وائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص آیا، اس کی گردن میں رسی پڑی تھی، اور بولا: اللہ کے رسول! یہ اور میرا بھائی دونوں ایک کنویں پر تھے، اسے کھود رہے تھے، اتنے میں اس نے کدال اٹھائی اور اپنے ساتھی یعنی میرے بھائی کے سر پر ماری، جس سے وہ مر گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے معاف کر دو“، اس نے انکار کیا، اور کہا: اللہ کے نبی! یہ اور میرا بھائی ایک کنویں پر تھے، اسے کھود رہے تھے، پھر اس نے کدال اٹھائی، اور اپنے ساتھی کے سر پر ماری، جس سے وہ مر گیا، آپ نے فرمایا: ”اسے معاف کر دو“، تو اس نے انکار کیا، پھر وہ کھڑا ہوا اور بولا: اللہ کے رسول! یہ اور میرا بھائی ایک کنویں پر تھے، اسے کھود رہے تھے، اس نے کدال اٹھائی، اور اپنے ساتھی کے سر پر ماری، جس سے وہ مر گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے معاف کر دو“، اس نے انکار کیا، آپ نے فرمایا: ”جاؤ، اگر تم نے اسے قتل کیا تو تم بھی اسی جیسے ہو گے“۱؎، وہ اسے لے کر نکل گیا، جب دور نکل گیا تو ہم نے اسے پکارا، کیا تم نہیں سن رہے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرما رہے ہیں؟ وہ واپس آیا تو آپ نے فرمایا: ”اگر تم نے اسے قتل کیا تو تم بھی اسی جیسے ہو گے“، اس نے کہا: ہاں، میں اسے معاف کرتا ہوں، چنانچہ وہ نکلا، وہ اپنی رسی گھسیٹ رہا تھا یہاں تک کہ ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4730]
وضاحت: ۱؎: یعنی: کسی جان کو مارنے میں تم اور وہ ایک ہی طرح ہو گے، تمہاری اس پر کوئی فضیلت باقی نہیں رہ جائے گی، اور اگر معاف کر دو گے تو فضل و احسان میں تم کو اس پر فضیلت حاصل ہو جائے گی، خاص طور پر جب اس نے یہ قتل جان بوجھ کر نہیں کیا ہے۔
جاء رجل يقود آخر بنسعة فقال يا رسول الله هذا قتل أخي فقال رسول الله أقتلته فقال إنه لو لم يعترف أقمت عليه البينة قال نعم قتلته قال كيف قتلته قال كنت أنا وهو نختبط من شجرة فسبني فأغضبني فضربته بالفأس على قرنه فقتلته فقال له الن
أتعفو قال لا قال أفتأخذ الدية قال لا قال أفتقتل قال نعم قال اذهب به فلما ولى قال أتعفو قال لا قال أفتأخذ الدية قال لا قال أفتقتل قال نعم قال اذهب به فلما كان في الرابعة قال أما إنك إن عفوت عنه يبوء بإثمه وإثم صاحبه قال فعفا عنه
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4730
اردو حاشہ: (1)”تو اس جیسا ہی ہوگا“ ظاہر مفہوم تو یہ ہے کہ اگر تو نے اسے قتل کر دیا تو تو بھی ناجائز قاتل ہوگا لیکن یہ مفہوم یہاں مراد نہیں کیونکہ قاتل کو قصاص میں قتل کرنا جرم نہیں۔ باقی رہا قاتل کا یہ کہنا کہ میری نیت قتل کرنے کی نہیں تھی۔ اس سے قاتل کو معاف کرنا لازم نہیں آتا کیونکہ نیت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ ظاہراً صورت قتل کی ہی تھی۔ آپ کے فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ تجھے اس پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوگی۔ اس نے بھی غصے میں قتل کیا، تو نے بھی۔ اگرچہ اس نے ناجائز قتل کیا اور تو جائز کرے گا مگر فضیلت تبھی حاصل ہوگی جب تو معاف کر دے۔ دنیا میں بھی تعریف ہوگی، آخرت میں بھی اجر عظیم حاصل ہوگا۔ آپ نے اس جیسا ذو معنیٰ جملہ بول کر اس کے معافی کے جذبات کو ابھارا اور اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ﷺ (2) معلوم ہوا قصاص کی بجائے معافی بہتر ہے خصوصاً جب کہ قاتل یہ عذر بھی پیش کرتا ہو کہ میری نیت قتل کی نہیں تھی، اگرچہ ایسی صورت میں معافی ضروری نہیں تبھی تو آپ نے قاتل مقتول کے ولی کے سپرد کر دیا تھا کہ وہ اسے قتل کر سکتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، فوائد ومسائل حدیث: 4726)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4730
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4727
´قصاص کا بیان۔` وائل حضرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس قاتل کو جس نے قتل کیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، اسے مقتول کا ولی پکڑ کر لایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم معاف کرو گے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا قتل کرو گے؟“ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ”جاؤ (قتل کرو)“، جب وہ (قتل کرنے) چلا تو آپ نے اسے بلا کر کہا: ”کیا تم معاف کرو گے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا دیت لو گے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4727]
اردو حاشہ: (1) جج اور حاکم کے لیے مشروع اور جائز ہے کہ وہ مقتول کے ورثاء کو، معاف کرنے کی ترغیب دیں، لیکن انھیں بذات خود کسی مجرم اور قاتل کو معاف کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر حاکم وقت یا فیصلہ کرنے والا جج از خود کسی قاتل کو، جرم ثابت ہونے کے باوجود معاف کرے گا تو یہ صریح ظلم اور عدل وانصاف کا خون کرنے کے مترادف ہوگا۔ ہمارے ہاں جو یہ رائج ہے کہ تمام قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد اعلیٰ عدالتوں سے سزائے موت پانے والے مجرموں کو معاف کرنے کا اختیار ”جناب صدر“ کے پاس ہے، یہ قطعاً غلط اور ناجائز ہے۔ (2) مجرم کو باندھنا جائز ہے بالخصوص جب اس کے فرار ہونے اور بھاگ جانے کا اندیشہ ہو۔ (3)”تیرے اور مقتول کے گناہ“ یعنی اس معافی کے بدلے میں تیرے اور مقتول کے گناہ معاف ہو جائیں گے اور تم دونوں جنتی بن جاؤ گے۔ مقتول اس لیے کہ وہ ظلماً مارا گیا اور مقتول کا ولی اس لیے کہ اس نے قاتل کی جان بخش دی۔ گویا ایک شخص کو زندگی دی۔ اور یہ بہت بڑی نیکی ہے۔ یہ معنیٰ بھی ہو سکتے ہیں کہ قاتل کو دوگناہ ہوں گے۔ مقتول کو قتل کرنے کا اور تجھے (مقتول کے اولیاء کو) صدمہ اور نقصان پہنچانے کا، لیکن پہلے معنیٰ زیادہ صحیح معلوم ہوتے ہیں۔ واللہ أعلم! (4) مقتول کے ورثاء کو تین باتوں میں سے صرف ایک کا اختیار ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ قاتل کو معاف کر دیں، یہ سب سے بہتر، افضل اور اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ اگر معاف نہیں کرتے تو پھر دیت، یعنی خون بہا لے لیں اور اسے چھوڑ دیں۔ یہ بھی بہتر ہے لیکن پہلے سے کم درجے کی نیکی ہے۔ اور تیسری اور آخری صورت قصاص میں قتل کرنا ہے۔ اس سے جس قدر بچ جائیں اتنا ہی بہتر ہے۔ اگر پہلی دونوں باتوں پر وہ آمادہ نہ ہوں تو پھر قاتل کو قصاص میں قتل کیا جائے گا اور بس۔ (5) رسول اللہ ﷺ کا مقتول کے وارث کو بار بار معاف کرنے کی تلقین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ معافی پسندیدہ اور محبوب عمل ہے، نیز رسول اللہ ﷺ کے بار بار معافی کا شوق دلانے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت اسلامیہ میں معاف کر دینا قصاص لینے سے بہتر ہے۔ اور مقتول کے اولیاء کو معافی کی رغبت دلانی چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4727
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4728
´اس سلسلہ میں علقمہ بن وائل کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا ذکر۔` وائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب قاتل کو لایا گیا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا، مقتول کا ولی اسے رسی میں کھینچ کر لا رہا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کے ولی سے فرمایا: ”کیا تم معاف کرو گے؟“ وہ بولا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا دیت لو گے؟“ وہ بولا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو کیا تم قتل کرو گے؟“ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ”لے جاؤ اسے“، چنانچہ جب وہ لے کر چلا اور رخ پھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4728]
اردو حاشہ: ”اپنے اور مقتول کے گناہوں“ یعنی معافی کی صورت میں مقتول کے گناہ بھی اس کے گلے میں ڈال دیے جائیں گے اور وہ جنتی ہو جائے گا، بخلاف اس سے قصاص لینے کے کہ اس طرح قاتل کا گناہ قتل معاف ہو جائے گا جب کہ مقتول کے گناہ معاف ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4728
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5417
´حاکم فریقین میں کسی کو معاف کر دینے کا مشورہ دے سکتا ہے۔` وائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھا جب قاتل کو مقتول کا ولی ایک رسی میں باندھ کر گھسیٹتا ہوا لایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کے ولی سے فرمایا: ”کیا تم معاف کر دو گے؟“ وہ بولا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا دیت لو گے؟“ وہ بولا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اسے قتل کرو گے؟“ کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے لے جاؤ“(اور قتل کرو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5417]
اردو حاشہ: جو معاملات قابل معافی ہوں، ایسے معاملات میں معافی اور صلح کی ترغیب اچھی بات ہے کیوں کہ معافی یا صلح کی صورت میں آپس میں دشمنی ختم ہو جاتی ہے۔ محبت بڑھتی ہے۔ معاشرہ پر سکون ہو جاتا ہے۔ بدلہ لینا اگرچہ جائز ہے مگر بسا اوقات بدلہ لینے کی صورت میں اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ ناراضی اور دشمنی پیدا ہوتی ہے، اس لیے شریعت نے معافی کو بدلہ لینے سے افضل قرار دیا ہے بشرطیکہ فریق ثانی عجز کے ساتھ اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور خلوص دل سے معافی طلب کرے۔ البتہ اگر وہ تکبر اور غرور کا مظاہرہ کرے تو بدلہ لینا افضل ہے تا کہ اس متکبر کا غرور ٹوٹے۔ حاکم کے لیے مناسب ہے کہ مذکورہ بالا قسم کے مقدمات میں مصالحت کی کوشش کرے۔ اگر نہ ہو سکے تو حق کا فیصلہ کرے۔ البتہ بعض معاشرتی جرائم قابل معافی نہیں ہوتے، مثلاًَ: چوری، زنا وغیرہ ایسے مقدمات عدالت تک پہنچیں تو فیصلہ لازم ہے۔ قتل پہلی قسم میں داخل ہے۔ (روایت سے متعلقہ مزید تفصیلات کے لیے دیکھے، احادیث: 4726، 4735)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5417
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4499
´امام (حاکم) خون معاف کر دینے کا حکم دے تو کیسا ہے؟` وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ اتنے میں ایک قاتل لایا گیا، اس کی گردن میں تسمہ تھا آپ نے مقتول کے وارث کو بلوایا، اور اس سے پوچھا: ”کیا تم معاف کرو گے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کیا دیت لو گے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کیا تم قتل کرو گے؟“ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا لے جاؤ اسے“ چنانچہ جب وہ (اسے لے کر) چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”کیا تم اسے معاف کرو گے؟“ اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4499]
فوائد ومسائل: 1: اگر مجرم کے بھاگ جانے کا اندیشہ ہو تو اس کو باندھنا جائز ہے۔
2: مقتول کے ولی کو تین باتوں میں سے صرف ایک اختیار ہے کہ معاف کردے یا دیت قبول کرلے قصاص لے۔
3: حاکم اور قاضی کو جائز ہے کہ معاف کرنھ کی ترغیب دے۔
4: اگر قاتل قصاص میں قتل کیا جائے تو امید ہے کہ یہ اس کے لئے کفارہ بن جائے گا، بصورت دیگر اس کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4499
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4387
علقمہ بن وائل اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو ایک تسمہ سے کھینچتے ہوئے لایا اور کہنے لگا، اے اللہ کے رسول! اس نے میرا بھائی قتل کر ڈالا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تو نے اسے قتل کیا ہے؟“ تو پہلے آدمی نے کہا اگر یہ اعتراف نہیں کرے گا تو میں اس کے خلاف شہادت پیش کروں گا، قاتل نے کہا، جی ہاں، میں نے اسے قتل کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں)[صحيح مسلم، حديث نمبر:4387]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) نسعة: چمڑے کا تسمہ۔ (2) نَختَبِط: ہم کیکر کے پتے جھاڑ رہے تھے۔ (3) قرن: سر کا کنارہ یا سر کی چوٹی۔ (4) بَاءَبِاِثمِه: اس کا گناہ اٹھایا یا اس کا گناہ لے کر لوٹا۔ فوائد ومسائل: إن قتله فهو مثله: یعنی اگر مقتول کے وارث نے قاتل کو کر دیا تو اس نے اس سے اپنا حق وصول کر لیا، اس نے اس پر کوئی برتری اور عفو کر کے فضل و احسان کا درجہ نہ پایا، اگر معاف کر دے گا تو دنیا میں قابل تعریف اور آخرت میں اجر جزیل کا حقدار ہو گا، لیکن آپﷺ نے ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں، جن کا معنی یہ بھی ہو سکتا ہے، دونوں برابر ہیں، دونوں نے غلط کام کیا ہے، کیونکہ آپ کا اصل مقصود یہ تھا کہ قاتل نے اشتعال میں آ کر جذبات کی رو میں بہ کر کلہاڑی مار دی، قتل کرنا مقصود نہ تھا تو گویا قاتل کو قتل کرنا موجودہ صورت میں اسی کی طرح جذبات کی رو میں بہنا اور اپنا غصہ نکالنا ہے۔ أَن يَّبُوأَ بِإِثْمِكَ وَ إِثْمِ صَاحِبِكَ: یعنی اگر تم معاف کر دو گے تو تمہارا یہ فعل تمہارے لیے اور تمہارے مقتول بھائی کے لیے کفارہ سیئات بنے گا، تمہارے معاصی معاف ہو جائیں گے یا قاتل تمہارے بھائی کے قتل کے سبب اور تمہیں اس کو قتل کر کے اذیت و تکلیف میں مبتلا کر کے گناہ کا حقدار ہو گیا ہے، اگر اسے قتل کر دو گے تو یہ چیز اس کے گناہ کا کفارہ بن جائے گی اور تمہیں کوئی اجر و ثواب حاصل نہیں ہو گا، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، اگر قاتل، قتل کا اعتراف و اقرار کرے تو پھر شہادت قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور احناف اور مالکیہ کے نزدیک قتل عمد کی صورت میں اصل سزا، قصاص ہے، دیت صرف اس صورت میں ہے جب قاتل دیت دینے پر رضامند ہو، لیکن شوافع اور حنابلہ کے نزدیک قصاص یا دیت لینے کا اختیار وارث مقتول کو حاصل ہے، اگر وہ دیت کو لینا پسند کرے تو قاضی قاتل کو دیت کی ادائیگی پر مجبور کرے گا، نسائی کی تفصیلی روایت میں ہے کہ آپ نے وارث سے پوچھا تھا، اس کو معاف کرتے ہو، اس نے کہا، نہیں، فرمایا: دیت کے لیے آمادہ ہو، اس نے کہا، نہیں، تب آپ نے پوچھا، قصاص لینا چاہتے ہو، اس نے کہا، ہاں، اس طرح دوسری احادیث سے ثابت ہوتا ہے، اصل اختیار وارث کو حاصل ہے، لیکن ظاہر ہے اس میں قاتل سے بھی پوچھا جائے گا، اگر اس کے پاس دیت دینے کا انتظام نہ ہو یا کسی سبب سے وہ ایسا نہ کرنا چاہے تو پھر جبر کرنا تو مشکل ہے اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ معاف کرنا اور قصاص لینے سے درگزر کرنا بہتر اور افضل ہے۔