الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب 1. باب مِنْ فَضَائِلِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: باب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بزرگی کے بیان میں۔
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے مشرکوں کے پاؤں دیکھے اپنے سروں پر اور ہم غار میں تھے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر ان میں سے کوئی اپنے قدموں کی طرف دیکھے تو ہم کو دیکھ لےگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوبکر! تو کیا سمجھتا ہے ان دونوں کے بارے میں جن کے میں ساتھ تیسرا اللہ بھی ہے۔“
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے اور فرمایا: ”اللہ کا ایک بندہ ہے جس کو اللہ نے اختیار دیا ہے، چاہے دنیا کی دولت لے، چاہے اللہ تعالیٰ کے پاس رہنا اختیار کرے۔ پھر اس نے اللہ تعالیٰ کے پاس رہنا اختیار کیا۔“ یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ روئے (سمجھ گئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات قریب ہے) اور بہت روئے، پھر کہا: ہمارے باپ، دادا ہماری مائیں آپ پر قربان ہوں۔ پھر معلوم ہوا کہ اس بندے سے مراد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے زیادہ علم رکھتےتھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب لوگوں سے زیادہ مجھ پر ابوبکر کا احسان ہے مال کا بھی اور صحبت کا اور جو میں کسی کو خلیل بناتا (سوائے اللہ کے) تو ابوبکر کو خلیل بناتا۔ اب خلت تو نہیں ہے لیکن اسلام کی اخوت (برادری) ہے، مسجد میں کسی کی کھڑکی نہ رہے (سب بند کر دی جائیں) پر ابوبکر کے گھر کی کھڑکی قائم رکھو۔“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن لوگوں کو خطبہ دیا۔ جیسا کہ حدیث مالک میں ہے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں کسی کو اپنا جانی دوست بناتا (سوائے اللہ کے) تو ابوبکر کو بناتا، لیکن وہ میرے بھائی اور میرے صحابی ہیں اور تمہارے صاحب کو اللہ نے خلیل بنایا ہے۔“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو میں کسی کو اپنی امت میں سے اپنا جانی دوست بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔“
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ”اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا دوست بناتا تو ابوقحافہ کے بیٹے کو بناتا۔“
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ”اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا دوست بناتا تو ابوقحافہ کے بیٹے کو بناتا زمین والوں میں سے اور لیکن تمہارے صاحب اللہ کے خلیل ہیں۔“
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگاہ رہو میں کسی کی دوستی نہیں رکھتا (یعنی وہ دوستی جس میں اور کا خیال نہ ر ہے) اور جو میں ایسی دوستی کسی سے کرنے والا ہو تا تو ابوبکر سے کرتا، اور تمہارے صاحب اللہ کے دوست ہیں۔“ (صاحب سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تئیں کہا)۔
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ذات السلاسل کے لشکر کے ساتھ بھیجا (ذات السلاسل نواحی شام میں ایک پانی کا نام ہے وہاں کی لڑائی جمادی الثانی ۸ ہجری میں ہوئی) وہ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! سب لوگوں میں آپ کو کس سے زیادہ محبت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ سے۔“ انہوں نے کہا: مردوں میں کس سے زیادہ محبت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کے باپ سے۔“ انہوں نے کہا: پھر ان کے بعد کس سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمر سے۔“ یہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی آدمیوں کا ذکر کیا۔
ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے، میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، ان سے پوچھا گیا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ کرتے تو کس کو کرتے؟ (اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کی خلافت پر نص نہیں کیا بلکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت صحابہ رضی اللہ عنہم کے اجماع سے ہوئی، اور شیعہ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نص کیا تھا باطل اور بےاصل ہے اور خود سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کی تکذیب کی۔ نووی رحمہ اللہ) انہوں نے کہا: سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کرتے، پھر پوچھا گیا ان کے بعد کس کو کرتے؟ انہوں نے کہا: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو، پھر پوچھا گیا ان کے بعد کس کو کرتے؟ انہوں نے کہا: سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو، پھر خاموش ہو رہیں۔
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر آنا۔“ وہ بولی: یا رسول اللہ! اگر میں آؤں اور آپ کو نہ پاؤں (یعنی آپ کی وفات ہو جائے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو مجھے نہ پائے تو ابوبکر کے پاس آنا۔“
سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے بارے میں گفتگو کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایسا ہی حکم دیا جیسا کہ حدیث عباد بن موسیٰ میں ہے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیماری میں فرمایا: ”بلا تو اپنے باپ ابوبکر کو اپنے بھائی کو اور اپنے بھائی کو تاکہ میں ایک کتاب لکھ دوں، میں ڈرتا ہوں کوئی آرزو کرنے والا آرزو نہ کرے (خلافت کی) اور کوئی کہنے والا یہ نہ کہے کہ میں خلافت کا زیادہ حقدار ہوں اور اللہ تعالیٰ انکار کرتا ہے اور مسلمان بھی انکار کر تے ہیں سوائے ابوبکر کے اور کسی کی خلافت سے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج کے دن تم میں سے کون روزہ دار ہے؟“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج کے دن تم میں سے کون جنازے کے ساتھ گیا؟“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج کے دن تم میں سے کس نے مسکین کو کھاناکھلایا؟“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج کے دن تم میں سے کس نے بیمار کی پرسش کی یعنی عیادت کی؟“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس میں یہ سب باتیں جمع ہوں وہ جنت میں جائے گا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص ایک بیل ہانک رہا تھا اس پر بوجھ لادے ہوئے، بیل نے اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگا: میں اس لیے نہیں پیدا ہوا، میں تو کھیت کے واسطے پیدا ہوا ہوں۔ لوگوں نے کہا: سبحان اللہ! تعجب سے، ڈر کر، بیل بات کرتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تو اس بات کو سچ جانتا ہوں اور ابوبکر اور عمر بھی سچ جانتے ہیں۔“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک چرواہا اپنی بکریوں میں تھا، اتنے میں ایک بھیڑیا لپکا اور ایک بکر ی لے گیا۔ چرواہے نے پیچھا کیا اور بکری کو اس سے چھڑا لیا۔ بھیڑیے نے اس کی طرف دیکھا اور کہا: اس دن کون بکر ی کو بچائےگا جس دن سوائے میرے کوئی چرواہا نہ ہو گا (وہ قیامت کا دن ہے یا عید کا دن جس دن جاہلیت والےکھیل کود میں مصروف رہتے اور بھیڑیے بکریاں لے جاتے یا قیامت کے قریب آفت اور فتنہ کے دن جب لوگ مصیبت کے مارے اپنے مال کی فکر سے غافل ہو جائیں گے) لوگوں نے کہا: سبحان اللہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس کو سچ جانتا ہوں اور ابوبکر اور عمر بھی سچ جانتے ہیں۔“ (دو سری روایت میں ہے کہ سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما وہاں موجود نہ تھے۔ اس حدیث سے ان کی بڑی فضیلت نکلی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر ایسا بھروسہ تھا کہ جو بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم مانتے ہیں وہ بھی ضرور مانیں گے۔)
ابن شہاب سے انہی اسناد کے تحت بکری اور بھیڑیے کا ذکر ہے لیکن اس میں بیل کا ذکر نہیں ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں جیسا یونس اور زہری نے بیان کیا اور ان دونوں کی روایتوں میں گائے اور بکری کا اکٹھا ذکر ہے۔ اسی طرح ان دونوں کی روایتوں میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ میں اس کو سچا جانتا ہوں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اس کو سچ جانتے ہیں۔“ اور وہ دونوں وہاں نہ تھے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں۔
|