اخبرنا ابو سهل احمد بن محمد بن عبد الله بن زياد القطان قراءة عليه وانا اسمع في مسجده دار قطن في ذي الحجة من سنة اثنتين واربعين وثلاثمائة قال ابو العباس احمد بن محمد بن عيسى القاضي البرتي.أَخْبَرَنَا أَبُو سَهْلٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ الْقَطَّانُ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ فِي مَسْجِدِهِ دَارَ قُطْنٍ فِي ذِي الْحِجَّةِ مِنْ سَنَةِ اثْنَتَيْنِ وَأَرْبَعِينَ وَثَلَاثِمِائَةٍ قَالَ أَبُو الْعَبَّاسِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى الْقَاضِي الْبِرْتِيُّ.
ابو العباس احمد بن محمد بن عیسیٰ القاضی البرتی نے کہا: سن 342 ہجری ذوالحجہ مسجد دارقطن میں ہمیں ابوسہل احمد بن محمد بن عبداللہ بن زیاد القطان نے حدیث بیان کی، اس طرح کہ ان پر پڑھا جا رہا تھا اور میں سن رہا تھا۔
حدثنا القعنبي، عن مالك، عن ابن شهاب، عن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب، عن عبد الله بن عبد الله بن الحارث بن نوفل، عن عبد الله بن عباس، ان عمر بن الخطاب، خرج إلى الشام. حتى إذا كان بسرغ لقيه امراء الاجناد ابو عبيدة واصحابه، فاخبروه ان الوباء قد وقع [ص: 28] بالشام، قال ابن عباس: فقال عمر ادعوا إلي المهاجرين الاولين، فدعاهم فاستشارهم فاخبرهم ان الوباء قد وقع بالشام، فاختلفوا عليه فقال بعضهم: قد خرجت لامر ولا نرى ان ترجع عنه. وقال بعضهم: معك بقية الناس واصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا نرى ان تقدمهم على هذا الوباء، فقال: ارتفعوا عني، ثم قال: ادعوا إلي الانصار، فدعوهم فاستشارهم فسلكوا سبيل المهاجرين واختلفوا كاختلافهم، فقال: ارتفعوا عني، ثم [ص: 29] قال: ادعوا لي من كان هاهنا من مشيخة قريش من مهاجري الفتح فدعوهم فلم يختلف عليه منهم رجلان فقالوا: نرى ان ترجع بالناس ولا تقدمهم على هذا الوباء فنادى عمر في الناس: إني مصبح على ظهر فاصبحوا عليه، فقال: ابو عبيدة بن الجراح: افرار من قدر الله؟ فقال عمر: لو غيرك قالها يا ابا عبيدة، نعم نفر من قدر الله إلى قدر الله جل وعز، ارايت لو كان لك إبل فهبطت واديا له عدوتان إحداهما خصبة والاخرى جدبة اليس إن رعيت الخصبة رعيتها بقدر الله؟ فجاء عبد الرحمن بن عوف وكان متغيبا في بعض حاجته، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فقال بيده: «هذا كتاب من رب العالمين فيه اسماء اهل الجنة واسماء آبائهم وقبائلهم مجمل على آخرهم، لا يزاد فيهم ولا ينقص منهم، وهذا كتاب من رب العالمين فيه اسماء اهل النار واسماء آبائهم وقبائلهم مجمل على آخرهم، لا يزاد منه ولا ينقص منهم، فرغ ربكم جل وعز، فريق في الجنة وفريق في السعير، إن من كان من اهل الجنة ختم له بعمل اهل الجنة، وإن عمل كل عمل، ومن كان من اهل النار ختم له بعمل اهل النار، وإن عمل كل عمل» .حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، خَرَجَ إِلَى الشَّامِ. حَتَّى إِذَا كَانَ بِسَرْغَ لَقِيَهُ أُمَرَاءُ الْأَجْنَادِ أَبُو عُبَيْدَةَ وَأَصْحَابُهُ، فَأَخْبَرُوهُ أَنَّ الْوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ [ص: 28] بِالشَّامِ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقَالَ عُمَرُ ادْعُوا إِلَيَّ الْمُهَاجِرِينَ الَأَوَّلِينَ، فَدَعَاهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ فأَخْبَرَهُمْ أَنَّ الْوَبَاءَ قَدْ وَقَعَ بِالشَّامِ، فَاخْتَلَفُوا عَلَيْهِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: قَدْ خَرَجْتَ لِأَمْرٍ وَلَا نَرَى أَنْ تَرْجِعَ عَنْهُ. وَقَالَ بَعْضُهُمْ: مَعَكَ بَقِيَّةُ النَّاسِ وَأَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَرَى أَنْ تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الْوَبَاءِ، فَقَالَ: ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ قَالَ: ادْعُوا إلَيَّ الْأَنْصَارَ، فَدَعَوهُمْ فَاسْتَشَارَهُمْ فَسَلَكُوا سَبِيلَ الْمُهَاجِرِينَ وَاخْتَلَفُوا كَاخْتِلَافِهِمْ، فَقَالَ: ارْتَفِعُوا عَنِّي، ثُمَّ [ص: 29] قَالَ: ادْعُوا لِي مَنْ كَانَ هَاهُنَا مِنْ مَشْيَخَةِ قُرَيْشٍ مِنْ مُهَاجِرِي الْفَتْحِ فَدَعَوهُمْ فَلَمْ يَخْتَلِفْ عَلَيْهِ مِنْهُمْ رَجُلَانِ فَقَالُوا: نَرَى أَنْ تَرْجِعَ بِالنَّاسِ وَلَا تُقْدِمَهُمْ عَلَى هَذَا الْوَبَاءِ فَنَادَى عُمَرُ فِي النَّاسِ: إِنِّي مُصَبِّحٌ عَلَى ظَهْرٍ فَأَصْبِحُوا عَلَيْهِ، فَقَالَ: أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ الْجَرَّاحِ: أَفِرَارٌ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ؟ فَقَالَ عُمَرُ: لَوْ غَيْرُكَ قَالَهَا يَا أَبَا عُبَيْدَةَ، نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللَّهِ إِلَى قَدَرِ اللَّهِ جَلَّ وَعَزَّ، أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ لَكَ إِبِلٌ فَهَبَطَتْ وَادِيًا لَهُ عُدْوَتَانِ إِحْدَاهُمَا خَصْبَةٌ وَالْأُخْرَى جَدْبَةٌ أَلَيْسَ إِنْ رَعَيْتَ الْخَصْبَةَ رَعَيْتَهَا بِقَدَرِ اللَّهِ؟ فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ وَكَانَ مُتَغَيِّبًا فِي بَعْضِ حَاجَتِهِ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فَقَالَ بِيَدِهِ: «هَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ فِيهِ أَسْمَاءُ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَسْمَاءُ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ مُجْمِلٌ عَلَى آخِرِهِمْ، لَا يُزَادُ فِيهِمْ وَلَا يَنْقُصُ مِنْهُمْ، وَهَذَا كِتَابٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ فِيهِ أَسْمَاءُ أَهْلِ النَّارِ وَأَسْمَاءُ آبَائِهِمْ وَقَبَائِلِهِمْ مُجْمِلٌ عَلَى آخِرِهِمْ، لَا يُزَادُ مِنْهُ وَلَا يَنْقُصُ مِنْهُمْ، فَرَغَ رَبُّكُمْ جَلَّ وَعَزَّ، فَرِيقٌ فِي الْجَنَّةِ وَفَرِيقٌ فِي السَّعِيرِ، إِنَّ مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ خُتِمَ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنْ عَمِلَ كُلَّ عَمَلٍ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ النَّارِ خُتِمَ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَإِنْ عَمِلَ كُلَّ عَمَلٍ» .
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شام کی طرف نکلے، جب سرخ مقام پر پہنچے تو انہیں امیر لشکر ابوعبیدہ اور ان کے ساتھی ملے۔ انہوں نے آپ کو بتایا کہ شام میں وباء طاعون پھیل چکی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میرے پاس پہلے مہاجرین کو بلاؤ، آپ نے انہیں بلا کر ان نے مشورہ طلب کیا اور انہیں بتایا کہ شام میں وباء پھیل چکی ہے تو انہوں نے اس پر اختلاف کیا، بعض نے کہا کہ آپ ایک ایسے کام کے لیے نکلے ہیں جس سے واپسی ہم اچھی نہیں سمجھتے۔ (جبکہ) بعض نے کہا کہ آپ کے ساتھی باقی ماندہ لوگ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں تو ہم اچھا نہیں سمجھتے کہ آپ انہیں بیماری والی جگہ پر لے جائیں۔ پھر کہا کہ میرے پاس انصار کو بلاؤ، انہوں نے انصار کو بلایا تو آپ نے ان سے بھی مشورہ طلب کیا، تو انہوں نے بھی مہاجرین والا راستہ اختیار کیا اور اختلاف رائے کیا، آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے آپ لوگ چلے جاؤ، پھر کہا کہ یہاں فتح مکہ کے مہاجرین قریش کے جو شیوخ (بوڑھے آدمی) موجود ہیں انہیں بلاؤ، ان میں سے دو آدمیوں نے کہا: ہمارا خیال ہے کہ آپ لوگوں کو واپس لے جائیں اور وباء والی جگہ پر نہ لے جائیں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں واپس جانے کا اعلان کر دیا۔ ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے فرار حاصل کرو گے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابوعبیدہ کاش تم یہ بات نہ کہتے، جی ہاں! ہم اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں لیکن اللہ عزوجل کی تقدیر کی طرف ہی جا رہے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے اگر آپ کا اونٹ کسی ایسی وادی میں اتر ے جس کے دو کنارے ہوں: ایک سرسبز اور دوسرا خشک بنجر، اور تم سرسبز کنارے میں اسے چراؤ گے تو کیا یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر نہیں؟ (اتنے میں) حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تشریف لے آئے اور وہ کسی کام کی غرض سے آئے تھے۔ انہوں نے حدیث بیان کی کہ ایک دن ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اشارہ کر کے فرمایا:”یہ رب العالمین کی طرف سے کتاب ہے جس میں اہل جنت، ان کے آباء کے نام اور قبائل شروع سے لے کر آخر تک موجود ہیں (اب) ان میں نہ زیادتی کی جا سکتی ہے اور نہ کمی۔ اور یہ رب العالمین کی طرف سے کتاب ہے جس میں اہل جہنم کے نام، ان کے آباء اور قبائل کے نام شروع سے لے کر آخر تک موجود ہیں، نہ ان میں زیادتی اور نہ کمی کی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ (ان کاموں سے) فارغ ہو چکا ہے۔ ایک گروہ جنت میں ہے اور ایک جہنم میں۔ جو اہل جنت میں سے ہے اس کا خاتمہ اہل جنت کے عمل پر ہو گا اگرچہ اس نے ہر قسم کا عمل کیا ہو۔ اور جو اہل جہنم میں سے ہے، اس کا خاتمہ اہل جہنم کے ساتھ ہو گا اگرچہ اس نے ہر قسم کا عمل کیا ہو۔“
حدثنا إسحاق بن إسماعيل، قال: حدثنا جعفر بن عون، عن هشام بن سعد، قال: حدثني عروة بن رويم عن القاسم، عن عبد الله بن عمرو، قال: جئت عمر حين قدم من الشام فوجدته قائلا في خباء له فانتظرته في الخباء قال: فسمعته حين تضور من نومه يقول: اللهم اغفر لي رجوعي من سرغ.حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ رُوَيمٍ عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: جِئْتُ عُمَرَ حِينَ قَدِمَ مِنَ الشَّامِ فَوَجَدْتُهُ قَائِلًا فِي خِبَاءٍ لَهُ فَانْتَظَرْتُهُ فِي الْخِبَاءِ قَالَ: فَسَمِعْتُهُ حِينَ تَضَوَّرَ مِنْ نَوْمِهِ يَقُولُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي رُجُوعِي مِنْ سَرْغَ.
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب عمر رضی اللہ عنہ شام سے واپس آئے تو میں ان کے پاس گیا، وہ اپنے خیمے میں قیلولہ کر رہے تھے۔ میں نے خیمے کے باہر ان کا انتظار کیا، جب آپ اپنی نیند سے بیدار ہوئے تو میں نے انہیں یہ الفاظ کہتے سنا: اے اللہ! ” سرغ“ سے واپس آنے کی غلطی کی وجہ سے مجھے معاف فرما دینا۔
حدثنا القعنبي، عن مالك، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، ان عمر بن الخطاب، رضي الله عنه إنما انصرف بالناس عن حديث عبد الرحمن بن عوف.حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِنَّمَا انْصَرَفَ بِالنَّاسِ عَنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ.
سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی حدیث کو (مدنظر) رکھتے ہوئے لوگوں کو واپس لے گئے۔
حدثنا إسحاق بن إسماعيل الطالقاني، قال: حدثنا يزيد بن هارون قال: اخبرنا إسماعيل المكي، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، قال: كنت اذاكر عمر الصلاة، فاتى علينا عبد الرحمن بن عوف فقال: الا احدثكم حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم قلنا: بلى، قال: اشهد اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا صلى احدكم فشك في النقصان فليصل حتى يشك في الزيادة» .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الطَّالْقَانِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ الْمَكِّيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كُنْتُ أُذَاكِرُ عُمَرَ الصَّلَاةَ، فَأَتَى عَلَيْنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ فَقَالَ: أَلَا أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَا: بَلَى، قَالَ: أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ فَشَكَّ فِي النُّقْصَانِ فَلْيُصَلِّ حَتَّى يَشُكَّ فِي الزِّيَادَةِ» .
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انہوں نے کہا کہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز کے بارے میں مذاکرہ کر رہا تھا، اچانک ہمارے پاس عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور فرمایا: ” کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، ہم نے کہا:، کیوں نہیں، انہوں نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہو ئے سنا: جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو اور اسے رکعات کم پڑھنے کا شک پڑ جائے تو وہ نماز پڑھتا رہے حتٰی کہ اسے زیادتی کا یقین ہو جائے یعنی اسے یقین ہو جائے کہ زیادہ رکعات ہو گئی ہیں۔