حدثنا محمود بن غيلان قال: حدثنا ابو احمد قال: حدثنا سفيان، عن عطاء بن السائب، عن عكرمة، عن ابن عباس قال: اخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم ابنة له تقضي فاحتضنها فوضعها بين يديه فماتت وهي بين يديه وصاحت ام ايمن فقال - يعني صلى الله عليه وسلم -: «اتبكين عند رسول الله؟» فقالت: الست اراك تبكي؟ قال: «إني لست ابكي، إنما هي رحمة، إن المؤمن بكل خير على كل حال، إن نفسه تنزع من بين جنبيه، وهو يحمد الله عز وجل» حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْنَةً لَهُ تَقْضِي فَاحْتَضَنَهَا فَوَضَعَهَا بَيْنَ يَدَيْهِ فَمَاتَتْ وَهِيَ بَيْنَ يَدَيْهِ وَصَاحَتْ أُمُّ أَيْمَنَ فَقَالَ - يَعْنِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: «أَتَبْكِينَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ؟» فَقَالَتْ: أَلَسْتُ أَرَاكَ تَبْكِي؟ قَالَ: «إِنِّي لَسْتُ أَبْكِي، إِنَّمَا هِيَ رَحْمَةٌ، إِنَّ الْمُؤْمِنَ بِكُلِّ خَيْرٍ عَلَى كُلِّ حَالٍ، إِنَّ نَفْسَهُ تُنْزَعُ مِنْ بَيْنِ جَنْبَيْهِ، وَهُوَ يَحْمَدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی قریب المرگ تھی آپ نے اسے پکڑا اور اپنی گود میں اٹھایا تو اسی حالت میں فوت ہو گئی جبکہ وہ آپ کے ہاتھوں میں تھی۔ ام ایمن چلا کر رونے لگیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو اللہ کے رسول کے سامنے روتی ہے؟“ انہوں نے عرض کیا: کیا میں آپ کو روتے ہوئے نہیں دیکھ رہی ہوں؟ ارشاد فرمایا: ” میں رو نہیں رہا ہوں، یہ تو رحمت کے آنسو ہیں۔ بے شک مومن ہر حال میں خیر میں ہی ہوتا ہے جب اس کے پہلو سے اس کی روح پرواز کرتی ہے اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہے۔ “