الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْإِيمَانِ ایمان کے احکام و مسائل 10. باب الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ مَنْ مَاتَ عَلَى التَّوْحِيدِ دَخَلَ الْجَنَّةَ قَطْعًا باب: موحد قطعی جنتی ہے۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مر جائے اور اس کو اس بات کا یقین ہو کہ کوئی لائق عبادت نہیں سوائے اللہ جل جلالہ کے تو وہ جنت میں جائے گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (9798)»
عثمان سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اسی طرح کی حدیث سماعت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (9798)»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ایک سفر (جنگ تبوک) میں تو لوگوں کے توشے تمام ہو گئے اور آپ نے قصد کیا لوگوں کے بعض اونٹ کاٹ ڈالنے کا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! کاش آپ جمع کرتے لوگوں کے سب توشے اور پھر اس پر اللہ سے دعا کرتے (تاکہ اس میں برکت ہو اور سب کے لئے کافی ہو جائے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تو جس کے پاس گیہوں تھی لے کر آیا اور جس کے پاس کھجور تھی وہ کھجور لے کر آیا اور جس کے پاس گٹھلی تھی وہ گٹھلی لےکر آیا۔ میں نے کہا: گٹھلی کو کیا کرتے تھے انہوں نے کہا: اس کو چوستے تھے پھر اس پر پانی پی لیتے تھے۔ راوی نے کہا: آپ نے ان سب توشوں پر دعا کی تو لوگوں نے اپنے اپنے توشہ کے برتنوں کو بھر لیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ کے (وہی سچا اللہ ہے باقی سب جھوٹے معبود ہیں) اور میں اللہ کا بھیجا ہوا ہوں جو بندہ اللہ سے ملے اور ان دونوں باتوں میں اس کو شک نہ ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (12806)»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (یہ شک ہے اعمش کو جو راوی ہے اس حدیث کا) جب غزوہ تبوک کا وقت آیا (تبوک شام میں ایک مقام کا نام ہے) تو لوگوں کو سخت بھوک لگی۔ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! کاش آپ ہم کو اجازت دیتے تو ہم اپنے اونٹوں کو جن پر پانی لاتے ہیں کاٹ ڈالتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا کاٹو۔“ اتنے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! اگر ایسا کیجئیے گا تو سواریاں کم ہو جائیں گی لیکن سب لوگوں کو بلا بھیجئیے اور کہیے اپنا اپنا بچا ہوا توشہ لےکر آئیں پھر اللہ سے دعا کیجئیے کہ توشہ میں برکت دے شاید اس میں اللہ کوئی راستہ نکال دے (یعنی برکت اور بہتری عطا فرمائے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا“ پھر ایک دسترخوان منگوایا۔ اس کو بچھا دیا اور سب کا بچا ہوا توشہ منگوایا۔ کوئی مٹھی بھر جوار لایا، کوئی مٹھی بھر کھجور لایا، کوئی روٹی کا ٹکڑا یہاں تک کہ سب مل کر تھوڑا سا دسترخوان پر اکھٹا ہوا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کے لئے دعا کی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے برتنوں میں توشہ بھرو۔“ تو تمام نے اپنے اپنے برتن بھر لئے یہاں تک کہ لشکر میں کوئی برتن نہ چھوڑا جس کو نہ بھرا ہو۔ پھر سب نے کھانا شروع کیا اور سیر ہو گئے۔ اس پر بھی کچھ بچ رہا تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں اللہ کا بھیجا ہوا ہوں۔ جو شخص ان دونوں باتوں پر یقین کر کے اللہ سے ملے، وہ جنت سے محروم نہ ہوگا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (4010 و 12535)»
سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کہے کہ میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی کہ سوائے اللہ کے کوئی سچا معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور بےشک محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور بھیجے ہوئے ہیں اور بےشک عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے ہیں اور اس کی بندی (مریم علیہا السلام) کے بیٹے ہیں اور اس کے کلمہ ( «كن») سے پیدا ہوئے جو اس نے مریم میں ڈال دیا (یعنی حکم کر دیا «كن» کے ساتھ پھر وہ ہو گئے بن باپ کے) اور رحمت ہیں اللہ کی یا روح ہیں اللہ کی (یعنی عیسیٰ علیہ السلام کو روح اللہ کہتے ہیں اس لئے کہ اللہ جل جلالہ نے ان کی روح کو پید کیا اگرچہ سب روحوں کو اللہ ہی نے بنایا ہے مگر عیسیٰ علیہ السلام کی روح بڑی عزت اور بزرگی والی ہے اس لئے اللہ کی طرف نسبت دی گئی، جیسے خانہ کعبہ کو بیت اللہ کہتے ہیں) اور بیشک جنت حق ہے اور جہنم حق ہے، تو لے جائے گا اس کو اللہ جنت کے آٹھ دروازوں میں سے جس میں سے یہ چاہے جائے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى الانبياء، باب: قوله تعالى ﴿يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَىٰ مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِّنْهُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ۖ وَلَا تَقُولُوا ثَلَاثَةٌ ۚ انتَهُوا خَيْرًا لَّكُمْ ۚ إِنَّمَا اللَّهُ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ سُبْحَانَهُ أَن يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ ۘ لَّهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ وَكِيلًا﴾ برقم (3435) انظر ((التحفة)) برقم (5075)»
عمیر بن ہانی اس سند میں الفاظ (جنت کے آٹھ دروازوں میں سے جس سے چاہے) کی جگہ یہ لفظ موجود ہیں کہ (اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرے گا چاہے وہ جیسے اعمال کرتا ہوا بھی اس دنیا سے جائے)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (139)»
صنابحی سے روایت ہے، میں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس گیا۔ وہ مرنے کے قریب تھے۔ میں رونے لگا۔ انہوں نے کہا: مجھ کو مہلت دو، (یعنی مجھ کو بات کرنے میں) کیوں روتا ہے؟ قسم اللہ کی اگر میں گواہ بنایا جاؤں گا تو تیرے لیے (ایمان کی) گواہی دوں گا اور اگر میری سفارش کام آئے گی تو تیری سفارش کروں گا اور اگر مجھے طاقت ہو گی تو تجھ کو فائدہ دوں گا۔ پھر کہا: اللہ کی قسم! کوئی حدیث میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی، جس میں تمہاری بھلائی تھی مگر میں نے اس کو تم سے بیان کر دیا البتہ ایک حدیث میں نے اب تک بیان نہیں کی وہ آج بیان کرتا ہوں اس لئے کہ میری جان جانے کو ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:“ ”جو شخص گواہی دے (یعنی دل سے یقین کرے اور زبان سے اقرار) کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور بےشک محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرام کر دے گا (یعنی ہمیشہ جہنم میں رہنے کو یا جہنم کے اس طبقہ کو جس میں ہمیشہ رہنے والے کافر ڈالے جائیں گے۔)
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي فى ((جامعه)) فى الايمان، باب: ما جاء فيمن يموت وهو يشهد ان لا اله الا الله- وقال: حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه برقم (2638) انظر ((التحفة)) برقم (5099)»
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں سواری پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان میں سوائے پالان کی پچھلی لکڑی کے کچھ نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“ ”اے معاذ بن جبل!“ میں نے عرض کیا: میں حاضر ہوں آپ کی خدمت میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانبردار ہوں یا رسول اللہ! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر چلے اس کے بعد فرمایا: ”اے معاذ بن جبل!“ میں نے کہا: یا رسول اللہ! فرمانبردار خدمت میں حاضر ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر چلے اس کے بعد فرمایا: ”اے معاذ بن جبل!“ میں نے کہا یا رسول اللہ! فرمانبردار آپ کی خدمت میں حاضر ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو جانتا ہے اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے؟“ میں نے کہا اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر چلے، فرمایا: ”اے معاذ بن جبل!“ میں نے کہا یا رسول اللہ! میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپ کا فرمانبردار ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو جانتا ہے بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے، جب بندے یہ کام کریں“ (یعنی اسی کی عبادت کریں، کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ کریں) میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ حق یہ ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ کرے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى (صحيحه)) فى اللباس، باب: ارداف الرجل خلف الرجل برقم (5967) وفي الاستئذان، باب: من اجاب بلبيك وسعديك برقم (6267) وفي الرقاق، باب: من جاهد نفسه فى طاعة الله برقم (6500) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (11308)»
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گدھے پر سوار تھا جس کا نام ”عفیر“ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے معاذ! تو جانتا ہے اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے؟“ میں کہا: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ اسی کی عبادت کریں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ جو شخص شرک نہ کرے اللہ اس کو عذاب نہ دے۔“ میں نے کہا: یارسول اللہ! میں خوش نہ کر دوں لوگوں کہ یہ سنا کر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مت سنا ان کو ایسا نہ ہو کہ وہ اس پر بھروسہ کر بیٹھیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((الجهاد)) باب: اسم الفرس والحمار برقم (2701) وابوداؤد فى ((سننه)) فى الجهاد، باب: فى الرجل يسمى دابته باختصار برقم (2856) والترمذى فى ((جامعه)) فى الايمان، باب: ما جاء فى افتراق هذه الامة۔ ولم يذكر قصه الحمار، وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (2643) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (11351)»
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے معاذ! تو جانتا ہے اللہ کا بندے پر کیا حق ہے؟“ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ حق یہ ہے کہ عبادت کی جائے اللہ کی اور شریک نہ کیا جائے اس کے ساتھ کوئی:“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو جانتا ہے بندوں کا حق اللہ پر کیا ہے؟“ میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ حق یہ ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ کرے۔“ (یعنی ہمیشہ کا عذاب جیسے مشرکوں کو ہو گا)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى التوحيد، باب: ما جاء فى دعاء النبى صلى الله عليه وسلم امته الى توحيد الله تبارك وتعالى برقم (7373) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (11306)»
اسود بن ھلال سے روایت ہے، کہا: میں نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا میں نے آپ کی بات پر لبیک کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے۔“ ان کی حدیث کی مانند۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (144)»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد بیٹھے تھے اور ہمارے ساتھ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے اور آدمیوں میں۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے (اور باہر تشریف لے گئے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے پاس آنے میں دیر لگائی تو ہم کو ڈر ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو اکیلا پا کر نہ مار ڈالیں۔ ہم گھبرا گئے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ سب سے پہلے میں گھبرایا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈنے کے لئے نکلا اور بنی نجار کے باغ کے پاس پہنچا (بنی نجار انصار میں سے ایک قبیلہ تھا) اس کے چاروں طرف دروازہ کو دیکھتا ہوا پھرا کہ دروازہ پاؤں تو اندر جاؤں (کیونکہ گمان ہوا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے اندر تشریف لے گئے ہوں) دروازہ ملا ہی نہیں (شاید اس باغ میں دروازہ ہی نہ ہو گا یا اگر ہو گا تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو گھبراہٹ میں نظر نہ آیا ہو گا) دیکھا کہ باہر کنویں سے ایک نالی باغ کے اندر جاتی ہے میں لومڑی کی طرح سمٹ کر اس نالی کے اندر گھسا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوہریرہ!“ میں کہا جی ہاں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا حال ہے تیرا۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ ہم لوگوں میں تشریف رکھتے تھے۔ پھر آپ تشریف لے گئے اور آپ نے آنے میں دیر لگائی تو ہم کو ڈر ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو ہم سے جدا دیکھ کر نہ ستائیں۔ ہم گھبرا گئے اور سب س پہلے میں گھبرا کر اٹھا اور اس باغ کے پاس آیا (دروازہ نہ ملا) تو اس طرح سمٹ کر گھس آیا جیسے لومڑی اپنے بدن کو سمیت کر گھس جاتی ہے اور سب لوگ میرے پیچھے آتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:“ ”اے ابوہریرہ!“ اور عنایت کیے مجھ کو اپنے جوتے (نشانی کے لئے تاکہ اور لوگ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بات کو سچ سمجھیں) اور فرمایا: ”میرے دونوں جوتے لے کر جا اور جو کوئی تجھے اس باغ کے پیچھے ملے اور وہ اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اس بات پر دل سے یقین رکھتا ہو تو اس کو یہ سنا کر خوش کر دے کہ اس کے لیے جنت ہے۔“ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں جوتے لےکر چلا) تو سب سے پہلے میں عمر رضی اللہ عنہ سے ملا۔ انہوں نے پوچھا: اے ابوہریرہ! یہ جوتے کیسے ہیں؟ میں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دے کر مجھ کو بھیجا ہے کہ میں جس سے ملوں اور وہ گواہی دیتا ہو لا الہ الا اللہ کی، دل سے یقین کر کے تو اس کو جنت کی خوشخبری دوں۔ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ہاتھ میری چھاتی کے بیچ میں مارا تو میں سرین کے بل گرا۔ پھر کہا: اے ابوہریرہ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ جا۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوٹ کر چلا گیا اور رونے والا ہی تھا کہ میرے ساتھ پیچھے سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی آ پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوہریرہ! تجھے کیا ہوا۔“ میں نے کہا: میں عمر رضی اللہ عنہ سے ملا اور جو پیغام آپ نے مجھے دے کر بھیجا تھا پہنچایا۔ انہوں نے میری چھاتی کے بیچ میں ایسا مارا کہ میں سرین کے بل گر پڑا اور کہا لوٹ جا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا: ”تو نے ایسا کیوں کیا؟“ انہوں نے عرض کیا: ”یا رسول اللہ! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ ابوہریرہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جوتے دے کر بھیجا تھا کہ جو شخص ملے اور وہ گواہی دیتا ہو لا الہ الا اللہ کی دل سے یقین رکھ کر تو خوشخبری دو اس کو جنت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں ایسا نہ کیجئیے کیونکہ میں ڈرتا ہوں، لوگ اس پر تکیہ کر بیٹھیں گے ان کو عمل کرنے دیجئیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا ان کو عمل کرنے دو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (14843)»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا معاذ بن جبل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے تھے سواری پر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے معاذ!“، انہوں نے کہا، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور فرمانبردار ہوں آپ کا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے معاذ!“ انہوں نے کہا: حاضر ہوں یا رسول اللہ اور فرمانبردار ہوں آپ کا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے معاذ!“ انہوں نے کہا: حاضر ہوں یا رسول اللہ اور فرمانبردار ہوں آپ کا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بندہ گواہی دے اس بات کی کہ سوائے اللہ کے کوئی سچا معبود نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور رسول ہیں تو اللہ حرام کرے گا اس کو جہنم پر۔“ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! میں اس کی لوگوں کو خبر کر دوں وہ خوش ہو جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تب وہ تکیہ کر لیں گے اس پر۔“ پھر سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے گناہ سے بچنے کے لیے مرتے وقت یہ حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى العلم من خص بالعلم قوما دون قوم كراهية ان لا يفهموا برقم (128) انظر ((التحفة)) برقم (1363)»
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے حدیث بیان کی محمود بن ربیع نے، انہوں نے سنا عتبان بن مالک سے، محمود نے کہا کہ میں مدینہ میں آیا تو عتبان سے ملا اور میں نے کہا: ایک حدیث ہے جو مجھے پہنچی ہے تم سے (تو بیان کرو اس کو) عتبان نے کہا: میری نگاہ میں فتور ہو گیا (دوسری روایت میں کہ وہ اندھے ہو گئے اور شاید ضعف بصارت مراد ہو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہلا بھیجا کہ میں چاہتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے مکان پر تشریف لا کر کسی جگہ نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کو مصلیٰ بنا لوں (یعنی ہمیشہ وہیں نماز پڑھا کروں۔ اور یہ درخواست اس لئے کہ آنکھ میں فتور ہو جانے کی وجہ سے مسجد نبوی میں ان کا آنا دشوار تھا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور جن کو اللہ نے چاہا اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم میں سے ساتھ لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اندر آئے اور نماز پڑھنے لگے اور آپ کے اصحاب آپس میں باتیں کر رہے تھے (منافقوں کا ذکر چھڑ گیا تو ان کا حال بیان کرنے لگے اور ان کی بری باتیں اور بری عادتیں ذکر کرتے تھے) پھر انہوں نے بڑا منافق مالک بن دخشم کو کہا اور چاہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لئے بددعا کریں وہ مر جائے اور اس پر کوئی آفت اترے (تو معلوم ہوا کہ بدکاروں کے تباہ ہونے کی آرزو کرنا برا نہیں) اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا: ”کیا وہ (یعنی مالک بن دخشم) اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ سوا اللہ کے کوئی سچا معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔“ صحابہ نے عرض کیا: وہ تو اس بات کو زبان سے کہتا ہے لیکن دل میں اس کے یقین نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو گواہی دے لا الہ الا اللہ اور محمد رسول اللہ کی پھر وہ جہنم میں نہ جائے گا یا اس کو انگارے نہ کھائیں گے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ حدیث مجھ کو بہت اچھی معلوم ہوئی تو میں نے اپنے بیٹے سے کہا اس کو لکھ لے، اس نے لکھ لیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى الصلاة، باب: اذا دخل بيتا يصلي حيث شاء، او حيث امر، ولا يتجسس برقم (424) وفي باب: فى المساجد فى البيوت برقم (425) وفي الجماعة والامامة، باب: الرخصة فى المطر والعلة ان يصلى فى رحله برقم (667) وفى باب: زار الامام قـومـا فـامهم برقم (686) وفى كتاب: صفة الصلاة، باب: يسلم حين يسلم الامام مختصراً برقم (838) وفي باب: من لم يرد السلام على الامام، باب: يسلم حين يسلم الامام مختصراً برقم (838) وفي باب: من لم يرد الاسلام على الامام، واكتفى بتسليم الصلاة برقم (840) وفي التطوع، باب: صلاة النوافل جماعة برقم (1186) مطولا وفي المغازي، باب: شهود الملائكة بدرا برقم (4009) مطولا وفى الاطعمة، باب: الخزيرة برقم (5401) وفي الرقاق، باب: العمل الذى يبتغي به وجه الله مختصراً برقم (6423) وفى استتابة المرتدين والمعائدين، مختصرا برقم (6938) والمولف (مسلم) فى ((صحيحه)) فى المساجد ومواضع الصلاة، باب: الرخصة فى التخلف عن الجماعة لعذر برقم (1494) وبرقم (1595 و 1496) والنسائي فى ((المجتبى من السنن)) فى المامة، باب: امامة الاعمى 80/2 وفي السهود، باب: تسليم الماموم حين يسلم الامام 64/3-65 وابن ماجه فى ((سننه)) فى المساجد والجماعات، باب: المساجد فى الدور مطولا برقم (754) انظر ((تحفة الاشراف)) برقم (9750)»
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حدیث بیان کی مجھ سے عتبان بن مالک نے وہ اندھے ہو گئے تھے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہلا بھیجا کہ میرے مکان پر تشریف لائیے اور مسجد کی ایک جگہ مقرر کر دیجئیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور لوگ آئے مگر ایک شخص غائب تھا، جس کو مالک بن دخشم کہتے تھے پھر بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے اوپر گزری۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (148)»
|