´نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان`
سیدنا یزید بن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو ایسے دو آدمیوں پر نظر پڑی جنہوں نے نماز (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ) نہیں پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو اپنے پاس بلوایا۔ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کئے گئے تو (خوف کے مارے) ان کے شانے کانپ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ” تمہیں ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا؟ “ دونوں نے عرض کیا ہم اپنے گھروں پر نماز پڑھ چکے ہیں۔ فرمایا ” ایسا مت کیا کرو۔ اگر تم اپنے گھروں پر نماز پڑھ چکے ہو پھر تم امام کو پا لو اور امام نے ابھی نماز نہ پڑھی ہو تو اس کے ساتھ تم نماز پڑھو، یہ تمہارے لئے نفل ہو جائے گی۔ “
اسے احمد نے روایت کیا ہے۔ متن حدیث کے الفاظ بھی اسی کے ہیں۔ اس کے علاوہ تینوں یعنی ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ ترمذی اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 319»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب فيمن صلي في منزله ثم أدرك...، حديث:575، والترمذي، الصلاة، حديث:219، والنسائي، الإمامة، حديث:859، وابن حبان (الإحسان):3 /50، حديث:1563.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص پہلے نماز پڑھ چکا ہو اور پھر جماعت کے ساتھ شامل ہونے کا موقع بھی میسر آجائے تو اسے جماعت کے ساتھ شامل ہونا چاہیے‘ خواہ کوئی نماز ہو۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے۔
اس کے برعکس امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک صرف ظہر اور عشاء دو نمازوں میں ایسا کر سکتا ہے باقی میں نہیں‘ لیکن جب دوبارہ نماز پڑھنے کی دلیل یہی حدیث ہے تو پھر باقی نمازیں دوبارہ کیوں نہیں پڑھ سکتا؟ اس لیے امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہی درست ہے۔
راویٔ حدیث: «حضرت یزید بن اسود رضی اللہ عنہ» ان کی کنیت ابوجابر ہے۔
سوائی عامری ہیں۔
ان کے قبیلے کے قریش سے حلیفانہ تعلقات تھے۔
مشہور صحابی ہیں۔
طائف میں فروکش ہوئے۔
ان سے صرف یہی ایک حدیث مروی ہے۔
اسے ان کے بیٹے جابر رحمہ اللہ نے ان سے روایت کیا ہے۔