے گئے ظلموں کا بدلہ دیں گے یہاں تک کہ جب وہ صاف ستھرے ہو جائیں گے تو انہیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، وہ اپنے جنت والے گھر کو دنیا والے گھر سے زیادہ اچھے طریقے سے پہچانتے ہوں گے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب المظالم، باب قصاص المظالم: 2440 - انظر ظلال الجنة: 857»
حدثنا مسدد، قال: حدثنا يحيى، عن ابن عجلان، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”إياكم والظلم، فإن الظلم ظلمات يوم القيامة، وإياكم والفحش، فإن الله لا يحب الفاحش المتفحش، وإياكم والشح، فإنه دعا من كان قبلكم فقطعوا ارحامهم، ودعاهم فاستحلوا محارمهم.“حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”إِيَّاكُمْ وَالظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْفُحْشَ، فَإِنَّ اللَّهَ لاَ يُحِبُّ الْفَاحِشَ الْمُتَفَحِّشَ، وَإِيَّاكُمْ وَالشُّحَّ، فَإِنَّهُ دَعَا مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ فَقَطَعُوا أَرْحَامَهُمْ، وَدَعَاهُمْ فَاسْتَحَلُّوا مَحَارِمَهُمْ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظلم سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے روز تاریکیاں بن کر سامنے آئے گا۔ اور بےحیائی سے بچو بلاشبہ اللہ تعالیٰ فحش گو اور فحش گوئی کو اختیار کرنے والے دونوں کو پسند نہیں فرماتا۔ اور بخل سے بچو کیونکہ اس بخل نے تم سے پہلے لوگوں کو آمادہ کیا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور انہیں حرام چیزوں کو حلال کرنے پر ابھارا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه الحميدي: 1193 و أحمد: 9569 - انظر الصحيحة: 858»
حدثنا عبد الله بن مسلمة، قال: حدثنا داود بن قيس، عن عبيد الله بن مقسم، عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”إياكم والظلم، فإن الظلم ظلمات يوم القيامة، واتقوا الشح، فإنه اهلك من كان قبلكم، وحملهم على ان سفكوا دماءهم، واستحلوا محارمهم.“حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ مِقْسَمٍ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”إِيَّاكُمْ وَالظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَاتَّقُوا الشُّحَّ، فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، وَحَمَلَهُمْ عَلَى أَنْ سَفَكُوا دِمَاءَهُمْ، وَاسْتَحَلُّوا مَحَارِمَهُمْ.“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظلم سے بچو کیونکہ ظلم روز قیامت اندھیرے بن کر آئے گا۔ اور بخل سے بچو کیونکہ اس نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کر دیا اور انہیں اس بات پر ابھارا کہ انہوں نے آپس میں خون بہائے اور اپنی حرمتوں کو پامال کیا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب البر و الصلة و الآداب: 2578»
حدثنا سليمان بن حرب، قال: حدثنا حماد بن زيد، عن عاصم، عن ابي الضحى قال: اجتمع مسروق وشتير بن شكل في المسجد، فتقوض إليهما حلق المسجد، فقال مسروق: لا ارى هؤلاء يجتمعون إلينا إلا ليستمعوا منا خيرا، فإما ان تحدث عن عبد الله فاصدقك انا، وإما ان احدث عن عبد الله فتصدقني؟ فقال: حدث يا ابا عائشة، قال: هل سمعت عبد الله يقول: العينان يزنيان، واليدان يزنيان، والرجلان يزنيان، والفرج يصدق ذلك او يكذبه؟ فقال: نعم، قال: وانا سمعته، قال: فهل سمعت عبد الله يقول: ما في القرآن آية اجمع لحلال وحرام وامر ونهي، من هذه الآية: ﴿إن الله يامر بالعدل والإحسان وإيتاء ذي القربى﴾ [النحل: 90]؟ قال: نعم، قال: وانا قد سمعته، قال: فهل سمعت عبد الله يقول: ما في القرآن آية اسرع فرجا من قوله: ﴿ومن يتق الله يجعل له مخرجا﴾ [الطلاق: 2]؟ قال: نعم، قال: وانا قد سمعته، قال: فهل سمعت عبد الله يقول: ما في القرآن آية اشد تفويضا من قوله: ﴿يا عبادي الذين اسرفوا على انفسهم لا تقنطوا من رحمة الله﴾ [الزمر: 53]؟ قال: نعم، قال: وانا سمعته.حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى قَالَ: اجْتَمَعَ مَسْرُوقٌ وَشُتَيْرُ بْنُ شَكَلٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَتَقَوَّضَ إِلَيْهِمَا حِلَقُ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ مَسْرُوقٌ: لاَ أَرَى هَؤُلاَءِ يَجْتَمِعُونَ إِلَيْنَا إِلاَّ لِيَسْتَمِعُوا مِنَّا خَيْرًا، فَإِمَّا أَنْ تُحَدِّثَ عَنْ عَبْدِ اللهِ فَأُصَدِّقَكَ أَنَا، وَإِمَّا أَنْ أُحَدِّثَ عَنْ عَبْدِ اللهِ فَتُصَدِّقَنِي؟ فَقَالَ: حَدِّثْ يَا أَبَا عَائِشَةَ، قَالَ: هَلْ سَمِعْتَ عَبْدَ اللهِ يَقُولُ: الْعَيْنَانِ يَزْنِيَانِ، وَالْيَدَانِ يَزْنِيَانِ، وَالرِّجْلاَنِ يَزْنِيَانِ، وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ أَوْ يُكَذِّبُهُ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَأَنَا سَمِعْتُهُ، قَالَ: فَهَلْ سَمِعْتَ عَبْدَ اللهِ يَقُولُ: مَا فِي الْقُرْآنِ آيَةٌ أَجْمَعَ لِحَلاَلٍ وَحَرَامٍ وَأَمْرٍ وَنَهْيٍ، مِنْ هَذِهِ الْآيَةِ: ﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى﴾ [النحل: 90]؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَأَنَا قَدْ سَمِعْتُهُ، قَالَ: فَهَلْ سَمِعْتَ عَبْدَ اللهِ يَقُولُ: مَا فِي الْقُرْآنِ آيَةٌ أَسْرَعَ فَرَجًا مِنْ قَوْلِهِ: ﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا﴾ [الطلاق: 2]؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَأَنَا قَدْ سَمِعْتُهُ، قَالَ: فَهَلْ سَمِعْتَ عَبْدَ اللهِ يَقُولُ: مَا فِي الْقُرْآنِ آيَةٌ أَشَدَّ تَفْوِيضًا مِنْ قَوْلِهِ: ﴿يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لاَ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ﴾ [الزمر: 53]؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَأَنَا سَمِعْتُهُ.
حضرت ابوالضحیٰ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ مسروق اور شتیر بن شکل رحمہم اللہ مسجد میں اکٹھے ہوئے تو مسجد میں لوگوں کے حلقے ان دونوں کے پاس جمع ہو گئے۔ مسروق رحمہ اللہ نے کہا: یہ لوگ ہم سے خیر اور بھلائی کی باتیں سننے کے لیے ہی جمع ہوئے ہیں، لہٰذا آپ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کریں میں آپ کی تصدیق کروں گا، یا میں ان سے بیان کرتا ہوں اور آپ میری تصدیق کریں۔ ابن شکل رحمہ اللہ نے کہا: ابوعائشہ آپ بیان کریں؟ انہوں (مسروق رحمہ اللہ) نے کہا: کیا آپ نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: آنکھیں زنا کرتی ہیں، ہاتھ زنا کرتے ہیں، اور پاؤں بھی زنا کرتے ہیں، اور شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا غلط ثابت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا: ہاں میں نے ان سے واقعی اس طرح سنا ہے۔ مسروق رحمہ اللہ نے کہا: کیا آپ نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حلال حرام اور امر و نہی کے بارے میں قرآن مجید میں اس آیت: «﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى﴾» سے زیادہ کوئی آیت جامع نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں میں نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے یہ سنا ہے۔ مسروق رحمہ اللہ نے فرمایا: کیا آپ نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قرآن میں کوئی آیت: «﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا﴾» سے زیادہ بڑھ کر نہیں ہے جس پر عمل کرنے سے کشادگی کی راہ کھل جاتی ہو؟ شتیر رحمہ اللہ نے کہا: میں نے بھی واقعی ان سے اسی طرح سنا ہے۔ مسروق رحمہ اللہ نے فرمایا: کیا آپ نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ قرآن میں کوئی آیت «﴿يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لاَ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ﴾» سے زیادہ بڑھ کر نہیں ہے، جو بندوں کو تفویض سکھاتی ہو، تو حضرت شتیر بن شکل رحمہ اللہ نے فرمایا: ہاں میں نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے یہ سنا ہے۔
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه الطبراني فى الكبير: 134/9»
حدثنا عبد الاعلى بن مسهر، او بلغني عنه، قال: حدثنا سعيد بن عبد العزيز، عن ربيعة بن يزيد، عن ابي إدريس الخولاني، عن ابي ذر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، عن الله تبارك وتعالى قال: ”يا عبادي، إني قد حرمت الظلم على نفسي، وجعلته محرما بينكم فلا تظالموا. يا عبادي، إنكم الذين تخطئون بالليل والنهار وانا اغفر الذنوب، ولا ابالي، فاستغفروني اغفر لكم. يا عبادي، كلكم جائع إلا من اطعمته، فاستطعموني اطعمكم. يا عبادي، كلكم عار إلا من كسوته، فاستكسوني اكسكم. يا عبادي، لو ان اولكم وآخركم، وإنسكم وجنكم، كانوا على اتقى قلب عبد منكم، لم يزد ذلك في ملكي شيئا، ولو كانوا على افجر قلب رجل، لم ينقص ذلك من ملكي شيئا، ولو اجتمعوا في صعيد واحد فسالوني فاعطيت كل إنسان منهم ما سال، لم ينقص ذلك من ملكي شيئا، إلا كما ينقص البحر ان يغمس فيه الخيط غمسة واحدة. يا عبادي، إنما هي اعمالكم اجعلها عليكم، فمن وجد خيرا فليحمد الله، ومن وجد غير ذلك فلا يلوم إلا نفسه“، كان ابو إدريس إذا حدث بهذا الحديث جثى على ركبتيه.حَدَّثَنَا عَبْدُ الأعْلَى بْنُ مُسْهِرٍ، أَوْ بَلَغَنِي عَنْهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلاَنِيِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ اللهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ: ”يَا عِبَادِي، إِنِّي قَدْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَى نَفْسِي، وَجَعَلْتُهُ مُحَرَّمًا بَيْنَكُمْ فَلاَ تَظَالَمُوا. يَا عِبَادِي، إِنَّكُمُ الَّذِينَ تُخْطِئُونَ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوبَ، وَلاَ أُبَالِي، فَاسْتَغْفِرُونِي أَغْفِرْ لَكُمْ. يَا عِبَادِي، كُلُّكُمْ جَائِعٌ إِلاَّ مَنْ أَطْعَمْتُهُ، فَاسْتَطْعِمُونِي أُطْعِمْكُمْ. يَا عِبَادِي، كُلُّكُمْ عَارٍ إِلاَّ مِنْ كَسَوْتُهُ، فَاسْتَكْسُونِي أَكْسُكُمْ. يَا عِبَادِي، لَوْ أَنَّ أَوَّلَكُمْ وَآخِرَكُمْ، وَإِنْسَكُمْ وَجِنَّكُمْ، كَانُوا عَلَى أَتْقَى قَلْبِ عَبْدٍ مِنْكُمْ، لَمْ يَزِدْ ذَلِكَ فِي مُلْكِي شَيْئًا، وَلَوْ كَانُوا عَلَى أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ، لَمْ يَنْقُصْ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي شَيْئًا، وَلَوِ اجْتَمَعُوا فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِي فَأَعْطَيْتُ كُلَّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ مَا سَأَلَ، لَمْ يَنْقُصْ ذَلِكَ مِنْ مُلْكِي شَيْئًا، إِلاَّ كَمَا يَنْقُصُ الْبَحْرُ أَنْ يُغْمَسَ فِيهِ الْخَيْطُ غَمْسَةً وَاحِدَةً. يَا عِبَادِي، إِنَّمَا هِيَ أَعْمَالُكُمْ أَجْعَلُهَا عَلَيْكُمْ، فَمَنْ وَجَدَ خَيْرًا فَلْيَحْمَدِ اللَّهَ، وَمَنْ وَجَدَ غَيْرَ ذَلِكَ فَلاَ يَلُومُ إِلاَّ نَفْسَهُ“، كَانَ أَبُو إِدْرِيسَ إِذَا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ جَثَى عَلَى رُكْبَتَيْهِ.
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تبارک و تعالیٰ سے بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اے میرے بندو! بلاشبہ میں نے ظلم کو اپنی ذات پر حرام ٹھہرایا ہے اور اسے تمہارے درمیان بھی حرام کیا ہے، لہٰذا ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ اے میرے بندو! تم رات دن خطائیں کرتے ہو اور میں گناہوں کو معاف کرتا ہوں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں اس لیے مجھ سے مغفرت مانگو، میں تمہیں معاف کر دوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب کے سب بھوکے ہو مگر جسے میں کھلاؤں، اس لیے مجھ سے کھانا طلب کرو میں تمہیں کھلاؤں گا۔ اے میرے بندو! تم سب کے سب ننگے ہو مگر جسے میں پہناؤں، لہٰذا مجھ سے لباس طلب کرو میں تمہیں پہناؤں گا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے پہلے اور بعد والے انسان اور جن، سب اس شخص کی طرح ہو جائیں جو تم میں سے زیادہ متقی ہے تو یہ میری بادشاہت میں کچھ بھی اضافہ نہیں کرے گی، اور اگر وہ سب سے برے آدمی کی طرح ہو جائیں تو یہ بات میری سلطنت میں اتنی ہی کمی کرے گی جتنی کمی سمندر میں دھاگا ایک دفعہ ڈبو کر نکالنے سے ہو گی۔ اے میرے بندو! تمہارے اعمال ہیں جنہیں میں تمہارے لیے (شمار کر کے) رکھ رہا ہوں، لہٰذا جس کے اعمال اچھے ہوں اسے الله کا شکر ادا کرنا چاہے، اور جس کے اعمال اس کے علاوہ ہوں اسے اپنے آپ کو ملامت کرنا چاہیے۔“ ابوادریس خولانی جب یہ حدیث بیان کرتے تو (اس کی تعظیم کے پیش نظر) گھٹنوں کے بل بیٹھ جاتے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، كتاب البر و الصلة و الآداب: 55، 2577»