خمس کے فرض ہونے کا بیان ख़ुम्स यानि पांचवें भाग के बारे में اس بات کی دلیل کہ پانچواں حصہ مسلمانوں کی ضرورت کے لیے ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوج نجد کی طرف روانہ کی جس میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے تو انہوں نے بہت سے اونٹ مال غنیمت میں پائے تو ان سب کے حصے میں بارہ بارہ یا گیارہ گیارہ اونٹ آئے اور ایک اونٹ انھیں حصہ سے زیادہ دیا گیا۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس حال میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مقام) جعرانہ میں غنیمت تقسیم کر رہے تھے کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا ”انصاف کیجئیے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تب تو میں بدبخت ہوں گا، اگر میں انصاف نہ کروں (گا تو اور کون کرے گا)؟“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ (ان کے والد) نے دو لونڈیاں حنین کے قیدیوں میں سے پائی تھیں اور ان کو مکہ میں کسی گھر میں رکھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے قیدیوں کو مفت چھوڑ دینے کا حکم دیا تو لوگ گلیوں میں دوڑنے لگے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اے عبداللہ! دیکھو تو یہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حنین کے قیدی مفت چھڑوا دیے (یہ اس وجہ سے ہے)، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا جاؤ تم بھی ان دونوں لونڈیوں کو چھوڑ دو (یہ لونڈیاں خمس میں سے ان کو ملی تھیں)۔
|