Note: Copy Text and Paste to word file

سنن نسائي
كتاب الرقبى
کتاب: رقبیٰ (یعنی زندگی سے مشروط ہبہ) کے احکام و مسائل
1. بَابُ : ذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ فِي خَبَرِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ فِيهِ
باب: اس باب میں زید بن ثابت رضی الله عنہ کی حدیث میں علی بن أبی نجیح پر اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 3738
أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ طَاوُسٍ لَعَلَّهُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" لَا رُقْبَى فَمَنْ أُرْقِبَ شَيْئًا فَهُوَ سَبِيلُ الْمِيرَاثِ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رقبیٰ (مصلحتاً جائز) نہیں ہے (لیکن اگر کسی نے کر دیا ہے) تو جسے رقبیٰ کیا گیا ہے اس کے ورثاء کو میراث میں ملے گا، دینے والے کو واپس نہ ہو گا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 5728)، مسند احمد (1/250) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 3738 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3738  
اردو حاشہ:
(1) رقبیٰ واپس نہیں آئے گا۔ یعنی رقبیٰ کی رائج صورت معتبر نہیں۔ دوسرے معنیٰ یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ رقبیٰ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ عطیہ کی اچھی صورت نہیں۔ لیکن اگر کو ئی شخص کرے گا تو واپس کی شرط غیر معتبر ہوگی بلکہ جسے دے دیا گیا تھا‘ اس کے ورثاء کو اس کی وفات کے بعد مل جائے گا۔
(2) شاید عبدالجبار بن علاء کو شک ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3738