توبہ، اس کی قبولیت اور اللہ کی رحمت کی وسعت سچی توبہ کا بیان اور اللہ تعالیٰ کے قول ((وعلی الثّلاثۃ الّذین خلفوا)) کی تفسیر۔
ابن شہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک کا جہاد کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ روم اور شام کے عرب نصرانیوں کے خلاف جہاد کا تھا۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے عبدالرحمن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی کہ عبداللہ بن کعب، جو کہ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی نابینا ہو جانے کی بناء پر راہنمائی کیا کرتے تھے، نے کہا کہ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو میں نے اپنے غزوہ تبوک سے پیچھے رہ جانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے سنا۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں غزوہ تبوک کے علاوہ کسی غزوہ میں پیچھے نہیں رہا، البتہ غزوہ بدر میں بھی پیچھے رہ گیا تھا۔ لیکن اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی پیچھے رہ جانے والے پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا۔ اور بدر میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ساتھ قریش کا قافلہ لوٹنے کے لئے نکلے تھے، لیکن اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے دشمنوں کے ساتھ اچانک لڑا دیا (اور قافلہ نکل گیا)۔ اور میں رسول اللہ کے ساتھ لیلۃالعقبہ میں بھی موجود تھا (لیلۃالعقبہ وہ رات ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے اسلام پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کرنے پر بیعت لی تھی اور یہ بیعت جمرۃالعقبہ کے پاس جو منیٰ میں ہے دوبار ہوئی۔ پہلی بار میں بارہ انصاری تھے اور دوسری بار میں ستر انصاری تھے) اور میں نہیں چاہتا کہ اس رات کے بدلے میں جنگ بدر میں شریک ہوتا، اگرچہ جنگ بدر لوگوں میں اس رات سے زیادہ مشہور ہے (یعنی لوگ اس کو افضل کہتے ہیں)۔ اور غزوہ تبوک میں میرا پیچھے رہ جانے کا قصہ یہ ہے کہ اس غزوہ کے وقت میں میں جتنا قوی جوان اور خوشحال تھا، اس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ اللہ کی قسم! اس سے پہلے میرے پاس دو اونٹنیاں کبھی جمع نہیں ہوئیں تھیں اور اس لڑائی کے وقت میرے پاس دو اونٹنیاں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس لڑائی کے لئے سخت گرمی کے دنوں میں چلے اور سفر بھی لمبا تھا اور راہ میں جنگل تھے (دور دراز جن میں پانی کم ملتا اور ہلاکت کا خوف ہوتا ہے) اور بہت سارے دشمنوں سے مقابلہ تھا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے صاف صاف فرمایا دیا کہ میں اس لڑائی کے لئے جا رہا ہوں (حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت تھی کہ اور لڑائیوں میں اپنا ارادہ مصلحت کے تحت صاف صاف نہ فرماتے تھے تاکہ خبر مشہور نہ ہو) تاکہ وہ اپنی تیاری کر لیں۔ ان سے کہہ دیا کہ فلاں طرف کو جانا ہے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سے مسلمان تھے اور کوئی رجسٹر نہ تھا جس میں ان کے نام لکھے جا سکتے۔ سیدنا کعب نے کہا کہ بہت کم کوئی ایسا شخص ہو گا جو یہ گمان کر کے اس غزوہ سے غائب ہونے کا ارادہ کرے کہ اس کا معاملہ جب تک وحی نہ آئے گی، مخفی رہے گا۔ اور یہ جہاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کیا جب پھل پک گئے تھے اور سایہ خوب تھا اور مجھے ان چیزوں کا بہت شوق تھا۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیاری کی اور مسلمانوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تیاری کی۔ میں نے بھی ہر صبح کو اس ارادہ سے نکلنا شروع کیا کہ میں بھی ان کے ساتھ تیاری کروں، لیکن میں ہر روز لوٹ آتا اور کچھ فیصلہ نہ کرتا اور اپنے دل میں کہتا کہ میں جب چاہوں جا سکتا ہوں (کیونکہ سفر کا سامان میرے پاس موجود تھا) میں یہی سوچتا رہا حتیٰ کہ مسلمانوں نے سامان سفر تیار کر لیا اور ایک صبح رسول اللہ مسلمانوں کو ساتھ لے کر نکل پڑے۔ اور میں نے کوئی تیاری نہ کی۔ پھر میں صبح کو نکلا اور لوٹ کر آ گیا اور کوئی فیصلہ نہیں کر پایا۔ میرا یہی حال رہا، یہاں تک کہ لوگوں نے جلدی کی اور سب مجاہدین آگے نکل گئے۔ اس وقت میں نے بھی کوچ کا قصد کیا کہ ان سے مل جاؤں۔ اے کاش میں ایسا کرتا، لیکن میری تقدیر میں نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد جب میں باہر نکلتا تو مجھے رنج ہوتا، کیونکہ میں کوئی پیروی کے لائق نہ پاتا مگر ایسا شخص جس پر منافق ہونے کا گمان تھا یا معذور ضعیف اور ناتواں لوگوں میں سے۔ خیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (راہ میں) میری یاد کہیں نہ کی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اس وقت فرمایا کعب بن مالک کہاں گیا؟ بنی سلمہ میں سے ایک شخص بولا کہ یا رسول اللہ! اس کو اس کی چادروں نے روک لیا ہے، وہ اپنے دونوں کناروں کو دیکھتا ہے (یعنی اپنے لباس اور نفس میں مشغول اور مصروف ہے)۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا کہ تو نے بری بات کہی، اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! ہم تو کعب بن مالک کو اچھا سمجھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر چپ ہو رہے۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو سفید کپڑے پہنے ہوئے آ رہا تھا اور (چلنے کی وجہ سے) ریت کو اڑا رہا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ابوخیثمہ ہے۔ پھر وہ ابوخیثمہ ہی تھا اور ابوخیثمہ وہ شخص تھا جس نے ایک صاع کھجور صدقہ دی تھی اور منافقوں نے اس پر طعن کیا تھا۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب مجھے خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے مدینہ کی طرف لوٹ رہے ہیں، تو میرا رنج بڑھ گیا۔ میں نے جھوٹ باتیں بنانا شروع کیں کہ کوئی بات ایسی کہوں جس سے کل (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی پر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے بچ جاؤں اور اس معاملہ کے لئے میں نے اپنے گھر والوں میں سے ہر ایک عقلمند شخص سے مدد لینا شروع کی یعنی ان سے بھی صلاح لی (کہ کیا بات بناؤں)۔ جب لوگوں نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریب آ پہنچے تو اس وقت سارا جھوٹ کافور ہو گیا اور میں سمجھ گیا کہ اب میں کوئی جھوٹ بنا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نجات نہیں پا سکتا۔ آخر میں نے سچ بولنے کی نیت کر لی اور صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر سے آتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے، پھر لوگوں سے ملنے کے لئے بیٹھتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کر چکے تو جو لوگ پیچھے رہ گئے تھے انہوں نے اپنے عذر بیان کرنے شروع کئے اور قسمیں کھانے لگے۔ یہ لوگ اسی (80) سے کچھ زیادہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ظاہر بات کو مان لیا اور ان سے بیعت کی اور ان کے لئے مغفرت کی دعا کی اور ان کی نیت (یعنی دل کی بات کو) اللہ کے سپرد کر دیا۔ جب میں آیا، پس میں نے سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے لیکن اس طرح جیسے کوئی غصہ کی حالت میں مسکراتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آؤ۔ میں چلتا ہوا آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو پیچھے کیوں رہ گیا؟ تو نے تو سواری بھی خرید لی تھی۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دنیا کے شخصوں میں سے کسی اور کے پاس بیٹھا ہوتا تو میں یہ خیال کرتا کہ کوئی عذر بیان کر کے اس کے غصہ سے نکل جاؤں گا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے زبان کی قوت دی ہے (یعنی میں عمدہ تقریر کر سکتا ہوں اور خوب بات بنا سکتا ہوں)، لیکن اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں کہ اگر میں کوئی جھوٹ بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہہ دوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے خوش ہو جائیں گے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے اوپر غصہ کر دے گا (یعنی اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلائے گا کہ میرا عذر جھوٹ اور غلط تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہو جائیں گے) اور اگر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ سچ کہوں گا تو بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہوں گے لیکن مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا انجام بخیر کرے گا۔ اللہ کی قسم! جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گیا اس وقت مجھے کوئی عذر نہ تھا۔ اللہ کی قسم میں کبھی نہ اتنا قوی اور اتنا مالدار نہ تھا جتنا اس وقت تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کعب نے سچ کہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا جا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تیرے بارے میں فیصلہ کر دے۔ میں کھڑا ہو گیا اور بنی سلمہ کے چند لوگ دوڑ کر میرے پیچھے ہوئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! ہم نہیں جانتے کہ تم نے اس سے پہلے کوئی قصور کیا ہو، پس تم عاجز کیوں ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی عذر کیوں نہ کر دیا جس طرح اور پیچھے رہ جانے والوں نے عذر بیان کئے؟ اور تیرا گناہ بخشوانے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغفار کافی ہوتا۔ اللہ کی قسم وہ لوگ مجھے ملامت کرتے رہے، یہاں تک کہ میں نے ارادہ کیا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ کر جاؤں اور اپنے آپ کو جھوٹا کروں (اور کوئی عذر بیان کروں)۔ پھر میں نے ان لوگوں سے کہا کہ کسی اور کا بھی ایسا حال ہوا ہے جو میرا ہوا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! دو شخص ایسے اور ہیں انہوں نے بھی وہی کہا جو تو نے کہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بھی وہی فرمایا جو تجھ سے فرمایا۔ میں نے پوچھا کہ وہ دو شخص کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ مرارہ بن ربیعہ اور ہلال بن امیہ واقفی۔ ان لوگوں نے ایسے دو شخصوں کے نام لئے جو نیک تھے، بدر کی لڑائی میں موجود تھے اور پیروی کے قابل تھے۔ جب ان لوگوں نے ان دونوں کا نام لیا تو میں اپنے پہلے حال پر قائم رہا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو پیچھے رہ جانے والے ہم تینوں سے بات چیت کرنے سے منع کر دیا، تو لوگوں نے ہم سے پرہیز شروع کیا اور ان کا حال ہمارے ساتھ بالکل بدل گیا، یہاں تک کہ زمین بھی گویا بدل گئی، وہ زمین ہی نہ رہی جس کو میں پہچانتا تھا۔ پچاس راتوں تک ہمارا یہی حال رہا۔ میرے دونوں ساتھی تو عاجز ہو گئے اور اپنے گھروں میں روتے ہوئے بیٹھ رہے لیکن میں تو سب لوگوں میں نوجوان اور طاقتور تھا۔ میں نکلا کرتا تھا اور نماز کے لئے بھی آتا اور بازاروں میں بھی پھرتا لیکن کوئی شخص مجھ سے بات نہ کرتا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہو کر اپنی جگہ پر بیٹھے ہوتے تو آ کر ان کو سلام کرتا اور دل میں یہ کہتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لبوں کو سلام کا جواب دینے کے لئے ہلایا یا نہیں ہلایا؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نماز پڑھتا اور چور نظر سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا تو جب میں نماز میں ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف دیکھتے اور جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منہ پھیر لیتے۔ حتیٰ کہ جب مسلمانوں کی سختی مجھ پر لمبی ہوئی تو میں چلا اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے باغ کی دیوار پر چڑھا، اور ابوقتادہ میرے چچازاد بھائی تھے اور سب لوگوں سے زیادہ مجھے ان سے محبت تھی۔ ان کو سلام کیا تو اللہ کی قسم انہوں نے سلام کا جواب تک نہ دیا (سبحان اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ایسے ہوتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے سامنے بھائی بیٹے کی پرواہ بھی نہیں کرتے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی محبت نہ ہو تو ایمان کس کام کا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث جب معلوم ہو جائے کہ صحیح ہے تو مجتہد اور مولویوں کا قول جو اس کے خلاف ہو دیوار پر مارنا چاہئے اور حدیث پر چلنا چاہئے)۔ میں نے ان سے کہا کہ اے ابوقتادہ! میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم یہ نہیں جانتے کہ میں اللہ اور اس کے رسول اسے محبت رکھتا ہوں؟ وہ خاموش رہے۔ میں نے دوبارہ ان سے سوال کیا، وہ پھر خاموش رہے۔ میں نے پھر تیسری بار قسم دی تو بولے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں (یہ بھی کعب سے نہیں بولے بلکہ خود اپنے میں بات کی)۔ آخر میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے اور میں پیٹھ موڑ کر چلا اور دیوار پر چڑھا۔ میں مدینہ کے بازار میں جا رہا تھا کہ ملک شام کے کسانوں میں سے ایک کسان جو مدینہ میں اناج بیچنے کے لئے آیا تھا، کہہ رہا تھا کہ کعب بن مالک کا گھر مجھے کون بتائے گا؟ لوگوں نے اس کو میری طرف اشارہ شروع کیا، یہاں تک کہ وہ میرے پاس آیا اور مجھے غسان کے بادشاہ کا ایک خط دیا۔ میں چونکہ پڑھ سکتا تھا، میں نے اس کو پڑھا تو اس میں یہ لکھا تھا کہ امابعد! ”ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ تمہارے صاحب (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پر ناراض ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تمہیں ذلت کے گھر میں نہیں کیا، نہ اس جگہ جہاں تمہارا حق ضائع ہو، تو تم ہم سے مل جاؤ، ہم تمہاری خاطر داری کریں گے“۔ میں نے جب یہ خط پڑھا تو کہا کہ یہ بھی اللہ کی طرف سے ایک آزمائش ہے اور اس خط کو میں نے تنور میں جلا دیا۔ جب پچاس میں سے چالیس دن گزر گئے اور وحی نہ آئی تو یکایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام لانے والا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم کرتے ہیں کہ اپنی بی بی سے علیحدہ رہو۔ میں نے کہا کہ اس کو طلاق دیدوں یا کیا کروں؟ وہ بولا کہ نہیں طلاق مت دو، صرف الگ رہو اور اس سے صحبت مت کرو۔ میرے دونوں ساتھیوں (جو پیچھے رہ گئے تھے) کو بھی یہی پیغام ملا۔ میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ تو اپنے عزیزوں میں چلی جا اور وہیں رہ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس بارے میں کوئی فیصلہ دے۔ سیدنا ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کی بیوی یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہلال بن امیہ ایک بوڑھا کمزور شخص ہے، اس کے پاس کوئی خادم بھی نہیں تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم برا سمجھتے ہیں کہ اگر میں اس کی خدمت کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں خدمت کو برا نہیں سمجھتا لیکن وہ تجھ سے صحبت نہ کرے۔ وہ بولی کہ اللہ کی قسم! اس کو کسی کام کا خیال نہیں اور اللہ کی قسم! وہ اس دن سے اب تک رو رہا ہے۔ میرے گھر والوں نے کہا کہ کاش تم بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیوی کے پاس رہنے کی اجازت لے لو، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلال بن امیہ کی عورت کو اس کی خدمت کرنے کی اجازت دے دی تو میں نے کہا کہ میں کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی بیوی کے لئے اجازت نہ لوں گا اور معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرمائیں گے اگر میں اپنی بیوی کے لئے اجازت لوں اور میں جوان آدمی ہوں۔ پھر میں دس راتیں اسی حال میں رہا، یہاں تک کہ اس تاریخ سے پچاس راتیں پوری ہوئیں جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے سب لوگوں کو بات کرنے سے منع فرمایا تھا۔ پھر پچاسویں رات کو صبح کے وقت میں نے اپنے ایک گھر کی چھت پر نماز پڑھی میں اسی حال میں بیٹھا تھا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارا حال بیان کیا کہ میرا جی تنگ ہو گیا اور زمین اپنی فراخی کے باوجود مجھ پر تنگ ہو گئی تھی۔ اتنے میں میں نے ایک پکارنے والے کی آواز سنی، جو سلع (نامی) پہاڑ پر سے بلند آواز سے پکار رہا تھا کہ اے کعب بن مالک! خوش ہو جا۔ یہ سن کر میں سجدہ میں گرا اور میں نے پہچانا کہ اب کشادگی آ گئی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز کے بعد اس بات کا اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول کر لی ہے۔ لوگ ہمیں خوشخبری دینے کو چلے، میرے دونوں ساتھیوں کے پاس چند خوشخبری دینے والے گئے اور ایک شخص نے میرے پاس گھوڑا دوڑایا اور ایک دوڑنے والا اسلم قبیلہ سے میری طرف آیا اور اس کی آواز گھوڑے سے جلدی مجھ کو پہنچی۔ جب وہ شخص آیا جس کی خوشخبری کی آواز میں نے سنی تھی تو میں نے اپنے دونوں کپڑے اتارے اور اس خوشخبری کے صلہ میں اس کو پہنا دئیے۔ اللہ کی قسم! اس وقت میرے پاس وہی دو کپڑے تھے۔ میں نے دو کپڑے عاریۃً لئے اور ان کو پہن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کی نیت سے چلا۔ لوگ مجھ سے گروہ گروہ ملتے جاتے تھے اور مجھے معافی کی مبارکباد دیتے جاتے تھے اور کہتے تھے تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی معافی کی قبولیت مبارک ہو۔ یہاں تک کہ میں مسجد میں پہنچا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگ تھے۔ اور طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ نے مجھے دیکھتے ہی دوڑ کر آ کر مجھ سے مصافحہ کیا اور مبارکباد دی۔ اللہ کی قسم مہاجرین میں سے ان کے سوا کوئی شخص کھڑا نہیں ہوا تو سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کے اس احسان کو نہیں بھولتے تھے۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی سے چمک دمک رہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خوش ہو جا، جب سے تیری ماں نے تجھ کو جنا آج کا دن، تیرے لئے بہتر دن ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ خوشخبری آپ کی طرف سے ہے یا اللہ جل جلالہ کی طرف سے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ جل جلالہ کی طرف سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خوش ہو جاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ چمک جاتا تھا گویا کہ چاند کا ایک ٹکڑا ہے اور ہم اس بات (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی) کو پہچان لیتے تھے۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں اپنی معافی کی خوشی میں اپنے مال کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صدقہ کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنا تھوڑا مال رکھ لو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے عرض کیا کہ پھر میں اپنا خیبر کا حصہ رکھ لیتا ہوں۔ اور میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آخر کار سچائی نے مجھے نجات دی اور میری توبہ میں یہ بھی داخل ہے کہ ہمیشہ سچ کہوں گا جب تک زندہ رہوں۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مسلمان پر سچ بولنے پر ایسا احسان کیا ہو جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا جیسا عمدہ طرح سے مجھ پر احسان کیا۔ اللہ کی قسم! جب سے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اس وقت سے آج کے دن تک کوئی جھوٹ قصداً نہیں بولا۔ آج کے دن تک اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی مجھے جھوٹ سے بچائے گا۔ سیدنا کعب نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں ”بیشک اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، مہاجرین اور انصار کو معاف کیا جنہوں نے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا مفلسی کے وقت ساتھ دیا“ یہاں تک کہ فرمایا ”وہ مہربان ہے اور رحم والا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان تین شخصوں کو بھی معاف کیا جو پیچھے چھوڑے گئے، یہاں تک کہ زمین ان پر باوجود اپنی کشادگی کے تنگ ہو گئی اور ان کے نفس بھی تنگ ہو گئے اور سمجھے کہ اب اللہ تعالیٰ سے کوئی بچاؤ نہیں مگر اسی کی طرف، پھر اللہ نے ان کو معاف کیا تاکہ وہ توبہ کریں، بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈور اور سچوں کے ساتھ رہو“ (سورۃ: التوبہ: 119 - 117)۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے جب سے مجھے اسلام کی ہدایت دی ہے، اس سے بڑھ کوئی احسان مجھ پر نہیں کیا جو میرے نزدیک اتنا بڑا ہو، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچ بول دیا اور جھوٹ نہیں بولا، ورنہ تباہ ہوتا جیسے جھوٹے تباہ ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں کی جب وحی اتاری تو ایسی برائی بیان کی کہ کسی (اور) کی نہ کی ہو گی۔ فرمایا کہ ”جب تم ان کی طرف لوٹ کر جاؤ گے تو عنقریب وہ تمہارے سامنے اللہ کی قسمیں کھائیں گے تاکہ تم ان سے کوئی تعرض نہ کرو، سو تم ان سے اعراض کر لو، بیشک وہ ناپاک ہیں اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے یہ بدلہ ہے ان کی کمائی کا۔ وہ تم سے اس لئے قسمیں کھاتے ہیں کہ تم ان سے خوش ہو جاؤ۔ پس اگر تم ان سے خوش بھی ہو جاؤ تو بھی اللہ تعالیٰ ان بدکاروں سے خوش نہیں ہو گا“۔ سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم تینوں کا معاملہ ان لوگوں سے مؤخر کیا گیا جن کا عذر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول کر لیا تھا۔ جب انہوں نے قسم کھائی تو ان سے بیعت کی اور ان کے لئے استغفار کیا اور ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے ڈال رکھا (یعنی ہمارا مقدمہ، فیصلہ پیچھے رکھا)، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کیا۔ اسی سبب سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”معاف کیا ان تینوں کو جو پیچھے ڈالے گئے تھے، یہاں تک کہ ان پر زمین اپنی کشادگی کے باوجود تنگ ہو گئی“ اور اس لفظ (یعنی خلّفوا) سے یہ مراد نہیں ہے کہ ہم جہاد سے پیچھے رہ گئے، بلکہ وہی مراد ہے ہمارے مقدمہ کا پیچھے رہنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھے ڈال رکھنا بہ نسبت ان لوگوں کے جنہوں نے قسم کھائی اور عذر کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے عذر کو قبول کر لیا۔
|