حدثنا محمد بن كثير، قال: اخبرنا سليمان بن كثير، عن الزهري عن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف، قال: اغمي على عبد الرحمن بن عوف، فصرخوا عليه، فلما افاق قال: اغمي علي؟ قالوا: نعم، قال: إنه اتاني رجلان او ملكان فيهما فظاظة وغلظة، فانطلقا بي فلقيهما رجلان او ملكان هما اراف منهما وارحم، فقالا: اين تريدان؟ قالا: نريد العزيز الامين او الامير - شك القاضي - قالا: خليا عنه، فإنه ممن كتبت له السعادة وهو في بطن امه.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: أُغْمِيَ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، فَصَرَخُوا عَلَيْهِ، فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ: أُغْمِيَ عَلَيَّ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: إِنَّهُ أَتَانِي رَجُلَانِ أَوْ مَلَكَانِ فِيهِمَا فَظَاظَةٌ وَغِلْظَةٌ، فَانْطَلَقَا بِي فَلَقِيَهُمَا رَجُلَانِ أَوْ مَلَكَانِ هُمَا أَرْأَفُ مِنْهُمَا وَأَرْحَمُ، فَقَالَا: أَيْنَ تُرِيدَانِ؟ قَالَا: نُرِيدُ الْعَزِيزَ الْأَمِينَ أَوِ الْأَمِيرَ - شَكَّ الْقَاضِي - قَالَا: خَلِّيَا عَنْهُ، فَإِنَّهُ مِمَّنْ كُتِبَتْ لَهُ السَّعَادَةُ وَهُوَ فِي بَطْنِ أُمِّهِ.
جناب ابراہیم نے اپنے باپ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی۔ کہا: سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ پر غشی طاری ہو گئی تو لوگ ان پر چیخنے لگے، جب انہیں افاقہ ہوا تو پوچھا: کیا مجھ پر غشی طاری ہو گئی تھی؟ تو لوگوں نے کہا:، جی ہاں، انہوں نے فرمایا: میرے پاس دو سخت دل اور بدمزاج آدمی یا دو فرشتے آئے، وہ مجھے لے کر جا رہے تھے، تو انہیں دو آدمی یا فرشتے ملے جو نرم اور رحم دل تھے، انہوں نے کہا کہ اسے کہاں لے کر جا رہے ہو؟ تو انہوں نے کہا: عزیز الامین یا امیر کے پاس قاضی کو شک پڑا ہے (کہ عزیز الامین کے الفاظ ہیں امیر کا لفظ بولا ہے) انہوں نے کہا: کہ اس کو چھوڑ دو کیونکہ یہ ان لوگوں میں سے ہے جن کے لیے شکم مادر سے ہی سعادت لکھ دی گئی ہے۔
حدثنا مسدد، قال: حدثنا يوسف بن الماجشون، عن صالح بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف، عن ابيه، عن جده، قال: بينما انا واقف، في الصف يوم بدر، نظرت عن يميني، وشمالي، فإذا انا بين غلامين من الانصار حديثة اسنانهما، فتمنيت ان اكون بين اضلع منهما، فغمزني احدهما فقال: يا عماه هل تعرف ابا جهل؟ قلت: نعم، وما حاجتك إليه يا ابن اخي؟ قال: اخبرت انه يسب رسول الله صلى الله عليه وسلم والذي نفسي بيده لئن رايته لا يفارق سوادي سواده حتى يموت الاعجز منا، فتعجبت لذلك فغمزني الآخر، وقال لي: مثلها، فلم انشب ان نظرت إلى ابي جهل يجول في الناس فقلت لهما: الا إن هذا صاحبكما الذي تسالان عنه فابتدراه بسيفيهما فضرباه حتى قتلاه، ثم انصرفا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبراه، فقال: ايكما قتله؟ فقال كل واحد منهما: انا قتلته فقال: هل مسحتما سيفيكما؟ قالا: لا، قال: فنظر في السيفين فقال: كلاكما قتله فقضى بسلبه لمعاذ بن عمرو بن الجموح، وكانا معاذ بن عفراء ومعاذ بن عمرو بن الجموح.حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونِ، عَنْ صَالِحَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا وَاقِفٌ، فِي الصَّفِّ يَوْمَ بَدْرٍ، نَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي، وَشِمَالِي، فَإِذَا أَنَا بَيْنَ غُلَامَيْنِ مِنَ الْأَنْصَارِ حَدِيثَةٍ أَسْنَانُهُمَا، فَتَمَنَّيْتُ أَنْ أَكُونَ بَيْنَ أَضْلَعَ مِنْهُمَا، فَغَمَزَنِي أَحَدُهُمَا فَقَالَ: يَا عَمَّاهُ هَلْ تَعْرِفُ أَبَا جَهْلٍ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، وَمَا حَاجَتُكَ إِلَيْهِ يَا ابْنَ أَخِي؟ قَالَ: أُخْبِرْتُ أَنَّهُ يَسُبُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَئِنْ رَأَيَتُهُ لَا يُفَارِقُ سَوَادِي سَوَادَهُ حَتَّى يَمُوتَ الْأَعْجَزُ مِنَّا، فَتَعَجَّبْتُ لِذَلِكَ فَغَمَزَنِي الْآخَرُ، وَقَالَ لِي: مِثْلَهَا، فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ نَظَرْتُ إِلَى أَبِي جَهْلٍ يَجُولُ فِي النَّاسِ فَقُلْتُ لَهُمَا: أَلَا إِنَّ هَذَا صَاحِبُكُمَا الَّذِي تَسْأَلَانِ عَنْهِ فَابْتَدَرَاهُ بِسَيْفَيْهِمَا فَضَرَبَاهُ حَتَّى قَتَلَاهُ، ثُمَّ انْصَرَفَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم فَأَخْبَرَاهُ، فَقَالَ: أَيُّكُمَا قَتَلَهُ؟ فَقَالَ كُلُ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: أَنَا قَتَلْتُهُ فَقَالَ: هَلْ مَسَحْتُمَا سَيْفَيْكُمَا؟ قَالَا: لَا، قَالَ: فَنَظَرَ فِي السَّيْفَيْنِ فَقَالَ: كِلَاكُمَا قَتَلَهُ فَقَضَى بِسَلْبِهِ لِمُعَاذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ، وَكَانَا مُعَاذُ بْنُ عَفْرَاءَ وَمُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ.
جناب ابراہیم نے اپنے باپ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، انہوں نے کہا: میں جنگ بدر کے دن صف میں کھڑا تھا، میں نے اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائی تو دو نو عمر انصاری لڑکے کھڑے تھے، حالانکہ میری خواہش تھی کہ میں کڑیل جوانوں کے درمیان ہوں گا (انہیں دیکھ کر میں مطمئن نہ ہوا) اچانک ان دونوں میں سے ایک نے مجھے کہنی کی ضرب لگائی اور کہا: چچا جان! آپ ابوجہل کو جانتے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں، لیکن بھتیجے! تو اسے دیکھ کر کیا کرے گا؟ اس نے کہا: مجھے پتا چلا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر میں اس کو دیکھ لوں تو میرا جسم اس کے وجود سے جدا نہیں ہو گا حتٰی کہ ہم میں سے ایک مر جائے۔ اس کی بات کو سن کر متعجب ہوا۔ اتنے میں دوسرے نے بھی مجھے متوجہ کیا اور اسی طرح کہا: اسی لمحے اچانک میں نے ابوجہل کو دیکھا۔ وہ اپنے لشکروں میں بھاگا بھاگا پھر رہا تھا۔ میں نے ان دونوں سے کہا: یہ ہے وہ آپ کا شکار جس کے بارے میں تم مجھ سے سوال کر رہے تھے۔ وہ دونوں اپنی تلواریں لے کر ہوا ہو گئے، جاتے ہی اس کا تیا پانچہ کر دیا۔ پھر بھاگتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور (اس کے قتل) کی خبر دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم میں سے کس نے اسے قتل کیا ہے؟“ ہر ایک نے کہا: میں نے قتل کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے اپنی تلواریں صاف کر لی ہیں؟“ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی تلواریں دیکھیں تو فرمایا: ”تم دونوں نے قتل کیا ہے۔“ لیکن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کا ساز و سامان عمرو بن جموع کے بیٹے معاذ کو دیا۔ یہ دونوں نوجوان معاذ بن عفراء اور معاذ بن عمرو بن الجموح تھے۔
حدثنا يوسف بن بهلول، قال: حدثنا ابن إدريس، عن ابن إسحاق، قال: حدثني بعض اصحابنا عن سعد بن إبراهيم، عن ابيه، عن عبد الرحمن بن عوف، قال: قال امية بن خلف: يا عبد الإله، من الرجل منكم المعلم بريشة في صدره؟ قال: قلت «ذاك حمزة بن عبد المطلب» ، قال: ذاك الذي فعل بنا الافاعيل.حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ بَهْلُولٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي بَعْضُ أَصْحَابِنَا عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: قَالَ أُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ: يَا عَبْدَ الْإِلَهِ، مَنِ الرَّجُلُ مِنْكُمُ الْمُعَلَّمُ بِرِيشَةٍ فِي صَدْرِهِ؟ قَالَ: قُلْتُ «ذَاكَ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ» ، قَالَ: ذَاكَ الَّذِي فَعَلَ بِنَا الْأَفَاعِيلُ.
سعد نے اپنے باپ ابراہیم سے روایت کیا، انہوں نے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت کیا، کہا: امیہ بن خلف نے کہا: اے عبدالالہ! تم میں سے کون ہے؟ جس کے سینے پر شتر مرغ کے پر کا نشان ہے؟ میں نے کہا: حمزہ بن عبدالمطلب، اس نے کہا: یہ تو وہ شخص ہے جس نے ہمارا یہ حال کیا ہے۔
حدثنا محمد بن جعفر الوركاني، قال: حدثنا إبراهيم يعني: ابن سعد عن ابيه، عن جده، قال: اتي عبد الرحمن بن عوف بطعام، فقال: قتل مصعب بن عمير - وكان خيرا مني - فلم نجد له ما يكفن به إلا بردة، وقتل حمزة فلم يوجد له ما يكفن به إلا بردة، او رجل آخر - شك في حمزة او رجل آخر وكان خيرا مني فلم نجد ما يكفن فيه إلا بردة، لقد خشيت ان يكون قد عجلت لنا طيباتنا في حياتنا الدنيا ثم جعل يبكي.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْوَرْكَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ يَعْنِي: ابْنَ سَعْدٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: أُتِيَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ بِطَعَامٍ، فَقَالَ: قُتِلَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ - وَكَانَ خَيْرًا مِنِّي - فَلَمْ نَجِدْ لَهُ مَا يُكَفَّنُ بِهِ إِلَا بُرْدَةً، وَقُتِلَ حَمْزَةُ فَلَمْ يُوجَدْ لَهُ مَا يُكَفَّنُ بِهِ إِلَا بُرْدَةً، أَوْ رَجُلٍ آخِرَ - شَكَّ فِي حَمْزَةَ أَوْ رَجُلٍ آخِرَ وَكَانَ خَيْرًا مِنِّي فَلَمْ نَجِدْ مَا يُكَفَّنُ فِيهِ إِلَا بُرْدَةً، لَقَدْ خَشِيتُ أَنْ يَكُونَ قَدْ عُجِّلَتْ لَنَا طَيِّبَاتُنَا فِي حَيَاتِنَا الدُّنْيَا ثُمَّ جَعَلَ يَبْكِي.
ابراہیم ابن سعد نے بیان کیا، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں وہ اپنے دادا سے۔ انہوں نے کہا: عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے پاس ایک دن کھانا رکھا گیا، انہوں نے کہا: مصعب بن عمیر شہید ہوئے۔ وہ مجھ سے بہتر تھے اور ہمارے پاس ایک چادر کے علاوہ کوئی چیز نہیں تھی جس سے انہیں کفن دیا جاتا۔ اور حمزہ رضی اللہ عنہ بھی شہید ہوئے تو کفن کے لیے ایک چادر کے علاوہ کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ (راوی کو) شک لاحق ہوا کہ حمزہ رضی اللہ عنہ کا نام لیا یا کسی اور آدمی کے بارے میں کہا کہ وہ مجھ سے بہتر تھے۔ ہمارے پاس کفن کے لیے ایک چادر کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں تھی۔ فرمایا: میں (اللہ تعالیٰ سے) ڈرتا ہوں کہیں ہمیں پاکیزہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ہی نہ دے دی جائیں (اور آخرت میں ہمارے لیے کچھ بھی نہ ہو) پھر وہ رونے لگے۔