وعن جابر قال: جاءت امراة سعد بن الربيع بابنتيها من سعد بن الربيع إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت: يا رسول الله هاتان ابنتا سعد بن الربيع قتل ابوهما معك يوم احد شهيدا وإن عمهما اخذ مالهما ولم يدع لهما مالا ولا تنكحان إلا ولهما مال قال: «يقضي الله في ذلك» فنزلت آية الميراث فبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عمهما فقال: «اعط لابنتي سعد الثلثين واعط امهما الثمن وما بقي فهو لك» . رواه احمد والترمذي وابو داود وابن ماجه وقال الترمذي: هذا حديث حسن غريب وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةُ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ بِابْنَتَيْهَا مِنْ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَاتَانِ ابْنَتَا سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ قُتِلَ أَبُوهُمَا مَعَكَ يَوْمَ أُحُدٍ شَهِيدًا وَإِنَّ عَمَّهُمَا أَخَذَ مَالَهُمَا وَلَمْ يَدَعْ لَهُمَا مَالًا وَلَا تُنْكَحَانِ إِلَّا وَلَهُمَا مَالٌ قَالَ: «يَقْضِي اللَّهُ فِي ذَلِكَ» فَنَزَلَتْ آيَةُ الْمِيرَاثِ فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَمِّهِمَا فَقَالَ: «أَعْطِ لِابْنَتَيْ سَعْدٍ الثُّلُثَيْنِ وَأَعْطِ أُمَّهُمَا الثُّمُنَ وَمَا بَقِيَ فَهُوَ لَكَ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَهْ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غريبٌ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی اہلیہ سعد بن ربیع سے اپنی دونوں بیٹیاں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آئی تو عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ دونوں سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی بیٹیاں ہیں، ان کا والد غزوہ احد میں آپ کے ساتھ شریک ہو کر شہید ہو گیا۔ ان دونوں کے چچا نے ان کا مال لے لیا ہے اور ان کے لیے کوئی مال نہیں چھوڑا، اگر مال ہو گا تو ان کی شادی ہو جائے گی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے متعلق اللہ فیصلہ فرمائے گا۔ “ پس آیتِ میراث نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے چچا کو پیغام بھیجا کہ سعد رضی اللہ عنہ کی دونوں بیٹیوں کو دو تہائی دو اور ان دونوں کی والدہ کو آٹھواں حصہ دو، اور جو باقی بچے وہ تمہارا ہے۔ “ احمد، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ۔ اور امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ احمد و الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أحمد (352/3 ح 14858) و الترمذي (2092) و أبو داود (2891. 2892) و ابن ماجه (2720) ٭ عبد الله بن محمد بن عقيل: ضعيف مشھور، ضعفه الجمھور.»