سیر و سیاحت اور لشکر کشی اجتہاد کی بنا پر قاتل کو (دشمن مقتول) کا سامان نہ دینا۔
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حمیر (قبیلہ حمیر) کے ایک شخص نے دشمنوں میں سے ایک شخص کو مارا اور اس کا سامان لینا چاہا لیکن سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے) لشکر کے سردار تھے نے نہ دیا۔ سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حال بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم نے اس کو سامان کیوں نہ دیا؟ سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! وہ سامان بہت زیادہ تھا (تو میں نے وہ سب دینا مناسب نہ جانا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ سامان اس کو دیدے۔ پھر سیدنا خالد رضی اللہ عنہ، سیدنا عوف رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلے، تو سیدنا عوف رضی اللہ عنہ نے ان کی چادر کھینچتے ہوئے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، آخر وہی ہوا نا (یعنی سیدنا خالد رضی اللہ عنہ کو شرمندہ کیا کہ آخر تمہیں سامان دینا پڑا) یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لی اور غضبناک ہو کر فرمایا: اے خالد! اس کو مت دے اے خالد! اس کو مت دے۔ کیا تم میرے سرداروں کو چھوڑنے والے ہو؟ تمہاری اور ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے اونٹ یا بکریاں چرانے کو لیں، پھر ان کو چرایا اور ان کی پیاس کا وقت دیکھ کر حوض پر لایا، تو انہوں نے پینا شروع کیا۔ پھر صاف صاف پی گئیں اور تلچھٹ چھوڑ دیا، تو صاف (یعنی اچھی باتیں) تو تمہارے لئے اور بری باتیں سرداروں پر ہیں (یعنی بدنامی اور مواخذہ ان سے ہو)۔
|