الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


بلوغ المرام
كتاب الصلاة
نماز کے احکام
10. باب صلاة الجماعة والإمامة
10. نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان
حدیث نمبر: 319
وعن يزيد بن الأسود رضي الله عنه أنه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم صلاة الصبح فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا هو برجلين لم يصليا فدعا بهما فجيء بهما ترعد فرئصهما فقال لهما: «‏‏‏‏ما منعكما أن تصليا معنا؟» ‏‏‏‏ قالا: قد صلينا في رحالنا قال: «‏‏‏‏فلا تفعلا إذا صليتما في رحالكما ثم أدركتما الإمام ولم يصل فصليا معه فإنها لكما نافلة» ‏‏‏‏ رواه أحمد واللفظ له والثلاثة وصححه الترمذي وابن حبان.
سیدنا یزید بن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو ایسے دو آدمیوں پر نظر پڑی جنہوں نے نماز (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ) نہیں پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو اپنے پاس بلوایا۔ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کئے گئے تو (خوف کے مارے) ان کے شانے کانپ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا تمہیں ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا؟ دونوں نے عرض کیا ہم اپنے گھروں پر نماز پڑھ چکے ہیں۔ فرمایا ایسا مت کیا کرو۔ اگر تم اپنے گھروں پر نماز پڑھ چکے ہو پھر تم امام کو پا لو اور امام نے ابھی نماز نہ پڑھی ہو تو اس کے ساتھ تم نماز پڑھو، یہ تمہارے لئے نفل ہو جائے گی۔
اسے احمد نے روایت کیا ہے۔ متن حدیث کے الفاظ بھی اسی کے ہیں۔ اس کے علاوہ تینوں یعنی ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ ترمذی اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 319]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب فيمن صلي في منزله ثم أدرك...، حديث:575، والترمذي، الصلاة، حديث:219، والنسائي، الإمامة، حديث:859، وابن حبان (الإحسان):3 /50، حديث:1563.»

   سنن النسائى الصغرىإذا صليتما في رحالكما ثم أتيتما مسجد جماعة فصليا معهم فإنها لكما نافلة
   جامع الترمذيإذا صليتما في رحالكما ثم أتيتما مسجد جماعة فصليا معهم فإنها لكما نافلة
   سنن أبي داودإذا صلى أحدكم في رحله ثم أدرك الإمام ولم يصل فليصل معه فإنها له نافلة
   المعجم الصغير للطبرانيإذا صليتما في رحالكما ثم أدركتما الصلاة فصليا تكون لكما نافلة استغفر لي يا رسول الله فقال اللهم اغفر له
   بلوغ المرام ما منعكما أن تصليا معنا ؟

بلوغ المرام کی حدیث نمبر 319 کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 319  
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب فيمن صلي في منزله ثم أدرك...، حديث:575، والترمذي، الصلاة، حديث:219، والنسائي، الإمامة، حديث:859، وابن حبان (الإحسان):3 /50، حديث:1563.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کوئی شخص پہلے نماز پڑھ چکا ہو اور پھر جماعت کے ساتھ شامل ہونے کا موقع بھی میسر آجائے تو اسے جماعت کے ساتھ شامل ہونا چاہیے‘ خواہ کوئی نماز ہو۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے۔
اس کے برعکس امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک صرف ظہر اور عشاء دو نمازوں میں ایسا کر سکتا ہے باقی میں نہیں‘ لیکن جب دوبارہ نماز پڑھنے کی دلیل یہی حدیث ہے تو پھر باقی نمازیں دوبارہ کیوں نہیں پڑھ سکتا؟ اس لیے امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہی درست ہے۔
راویٔ حدیث:
«حضرت یزید بن اسود رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کی کنیت ابوجابر ہے۔
سوائی عامری ہیں۔
ان کے قبیلے کے قریش سے حلیفانہ تعلقات تھے۔
مشہور صحابی ہیں۔
طائف میں فروکش ہوئے۔
ان سے صرف یہی ایک حدیث مروی ہے۔
اسے ان کے بیٹے جابر رحمہ اللہ نے ان سے روایت کیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 319   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 575  
´جو شخص اپنے گھر میں نماز پڑھ چکا ہو پھر وہ جماعت پائے تو ان کے ساتھ بھی نماز پڑھے۔`
یزید بن الاسودخزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، وہ ایک جوان لڑکے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو دیکھا کہ مسجد کے کونے میں دو آدمی ہیں جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے، تو آپ نے دونوں کو بلوایا، انہیں لایا گیا، خوف کی وجہ سے ان پر کپکپی طاری تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں سے پوچھا: تم نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟، تو ان دونوں نے کہا: ہم اپنے گھروں میں نماز پڑھ چکے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، جب تم میں سے کوئی شخص اپنے گھر میں نماز پڑھ لے پھر امام کو اس حال میں پائے کہ اس نے نماز نہ پڑھی ہو تو اس کے ساتھ (بھی) نماز پڑھے، یہ اس کے لیے نفل ہو جائے گی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 575]
575۔ اردو حاشیہ:
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باوجود یہ کہ ازحد متواضع تھے انتہائی بارعب و باہیبت بھی تھے۔ اور اس کی واحد وجہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا تقویٰ اور اس کی خشیت تھی۔
➋ جس نے اکیلے نماز پڑھی ہو اور اس کو جماعت مل جائے، تو وہ امام کے ساتھ مل کر دوبارہ نماز پڑھے۔
➌ خواہ نماز کوئی سی ہو، ظاہر الفاظ حدیث سے اس کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔
➍ معلوم ہوا کہ شرعی سبب کے باعث فجر اور عصر کے بعد نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
➎ اس میں یہ بھی ہے کہ اکیلے کی نماز ہو جاتی ہے اگرچہ نماز سے پڑھنا ضروری ہے۔
➏ یہ بھی ثابت ہوا کہ پہلی نماز فرض اور دوسری نفل ہو گی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 575   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 859  
´تنہا نماز پڑھنے والے کا فجر کی نماز جماعت کے ساتھ دہرانے کا بیان۔`
یزید بن اسود عامری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں مسجد خیف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ فجر کی نماز میں موجود تھا، جب آپ اپنی نماز پوری کر چکے تو آپ نے دیکھا کہ لوگوں کے آخر میں دو آدمی ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھی ہے، آپ نے فرمایا: ان دونوں کو میرے پاس لاؤ، چنانچہ ان دونوں کو لایا گیا، ان کے مونڈھے (گھبراہٹ سے) کانپ رہے تھے وہ گھبرائے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم دونوں نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟ تو ان دونوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ چکے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، جب تم اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ چکو، پھر مسجد میں آؤ جہاں جماعت ہو رہی ہو تو تم ان کے ساتھ دوبارہ نماز پڑھ لیا کرو، یہ تمہارے لیے نفل (سنت) ہو جائے گی۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 859]
859 ۔ اردو حاشیہ:
➊ مسجد خیف منیٰ میں ہے اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ ہے۔ منسوخ ہونے کا احتمال نہیں۔
کانپ رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں قدرتی طور پر رعب اور ہیبت تھی۔ جو نیا آدمی آپ کو دیکھتا تھا یا جو کبھی کبھار دیکھتا تھا، مرعوب ہو جاتا تھا۔ انہیں تو بلایا گیا تھا بلکہ پکڑ کر لایا گیا تھا، لہٰذا مرعوب ہونے کے علاوہ ان کا خوف زدہ ہونا قرین قیاس تھا۔
➌ اس روایت میں صریح طور پر فجر کی نماز کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اکیلا رہنے والا جماعت پائے تو دوبارہ پڑھے، لہٰذا اس صریح روایت کو چھوڑ کر ایک عام روایت سے استدلال کرنا خلاف انصاف ہے۔
نفل ہو جائے گی۔ کون سی؟ اسی میں اختلاف ہے، اسی لیے محققین نے کہا: یہ اللہ کے سپرد ہے جسے چاہے فرض بنائے جسے چاہے نفل۔ لیکن ظاہر ہے کہ پہلی نماز جب پڑھی تھی تو وہ فرض تھی اور فرض ہی کی نیت سے پڑھی تھی، اس لیے دوسری نماز ہی نفل ہونی چاہیے۔ احادیث کی روشنی میں اسی موقف کی تائید ہوتی ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 859   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 219  
´آدمی تنہا نماز پڑھ لے پھر جماعت پا لے تو کیا کرے؟`
یزید بن اسود عامری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع میں شریک رہا۔ میں نے آپ کے ساتھ مسجد خیف میں فجر پڑھی، جب آپ نے نماز پوری کر لی اور ہماری طرف مڑے تو کیا دیکھتے ہیں کہ لوگوں کے آخر میں (سب سے پیچھے) دو آدمی ہیں جنہوں نے آپ کے ساتھ نماز نہیں پڑھی۔ آپ نے فرمایا: انہیں میرے پاس لاؤ، وہ لائے گئے، ان کے مونڈھے ڈر سے پھڑک رہے تھے۔ آپ نے پوچھا: تم دونوں نے ہمارے ساتھ نماز کیوں نہیں پڑھی؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم نے اپنے ڈیروں میں نماز پڑھ لی تھی۔ آپ نے فرمایا: ایس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 219]
اردو حاشہ:
1؎:
بعض لوگوں نے اسے ظہر،
اور عشاء کے ساتھ خاص کیا ہے وہ کہتے ہیں فجر اور عصر کے بعد نفل پڑھنا درست نہیں اور مغرب دوبارہ پڑھنے سے وہ جفت ہو جائے گی،
لیکن یہ صحیح نہیں کیونکہ یہ حکم عام ہے ساری نمازیں اس میں داخل ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 219