حدثنا سليمان بن حرب، قال: حدثنا حماد بن زيد، عن عاصم، عن ابي الضحى قال: اجتمع مسروق وشتير بن شكل في المسجد، فتقوض إليهما حلق المسجد، فقال مسروق: لا ارى هؤلاء يجتمعون إلينا إلا ليستمعوا منا خيرا، فإما ان تحدث عن عبد الله فاصدقك انا، وإما ان احدث عن عبد الله فتصدقني؟ فقال: حدث يا ابا عائشة، قال: هل سمعت عبد الله يقول: العينان يزنيان، واليدان يزنيان، والرجلان يزنيان، والفرج يصدق ذلك او يكذبه؟ فقال: نعم، قال: وانا سمعته، قال: فهل سمعت عبد الله يقول: ما في القرآن آية اجمع لحلال وحرام وامر ونهي، من هذه الآية: ﴿إن الله يامر بالعدل والإحسان وإيتاء ذي القربى﴾ [النحل: 90]؟ قال: نعم، قال: وانا قد سمعته، قال: فهل سمعت عبد الله يقول: ما في القرآن آية اسرع فرجا من قوله: ﴿ومن يتق الله يجعل له مخرجا﴾ [الطلاق: 2]؟ قال: نعم، قال: وانا قد سمعته، قال: فهل سمعت عبد الله يقول: ما في القرآن آية اشد تفويضا من قوله: ﴿يا عبادي الذين اسرفوا على انفسهم لا تقنطوا من رحمة الله﴾ [الزمر: 53]؟ قال: نعم، قال: وانا سمعته.حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي الضُّحَى قَالَ: اجْتَمَعَ مَسْرُوقٌ وَشُتَيْرُ بْنُ شَكَلٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَتَقَوَّضَ إِلَيْهِمَا حِلَقُ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ مَسْرُوقٌ: لاَ أَرَى هَؤُلاَءِ يَجْتَمِعُونَ إِلَيْنَا إِلاَّ لِيَسْتَمِعُوا مِنَّا خَيْرًا، فَإِمَّا أَنْ تُحَدِّثَ عَنْ عَبْدِ اللهِ فَأُصَدِّقَكَ أَنَا، وَإِمَّا أَنْ أُحَدِّثَ عَنْ عَبْدِ اللهِ فَتُصَدِّقَنِي؟ فَقَالَ: حَدِّثْ يَا أَبَا عَائِشَةَ، قَالَ: هَلْ سَمِعْتَ عَبْدَ اللهِ يَقُولُ: الْعَيْنَانِ يَزْنِيَانِ، وَالْيَدَانِ يَزْنِيَانِ، وَالرِّجْلاَنِ يَزْنِيَانِ، وَالْفَرْجُ يُصَدِّقُ ذَلِكَ أَوْ يُكَذِّبُهُ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَأَنَا سَمِعْتُهُ، قَالَ: فَهَلْ سَمِعْتَ عَبْدَ اللهِ يَقُولُ: مَا فِي الْقُرْآنِ آيَةٌ أَجْمَعَ لِحَلاَلٍ وَحَرَامٍ وَأَمْرٍ وَنَهْيٍ، مِنْ هَذِهِ الْآيَةِ: ﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى﴾ [النحل: 90]؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَأَنَا قَدْ سَمِعْتُهُ، قَالَ: فَهَلْ سَمِعْتَ عَبْدَ اللهِ يَقُولُ: مَا فِي الْقُرْآنِ آيَةٌ أَسْرَعَ فَرَجًا مِنْ قَوْلِهِ: ﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا﴾ [الطلاق: 2]؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَأَنَا قَدْ سَمِعْتُهُ، قَالَ: فَهَلْ سَمِعْتَ عَبْدَ اللهِ يَقُولُ: مَا فِي الْقُرْآنِ آيَةٌ أَشَدَّ تَفْوِيضًا مِنْ قَوْلِهِ: ﴿يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لاَ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ﴾ [الزمر: 53]؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: وَأَنَا سَمِعْتُهُ.
حضرت ابوالضحیٰ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ مسروق اور شتیر بن شکل رحمہم اللہ مسجد میں اکٹھے ہوئے تو مسجد میں لوگوں کے حلقے ان دونوں کے پاس جمع ہو گئے۔ مسروق رحمہ اللہ نے کہا: یہ لوگ ہم سے خیر اور بھلائی کی باتیں سننے کے لیے ہی جمع ہوئے ہیں، لہٰذا آپ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کریں میں آپ کی تصدیق کروں گا، یا میں ان سے بیان کرتا ہوں اور آپ میری تصدیق کریں۔ ابن شکل رحمہ اللہ نے کہا: ابوعائشہ آپ بیان کریں؟ انہوں (مسروق رحمہ اللہ) نے کہا: کیا آپ نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: آنکھیں زنا کرتی ہیں، ہاتھ زنا کرتے ہیں، اور پاؤں بھی زنا کرتے ہیں، اور شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا غلط ثابت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا: ہاں میں نے ان سے واقعی اس طرح سنا ہے۔ مسروق رحمہ اللہ نے کہا: کیا آپ نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حلال حرام اور امر و نہی کے بارے میں قرآن مجید میں اس آیت: «﴿إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى﴾» سے زیادہ کوئی آیت جامع نہیں ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں میں نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے یہ سنا ہے۔ مسروق رحمہ اللہ نے فرمایا: کیا آپ نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قرآن میں کوئی آیت: «﴿وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا﴾» سے زیادہ بڑھ کر نہیں ہے جس پر عمل کرنے سے کشادگی کی راہ کھل جاتی ہو؟ شتیر رحمہ اللہ نے کہا: میں نے بھی واقعی ان سے اسی طرح سنا ہے۔ مسروق رحمہ اللہ نے فرمایا: کیا آپ نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ قرآن میں کوئی آیت «﴿يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لاَ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللهِ﴾» سے زیادہ بڑھ کر نہیں ہے، جو بندوں کو تفویض سکھاتی ہو، تو حضرت شتیر بن شکل رحمہ اللہ نے فرمایا: ہاں میں نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے یہ سنا ہے۔
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه الطبراني فى الكبير: 134/9»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 489
فوائد ومسائل: (۱)سلف صالحین میں سیکھنے سکھانے کا ذوق بہت زیادہ تھا۔ لوگ مساجد میں حلقوں کی صورت میں بیٹھتے اور علماء سے استفادہ کرتے۔ علماء بھی خیر خواہی اور ہمدردی کے ساتھ لوگوں کی راہنمائی کرتے۔ امام مسروق رحمہ اللہ نے نہایت مؤثر انداز میں تزکیہ نفس کیا اور لوگوں کو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی احادیث بیان کیں۔ (۲) زنا کی ابتدا نظر بازی سے ہوتی ہے اس لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر کی حفاظت کا حکم دیا۔ جو شخص نظر کی حفاظت نہیں کرتا وہ آسانی سے برائی میں پڑ جاتا ہے۔ آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، ہاتھوں کا زنا چھونا ہے اور پاؤں کا زنا اس کی طرف چل کر جانا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَا تَقربوا الزنا﴾”زنا کے قریب نہ جاؤ، یعنی اس کے مبادیات سے بھی بچو۔ (۳) امام قرطبی ابن العربی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ بندے اور اللہ کے درمیان عدل یہ ہے کہ بندہ اللہ کے حق کو اپنے مفادات پر ترجیح دے۔ اپنی خواہشات پر اللہ کی رضا کو مقدم سمجھے۔ اس کی منع کردہ باتوں سے رک جائے اور احکام کو بجا لائے۔ اور بندوں کا باہم عدل یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی خیر خواہی کریں اور چھوٹے بڑے معاملے میں خیانت سے باز رہیں اور جو ایک دوسرے سے تکلیف پہنچے اس پر صبر کیا جائے۔ احسان کا مطلب صحیح معنوں میں اللہ کی بندگی کرنا ہے، دوسرے لفظوں میں انسان کا باطن اس کے ظاہر سے بھی اچھا ہو۔ اور ایتاء ذی القربیٰ کا مطلب حقوق العباد کو ادا کرنا ہے۔ یوں یہ آیت حلال و حرام اور امر ونہی کی جامع ہے۔ (شرح صحیح الأدب المفرد) (۴) انسانیت کی معراج تقویٰ ہے۔ تمام مشکلات اور پریشانیوں کا حل اسی میں ہے۔ اللہ کا تقویٰ دل میں آجائے تو دنیا بھی آسان ہو جاتی ہے اور آخرت بھی بن جاتی ہے۔ (۵) انسان حلال حرام کا جس قدر پابند ہو، او امر و نواہی پر عمل پیرا ہو اور متقی بھی ہو لیکن جب تک اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسا نہ ہو اور اس کی ذات عالی سے حسن ظن نہ ہو کہ وہ گناہوں کو معاف کرکے توبہ قبول کرنے والا ہے اور ہر چیز کا اختیار اسی کے پاس ہے اس وقت تک نجات ممکن نہیں۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 489