´اقسام دیت کا بیان`
یہ روایت بھی انہی (عمرو بن شعیب رحمہ اللہ) سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” ذمیوں کی دیت مسلمانوں کی دیت کا نصف ہے۔ “ اسے احمد اور چاروں نے روایت کیا ہے اور ابوداؤد کے الفاظ اس طرح ہیں کہ ” ذمی کی دیت آزاد کے مقابلہ میں آدھی ہے۔ “ اور نسائی کی روایت میں ہے کہ ” عورت کی دیت مرد کی دیت کی مانند ہے۔ یہاں تک کہ دونوں کی دیت تہائی تک پہنچے۔ “ اسے ابن خزیمہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1016»
تخریج: «أخرجه أبوداود، الديات، باب في دية الذمي، حديث:4583، والنسائي، القسامة، حديث:4809، وابن ماجه، الديات، حديث:2644، والترمذي، الديات، حديث:1413، وأحمد:2 /180، 215، وابن خزيمة.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ذمی کی دیت مسلمان کی دیت سے آدھی ہے۔
ذمی اس کافر کو کہتے ہیں جو کسی معاہدے کی بنا پر یا جزیہ دے کر اسلامی ریاست میں بطور رعایا سکونت پذیر ہو۔
2.عورت کی دیت زخموں میں مرد کی دیت کے برابرہے بشرطیکہ اس زخم کی دیت مرد کی پوری دیت کے ثلث
(تہائی) سے اوپر نہ ہو اگر ثلث سے اوپر ہوگی تو مرد کی دیت سے نصف رہ جائے گی۔
اسے ایک مثال سے سمجھیے کہ ایک خاتون کی تین انگلیاں کٹ گئیں‘ ان کی دیت دس اونٹ فی انگلی کے حساب سے تیس اونٹ ہوگی اور یہاں تک وہ دیت میں مرد کے برابر ہوگی لیکن جب اس خاتون کی چار انگلیاں کٹ جائیں اور مرد کی بھی چار کٹ جائیں تو مرد کی دیت چالیس اونٹ ہو گی اور عورت کی دیت بیس اونٹ کیونکہ چالیس‘ سو کے ثلث
(تہائی) سے اوپر ہے‘ اس لیے عورت کی دیت مرد کی دیت سے نصف رہ جائے گی۔
جمہور علماء کا یہی مسلک ہے مگر احناف اور شوافع قتل اور زخم ہر دو صورتوں میں عورت کی آدھی دیت ہی کے قائل ہیں۔