سیر و سیاحت اور لشکر کشی مال ”فے“ کیسے تقسیم ہو گا جب کہ لڑائی کی نوبت نہ آئی ہو۔
سیدنا مالک بن اوس کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بلایا اور میں ان کے پاس دن چڑھے آیا اور وہ اپنے گھر میں (بغیر بستر کے) ننگی چارپائی پر بیٹھے تھے۔ اور ایک چمڑے کے تکیہ پر تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اے مالک! تیری قوم کے کچھ لوگ دوڑ کر میرے پاس آئے تو میں نے ان کو کچھ تھوڑا دلا دیا ہے تو ان سب میں بانٹ دے۔ میں نے کہا کہ کاش یہ کام آپ کسی اور سے لے لیتے۔ انہوں نے کہا کہ اے مالک! تو لے لے۔ اتنے میں یرفا (ان کا خدمتگار) آیا اور کہنے لگا کہ اے امیرالمؤمنین! عثمان بن عفان، عبدالرحمن بن عوف، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہا آئے ہیں کیا ان کو آنے دوں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا ان کو آنے دے۔ وہ آ گئے۔ پھر یرفا آیا اور کہنے لگا کہ عباس اور علی رضی اللہ عنہا آنا چاہتے ہیں، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان کو بھی اجازت دیدے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! میرا اور اس جھوٹے، گنہگار، دغاباز اور چور کا فیصلہ کر دیجئیے۔ لوگوں نے کہا کہ ہاں اے امیرالمؤمنین! ان کا فیصلہ کر دیجئیے اور ان کو اس مسئلے سے راحت دیجئیے۔ مالک بن اوس نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ ان دونوں نے (یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے) سیدنا عثمان اور عبدالرحمن اور زبیر اور سعد رضی اللہ عنہا کو (اس لئے) آگے بھیجا تھا (کہ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہہ کر فیصلہ کروا دیں)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ٹھہرو! میں تم کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم پیغمبروں کے مال میں وارثوں کو کچھ نہیں ملتا اور جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے؟ سب نے کہا ہاں ہمیں معلوم ہے۔ پھر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ میں تم دونوں کو اس اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے؟ ان دونوں نے کہا کہ بیشک ہم جانتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک بات خاص کی تھی جو اور کسی کے ساتھ خاص نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”اللہ نے گاؤں والوں کے مال میں سے جو دیا، وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ہے“ مجھے معلوم نہیں ہے کہ اس سے پہلے کی آیت بھی انہوں نے پڑھی کہ نہیں پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے مال تم لوگوں کو بانٹ دئیے۔ اور اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مال کو) تم سے زیادہ نہیں سمجھا اور نہ یہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لیا ہو اور تمہیں نہ دیا ہو، یہاں تک کہ یہ مال رہ گیا۔ اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سال کا اپنا خرچ نکال لیتے اور جو بچ رہتا، وہ بیت المال میں شریک ہوتا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں قسم دیتا ہوں اس اللہ تعالیٰ کی، جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں کہ تم یہ سب جانتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں! ہم جانتے ہیں۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور عباس رضی اللہ عنہ کو بھی ایسی ہی قسم دی، تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ ہاں۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولی ہوں، تو تم دونوں آئے۔ عباس رضی اللہ عنہ تو اپنے بھتیجے کا ترکہ مانگتے تھے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عباس کے بھائی کے بیٹے تھے) اور علی رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ مطہرہ کا حصہ ان کے والد کے مال سے چاہتے تھے (یعنی سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کا جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی تھیں) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے کہ ہمارے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، تو تم ان کو جھوٹا، گنہگار، دغاباز اور چور سمجھے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ سچے، نیک اور ہدایت پر تھے اور حق کے تابع تھے۔ پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولی ہوں اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا، تو تم نے مجھے بھی جھوٹا، گنہگار، دغاباز اور چور سمجھا جبکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں سچا، نیکوکار اور حق پر ہوں، حق کا تابع ہوں۔ میں اس مال کا بھی ولی رہا۔ پھر تم دونوں میرے پاس آئے اور تم دونوں ایک ہو اور تمہارا معاملہ بھی ایک ہے (یعنی اگرچہ تم ظاہر میں دو شخص ہو مگر اس لحاظ سے کہ قربت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں میں موجود ہے تم مثل ایک شخص کے ہو) تم نے یہ کہا کہ یہ مال ہمارے سپرد کر دو تو میں نے کہا کہ اچھا! اگر تم چاہتے ہو تو میں تم کو اس شرط پر دے دیتا ہوں کہ تم اس مال میں وہی کرتے رہو گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ تم نے اسی شرط سے یہ مال مجھ سے لیا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کیوں ایسا ہی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر تم دونوں (اب) میرے پاس فیصلہ کرانے آئے ہو؟ نہیں، اللہ تعالیٰ کی قسم! میں اس کے سوا اور کوئی فیصلہ قیامت تک کرنے والا نہیں، البتہ اگر تم سے اس مال کا بندوبست نہیں ہوتا، تو پھر مجھے لوٹا دو۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مالوں میں سے اپنا ترکہ مانگنے کو بھیجا جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں اور فدک میں دئیے تھے اور جو کچھ خیبر کے خمس میں سے بچتا تھا، تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اسی مال میں سے کھائے گی اور میں تو اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقہ کو اس حال سے کچھ بھی نہیں بدلوں گا جس حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تھا اور میں اس میں وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ غرضیکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کو کچھ دینے سے انکار کیا، تو سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کو غصہ آیا اور انہوں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات چھوڑ دی اور بات نہ کی یہاں تک کہ ان کی وفات ہوئی۔ (نووی علیہ الرحمۃ نے کہا کہ یہ ترک ملاقات وہ نہیں جو شرع میں حرام ہے اور وہ یہ ہے کہ ملاقات کے وقت سلام نہ کرے یا سلام کا جواب نہ دے)۔ اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف چھ مہینہ زندہ رہیں (بعض نے کہا کہ آٹھ مہینے یا تین مہینے یا دو مہینے یا ستر دن بہرحال رمضان کی تین تاریخ 11 ہجری کو انہوں نے انتقال کیا) جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے شوہر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو رات کو ہی دفن کر دیا اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر نہ کی (اس سے معلوم ہوا کہ رات کو دفن کرنا جائز ہے اور دن کو افضل ہے اگر کوئی عذر نہ ہو) اور ان پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔ اور جب تک سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا زندہ تھیں اس وقت تک لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے (بوجہ سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے) محبت کرتے تھے، جب وہ انتقال کر گئیں تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ لوگ میری طرف سے پھر گئے ہیں، تب تو انہوں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے صلح کر لینا اور ان سے بیعت کر لینا مناسب سمجھا اور ابھی تک کئی مہینے گزر چکے تھے انہوں نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بیعت نہ کی تھی۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بلایا اور یہ کہلا بھیجا کہ آپ اکیلے آئیے آپ کے ساتھ کوئی نہ آئے کیونکہ وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا آنا ناپسند کرتے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اللہ کی قسم! تم اکیلے ان کے نہ پاس جاؤ؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ میرے ساتھ کیا کریں گے؟ اللہ کی قسم میں تو اکیلا جاؤں گا۔ آخر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تشہد پڑھا (جیسے خطبہ کے شروع میں پڑھتے ہیں) پھر کہا کہ اے ابوبکر رضی اللہ عنہ! ہم نے آپ کی فضیلت اور اللہ تعالیٰ نے جو آپ کو دیا (یعنی خلافت) پہچان لیا ہے۔ اور ہم اس نعمت پر رشک نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دی (یعنی خلافت اور حکومت)، لیکن آپ نے اکیلے اکیلے یہ کام کر لیا؟ اور ہم سمجھتے تھے کہ اس میں ہمارا بھی حق ہے کیونکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت رکھتے تھے۔ پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے برابر باتیں کرتے رہے، یہاں تک کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آنکھیں بھر آئیں جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی، تو کہا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کا لحاظ مجھے اپنی قرابت سے زیادہ ہے اور یہ جو مجھ میں اور تم میں ان باتوں کی بابت (یعنی فدک اور نضیر اور خمس خیبر وغیرہ کا) اختلاف ہوا، تو میں نے حق کو نہیں چھوڑا اور میں نے وہ کوئی کام نہیں چھوڑا جس کو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دیکھا، تو میں نے وہی کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اچھا آج دوپہر کو ہم آپ سے بیعت کریں گے۔ جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ظہر کی نماز سے فارغ ہوئے، تو منبر پر چڑھے اور خطبہ پڑھا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قصہ بیان کیا اور ان کے دیر سے بیعت کرنا اور جو عذر انہوں نے بیان کیا تھا؟ وہ بھی کہا اور پھر مغفرت کی دعا کی۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بیان کی اور یہ کہا کہ میرا دیر سے بیعت کرنا اس وجہ سے نہ تھا کہ مجھے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رشک ہے یا ان کی بزرگی اور فضیلت کا مجھے انکار ہے، بلکہ ہم یہ سمجھتے تھے کہ اس خلافت کے معاملہ میں ہمارا بھی حصہ ہے جو کہ اکیلے اکیلے بغیر صلاح کے یہ کام کر لیا گیا، اس وجہ سے ہمارے دل کو یہ رنج ہوا۔ یہ سن کر مسلمان خوش ہوئے اور سب نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم نے ٹھیک کام کیا۔ اس روز سے جب انہوں نے صحیح معاملہ اختیار کیا مسلمان پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف مائل ہوئے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں جو چھوڑ جاؤں تو میرے وارث ایک دینار بھی نہیں بانٹ سکتے اور اپنی عورتوں کے خرچ اور منتظم کی اجرت کے بعد جو بچے، وہ صدقہ ہے۔
|