كتاب الرقبى کتاب: رقبیٰ (یعنی زندگی سے مشروط ہبہ) کے احکام و مسائل 1. بَابُ: ذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ فِي خَبَرِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ فِيهِ باب: اس باب میں زید بن ثابت رضی الله عنہ کی حدیث میں علی بن أبی نجیح پر اختلاف کا ذکر۔
زید بن ثابت رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رقبیٰ لاگو ہو گا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3720) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ایام جاہلیت کا رقبیٰ یہ تھا کہ آدمی اپنا گھر یا زمین کسی کو یہ کہہ کر دیتا تھا کہ اگر میں پہلے مر گیا تو یہ تمہارا ہو جائے گا اور اگر تم مر گئے تو میں اسے واپس لے لوں گا، اس طرح ہر ایک کو دوسرے کی موت کا انتظار رہتا تھا، لیکن شریعت اسلامیہ نے اس دو طرفہ شرط کو باطل کر کے اس طرح کے ہبہ وغیرہ کو صرف اس شخص کے لیے خاص کر دیا جس کو کسی نے ہبہ کیا تھا، وہ ہبہ کرنے والے سے پہلے مرے یا بعد میں، ہر حال میں ہبہ موہوب لہ (جس کے لیے ہبہ کیا گیا ہے) ہی کا ہو گا، اور موہوب لہ کی موت کے بعد اس کے وارثین میں منتقل ہو جائے گا، رقبیٰ اور عمریٰ جاہلی رواج کے مطابق تقریباً ہم معنی ہیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
زید بن ثابت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رقبیٰ کو اسی کا حق قرار دیا ہے جسے رقبیٰ کیا گیا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 3701)، مسند احمد (5/186، 189) (صحیح) (اس سند میں ایک راوی مبہم ہے، لیکن اوپر اور نیچے طرق سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)»
وضاحت: ۱؎: گویا کہ یہ ایک عطیہ ہے اور عطیہ دے کر واپس لینا صحیح نہیں ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رقبیٰ (مصلحتاً جائز) نہیں ہے (لیکن اگر کسی نے کر دیا ہے) تو جسے رقبیٰ کیا گیا ہے اس کے ورثاء کو میراث میں ملے گا، دینے والے کو واپس نہ ہو گا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 5728)، مسند احمد (1/250) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|