جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کو فتح مکہ کے دن لایا گیا، سفیدی میں ان کا سر اور ڈاڑھی دونوں «ثغامہ» کی طرح سفید تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو کسی اور رنگ سے بدل لو، لیکن کالے رنگ سے دور رہنا“۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5079]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «صحیح مسلم/اللباس 24 (2102)، سنن ابی داود/الترجل 18 (4204)، (تحفة الأشراف: 2807)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/اللباس 33 (3624)، مسند احمد (3/306، 322، 338) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «ثغامہ» ایک گھاس ہے جس کے پھل اور پھول سب سفید ہوتے ہیں۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5079
اردو حاشہ: (1) ثغامہ ایک پودا ہے جو پہاڑ کی چوٹی پراگتا ہے۔ اس کو سفید پھل اور پھول لگتے ہیں۔ جب وہ خشک ہوجاتا ہے تو اس کی سفیدی بڑھ جاتی ہے۔ اور پھولوں کی کثرت کی بنا پر دور سے درخت بھی سفید ہی نظر آتا ہے۔ (2)”پرہیز کرنا“ جب بوڑھے شخص کو جس سے دھوکے کا خطرہ نہیں، سیاہ رنگ منع ہے تو جس شخص میں دھوکے کا امکان ہے، اسے کیسے اس کی اجازت ہوسکتی ہے۔ (3)”ابوقحافہ“ حضرت ابوبکر صدیق کے والد گرامی تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5079
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه سيد بديع الدين شاه راشدي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 5508
´ سیاہ رنگ کا خصاب` «. . . عن جابر، قال: " اتي بابي قحافة او جاء عام الفتح او يوم الفتح وراسه ولحيته مثل الثغام او الثغامة، فامر او فامر به إلى نسائه، قال: غيروا هذا بشيء .» ”سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، ابوقحافہ جس سال مکہ فتح ہوا آئے ان کا سر اور ان کی داڑھی ثغامہ کی طرح سفید تھی (ثغامہ ایک گھاس ہے سفید) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی عورتوں کو حکم دیا کہ بدل دو اس سفیدی کو کسی چیز سے۔“[صحيح مسلم/كِتَاب اللِّبَاسِ وَالزِّينَةِ: 5508]
فوائد و مسائل: نسائی، ابوداود اور ابن ماجہ میں یہ لفظ ہیں کہ کالے رنگ سے اس کو دور رکھو۔ یہاں «سواد» سے اجتناب اور پرہیز کا حکم ہے۔ اور امر وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ پس اس کا خلاف ممنوع اور حرام ہوا۔ «قال النووي فى شرح مسلم تحت الحديث: ويحرم خضابه بالسواد على الأصح. وقيل: يكره كراهة تنزيه، والمختار: التحريم لقوله صلى الله عليه وسلم: واجتنبوا السواد الخ وقال الحافظ ابن حجر في: فتح الباري ثم إن المأذون فيه مقيد بغير السواد لما أخرجه مسلم من حديث جابر أنه صلى الله عليه وسلم قال غيروه وجنبوه السواد۔ الخ وقال السندي فى حاشية ابن ماجه وفيه ان الحضاب بالسواد حرام او مكروه۔ وفي تحفة الاحوذي فقوله صلى الله عليه وسلم: واجتنبوا السواد دليل واضح على النهي عن الخضاب بالسواد» یعنی امام نووی شرح مسلم میں اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ صحیح بات یہ ہے کہ سیاہ رنگ کا خصاب حرام ہے۔ بعض نے کراہت تنزیہی کہا ہے۔ مگر مختار قول تحریم ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے۔ ◈ اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ جابر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث میں دلیل ہے کہ اجازت صرف اس خضاب کی ہے جو کالے رنگ کا نہ ہو۔ ◈ اور علامہ ابوالحسن سندھی حاشیہ ابن ماجہ میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں دلیل ہے کہ کالے رنگ کا خضاب حرام ہے یا مکروہ ہے۔ ◈ اسی طرح تحفۃ الاحوذی شرح جامع ترمذی میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کالے رنگ کے خضاب کی ممانعت پر کھلی دلیل ہے۔
الاھی عتاب بر سیاہ حضاب، حدیث/صفحہ نمبر: 5
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5245
´داڑھی کو زرد (پیلا) کرنے کا بیان۔` عبید کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو اپنی داڑھی پیلی کرتے دیکھا، تو ان سے اس کے بارے میں پوچھا؟ انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی داڑھی زرد (پیلی) کرتے ہوئے دیکھا ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5245]
اردو حاشہ: تفصیل کےلیے دیکھیے، احادیث:5086 تا 5089۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5245
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4204
´خضاب کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن (ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد) ابوقحافہ کو لایا گیا، ان کا سر اور ان کی داڑھی ثغامہ (نامی سفید رنگ کے پودے) کے مانند سفید تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے کسی چیز سے بدل دو اور سیاہی سے بچو۔“[سنن ابي داود/كتاب الترجل /حدیث: 4204]
فوائد ومسائل: سر یا داڑھی کے با لوں کو کالے رنگ کا خضاب لگانا ناجائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4204
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3624
´کالے خضاب کے استعمال کا بیان۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، اس وقت ان کے بال سفید گھاس کی طرح تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں ان کی کسی عورت کے پاس لے جاؤ کہ وہ انہیں بدل دے (یعنی خضاب لگا دے)، لیکن کالے خضاب سے انہیں بچاؤ“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3624]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) حضرت ابو قحافہ ؓ حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے والد محترم تھے۔ ان کا نام حضرت عثمان بن عامر ؓ تھا۔ فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے۔ حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں 14 ہجری میں 97 سال کی عمر میں فوت ہوئے۔
(2) خالص سیاہ رنگ کے خضاب سے پرہیز کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3624
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5509
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، حضرت ابو قحافہ رضی اللہ تعالی عنہ کو فتح مکہ کے دن لایا گیا، اس کا سر اور اس کی داڑھی ثغامہ کی طرح سفید تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سفیدی کو کسی رنگ سے بدل دو اور سیاہ رنگ سے اجتناب کرنا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5509]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت ابو قحافہ عثمان بن عامر تیمی رضی اللہ عنہ، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد گرامی ہیں، جو فتح مکہ کے موقع پر مسلمان ہوئے اور ثغام ایک بوٹی ہے، جس کے پھول انتہائی سفید ہوتے ہیں، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر بال بالکل سفید ہو گئے ہوں تو ان کو رنگنا بہتر ہے اور جن حدیثوں میں ممانعت آئی ہے، وہ اس صورت میں ہے، جب بال مکمل طور پر سفید نہ ہوں، یا ان کو سیاہ رنگ کیا جائے، کیونکہ سیاہ رنگ سے رنگنا آپﷺ نے صراحتا منع فرمایا ہے اور بعض صحابہ و تابعین سے جو سیاہ رنگ کا استعمال منقول ہے، وہ مہندی کے ساتھ ملا کر ہے، یا جنگ کی حالت میں ہے اور اصل چیز سنت ہے، اس کے مقابلہ میں کسی کا فعل حجت نہیں ہے۔