(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار , حدثنا عبد الرحمن بن مهدي , حدثنا سفيان , عن علقمة بن مرثد , عن سليمان بن بريدة , عن ابيه , قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بعث اميرا على جيش , اوصاه في خاصة نفسه بتقوى الله , ومن معه من المسلمين خيرا , فقال: " اغزوا بسم الله , وفي سبيل الله , قاتلوا من كفر , اغزوا ولا تغلوا , ولا تغدروا , ولا تمثلوا , ولا تقتلوا وليدا " , وفي الحديث قصة , قال: وفي الباب , عن عبد الله بن مسعود , وشداد بن اوس , وعمران بن حصين , وانس , وسمرة , والمغيرة , ويعلى بن مرة , وابي ايوب. قال ابو عيسى: حديث بريدة حديث حسن صحيح , وكره اهل العلم المثلة.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ , عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ أَمِيرًا عَلَى جَيْشٍ , أَوْصَاهُ فِي خَاصَّةِ نَفْسِهِ بِتَقْوَى اللَّهِ , وَمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا , فَقَالَ: " اغْزُوا بِسْمِ اللَّهِ , وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ , قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ , اغْزُوا وَلَا تَغُلُّوا , وَلَا تَغْدِرُوا , وَلَا تُمَثِّلُوا , وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا " , وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ , وَشَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ , وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , وَأَنَسٍ , وَسَمُرَةَ , وَالْمُغِيرَةِ , وَيَعْلَى بْنِ مُرَّةَ , وَأَبِي أَيُّوبَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ بُرَيْدَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَكَرِهَ أَهْلُ الْعِلْمِ الْمُثْلَةَ.
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی لشکر پر امیر مقرر کر کے بھیجتے تو خاص طور سے اسے اپنے بارے میں اللہ سے ڈرنے کی وصیت فرماتے، اور جو مسلمان اس کے ساتھ ہوتے انہیں بھلائی کی وصیت کرتے، چنانچہ آپ نے فرمایا: ”اللہ کے نام سے اس کے راستے میں جہاد کرو، جو کفر کرے اس سے لڑو، جہاد کرو، مگر مال غنیمت میں خیانت نہ کرو، بدعہدی نہ کرو، مثلہ ۱؎ نہ کرو اور نہ کسی بچے کو قتل کرو“، حدیث میں کچھ تفصیل ہے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- بریدہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، شداد بن اوس، عمران بن حصین، انس، سمرہ، مغیرہ، یعلیٰ بن مرہ اور ابوایوب سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم نے مثلہ کو حرام کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجہاد 2 (1721)، سنن ابی داود/ الجہاد 90 (2612)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 38 (2858)، (تحفة الأشراف: 1929)، و مسند احمد (5/352، 358)، وسنن الدارمی/السیر (2483) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مردہ کے ناک، کان وغیرہ کاٹ کر صورت بگاڑ دینے کو مثلہ کہتے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع , حدثنا هشيم , حدثنا خالد , عن ابي قلابة، عن ابي الاشعث الصنعاني، عن شداد بن اوس , ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الله كتب الإحسان على كل شيء , فإذا قتلتم فاحسنوا القتلة , وإذا ذبحتم فاحسنوا الذبحة , وليحد احدكم شفرته , وليرح ذبيحته ". قال: هذا حديث حسن صحيح , ابو الاشعث الصنعاني اسمه: شراحيل بن آدة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ , حَدَّثَنَا خَالِدٌ , عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ , فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ , وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذِّبْحَةَ , وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ , وَلْيُرِحْ ذَبِيحَتَهُ ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , أَبُو الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيُّ اسْمُهُ: شَرَاحِيلُ بْنُ آدَةَ.
شداد بن اوس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ نے ہر کام کو اچھے طریقے سے کرنا ضروری قرار دیا ہے، لہٰذا جب تم قتل ۱؎ کرو تو اچھے طریقے سے قتل کرو، اور جب تم ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو، تمہارے ہر آدمی کو چاہیئے کہ اپنی چھری تیز کر لے اور اپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے“۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصید 11 (1955)، سنن ابی داود/ الضحایا 12 (2815)، سنن النسائی/الضحایا 22 (4410)، و 27 (4419)، سنن ابن ماجہ/الذبائح 3 (3170)، (تحفة الأشراف: 8417)، و مسند احمد (4/123، 124، 125)، و سنن الدارمی/الأضاحي 10 (2013) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: انسان کو ہر چیز کے ساتھ رحم دل ہونا چاہیئے، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے نہ صرف انسانوں کے ساتھ بلکہ جانوروں کے ساتھ بھی احسان اور رحم دلی کی تعلیم دی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں جو کچھ فرمایا اس کا مفہوم یہ ہے کہ تم جب کسی شخص کو بطور قصاص قتل کرو تو قتل کے لیے ایسا طریقہ اپناؤ جو آسان ہو اور سب سے کم تکلیف کا باعث ہو، اسی طرح جب کوئی جانور ذبح کرو تو اس کے ساتھ بھی احسان کرو یعنی ذبح سے پہلے چھری خوب تیز کر لو، بہتر ہو گا کہ چھری تیز کرنے کا عمل جانور کے سامنے نہ ہو اور نہ ہی ایک جانور دوسرے جانور کے سامنے ذبح کیا جائے، اسی طرح اس کی کھال اس وقت اتاری جائے جب وہ ٹھنڈا پڑ جائے۔
۲؎: حدیث میں قتل سے مراد موذی جانور کا قتل ہے یا بطور قصاص کسی قاتل کو قتل کرنا اور میدان جنگ میں دشمن کو قتل کرنا ہے، ان تمام صورتوں میں قتل کی اجازت ہے، لیکن دشمنی کے جذبات میں ایذا دیدے کر مارنے کی اجازت نہیں ہے، جیسے اسلام سے پہلے مثلہ کیا جاتا تھا، پہلے ہاتھ کاٹتے پھر پیر پھر ناک پھر کان وغیرہ، اسلام نے اس سے منع فرما دیا اور کہا کہ تلوار کے ایک وار سے سر تن سے جدا کرو تاکہ کم سے کم تکلیف ہو۔