صحيح مسلم
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
1. باب مِنْ فَضَائِلِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
باب: سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بزرگی کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 6171
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ حُنَيْنٍ ، وَبُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ يَوْمًا، بِمِثْلِ حَدِيثِ مَالِكٍ.
سالم نےابو نضر سے، انھوں نے عبید بن حنین اور بسر بن سعید سے، انھوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خطبہ دیا، (اس کے بعد) مالک کی حدیث کی مانند ہے۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن لوگوں کو خطاب فرمایا،آگے مذکورہ بالاحدیث ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 6171 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6171
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
زهرة الدنيا:
دنیا کی رونق و بہجت،
ظاہری ٹیپ ٹاپ،
مراد دنیا کی نعمتیں اور آسائشیں ہیں۔
أمن الناس علي:
مجھ پر سب سے زیادہ خرچ کرنے والا،
وقت اور مال صرف کرنا مراد ہے کیونکہ احسان دھرنا مراد نہیں ہو سکتا۔
کیونکہ رسول پر احسان دھرنا تو اعمال کے ضیاع کا سبب ہے اور رسول کا کسی چیز کو قبول کر لینا،
اس کا احسان ہے۔
یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ اگر کسی کے لیے آپ پر احسان دہرنا ممکن ہوتا تو سب سے پہلے ابوبکر کو یہ حق جتلانے کا حق حاصل ہوتا،
جیسا کہ طبرانی میں حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے آپ نے فرمایا:
ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر مجھے پر کسی کا احسان نہیں ہے،
اس نے اپنے مال اور جان سے میرے ساتھ ہمدردی کی اور اپنی بیٹی میرے ساتھ بیاہی اور سنن ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا:
ہم نے ہر ایک کے احسان کا بدلہ چکا دیا صرف ابوبکر کے احسان کا بدلہ نہیں چکایا اس کے احسان کا بدلہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے عنایت فرمائے گا۔
(تکملہ ج5 ص 65) (2)
خَوخة:
کھڑکی۔
(3)
خَليل:
سب سے کٹ کر ایک کا ہو جانا،
کسی دوسرے کی گنجائش نہ رہنا۔
فوائد ومسائل:
یہ مرض الموت کا واقعہ ہے اور آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف اشارہ کرنے کے لیے،
مسجد میں کھلنے والے تمام کھڑکیوں کو بند کروا دیا،
صرف ابوبکر کی کھڑکی رہنے دی،
تاکہ نماز کے لیے اس سے مسجد میں آ سکیں۔
بعض صحابہ کرام کے دروازے اور کھڑکیاں مسجد میں کھلتی تھیں آپ نے ان کے بارے میں دو دفعہ حکم صادر فرمایا،
پہلی دفعہ صرف دروازہ بند کرنے کا حکم دیا لیکن حضرت علی کے دروازے کو بند نہیں کروایا اس لئے حدیث کو علامہ ابن الجوزی کا موضوع قرار دینا بلاوجہ اور غلط ہے،
دوسری دفعہ آپ نے کھڑکیوں کے ساتھ حضرت علی کا دروازہ بھی بند کروا دیا اور صرف ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی کھڑکی کھلی رہنے دی تاکہ وہ امامت کے لیے آسانی سے مسجد میں آ جائیں تفصیل کے لیے فتح الباری ج 7 میں اس حدیث کی تشریح دیکھئے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6171