سماک بن حرب نے علقمہ بن وائل سے حدیث بیان کی کہ ان کے والد نے انہیں حدیث سنائی، انہوں نے کہا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص دوسرے کو مینڈھی کی طرح بنی ہوئی چمڑے کی رسی سے کھینچتے ہوئے لایا اور کہا: اللہ کے رسول! اس نے میرے بھائی کو قتل کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کیا تم نے اسے قتل کیا ہے؟" تو اس (کھینچنے والے) نے کہا: اگر اس نے اعتراف نہ کیا تو میں اس کے خلاف شہادت پیش کروں گا۔ اس نے کہا: جی ہاں، میں نے اُسے قتل کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "تم نے اسے کیسے قتل کیا؟" اس نے کہا: میں اور وہ ایک درخت سے پتے چھاڑ رہے تھے، اس نے مجھے گالی دی اور غصہ دلایا تو میں نے کلہاڑی سے اس کے سر کی ایک جانب مارا اور اسے قتل کر دیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: "کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے جو تم اپنی طرف سے (بطور فدیہ) ادا کر سکو؟" اس نے کہا: میرے پاس تو اوڑھنے کی چادر اور کلہاڑی کے سوا اور کوئی مال نہیں ہے۔ آپ نے پوچھا: "تم سمجھتے ہو کہ تمہاری قوم (تمہاری طرف سے دیت ادا کر کے) تمہیں خرید لے گی؟" اس نے کہا: میں اپنی قوم کے نزدیک اس سے حقیر تر ہوں۔ آپ نے اس (ولی) کی طرف رسہ پھینکتے ہوئے فرمایا: "جسے ساتھ لائے تھے اسے پکڑ لو۔" وہ آدمی اسے لے کر چل پڑا۔ جب اس نے رخ پھیرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اس آدمی نے اسے قتل کر دیا تو وہ بھی اسی جیسا ہے۔" اس پر وہ شخص واپس ہوا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "اگر اس نے اسے قتل کر دیا تو وہ بھی اسی جیسا ہے" حالانکہ میں نے اسے آپ کے حکم سے پکڑا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرامای: "کیا تم نہیں چاہتے کہ وہ تمہارے اور تمہارے ساتھی (بھائی) دونوں کے گناہ کو (اپنے اوپر) لے کر لوٹے؟" اس نے کہا: اللہ کے نبی!۔۔ غالبا اس نے کہا۔۔ کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو یقینا وہ (قاتل) یہی کرے گا۔" کہا: اس پر اس نے رسہ پھینکا اور اس کا راستہ چھوڑ دیا
علقمہ بن وائل اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی دوسرے آدمی کو ایک تسمہ سے کھینچتے ہوئے لایا اور کہنے لگا، اے اللہ کے رسول! اس نے میرا بھائی قتل کر ڈالا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تو نے اسے قتل کیا ہے؟“ تو پہلے آدمی نے کہا اگر یہ اعتراف نہیں کرے گا تو میں اس کے خلاف شہادت پیش کروں گا، قاتل نے کہا، جی ہاں، میں نے اسے قتل کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تو نے اسے کیسے قتل کیا ہے؟“ اس نے کہا، میں اور وہ ایک درخت سے پتے جھاڑ رہے تھے تو اس نے مجھے گالی دے کر غضبناک کر دیا، (اشتعال میں آ کر) میں نے اس کے سر پر کلہاڑی مار دی اور اسے قتل کر ڈالا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”کیا تیرے پاس اپنی جان بچانے کے لیے کچھ دینے کے لیے موجود ہے؟“ اس نے کہا، میرے پاس میری لوئی اور کلہاڑی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تیری قوم تیرا فدیہ دینے کے لیے تیار ہو جائے گی؟“ اس نے کہا، میری قوم میں میری اتنی عزت و مقام نہیں ہے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا تسمہ مقتول کے وارث کی طرف پھینکا اور فرمایا: ”اپنے مجرم کو لے لو۔“ تو وہ آدمی اسے لے کر چل پڑا جب وہ پشت پھیر کر چل دیا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس نے اسے قتل کر دیا تو یہ بھی اس جیسا ہو گا۔“ وارث واپس لوٹ آیا اور کہنے لگا، اے اللہ کے رسول! مجھے خبر ملی ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، ”اگر اس نے قتل کر دیا تو یہ بھی اس جیسا ہے۔“ حالانکہ میں نے اسے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر پکڑا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم یہ نہیں چاہتے ہو کہ یہ تیرا اور تیرے ساتھی کا گناہ اٹھائے؟“ اس نے کہا، اے اللہ کے نبی! ایسے ہو گا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں، یہ ایسے ہی ہے۔“ تو اس نے اس کا تسمہ پھینک دیا اور اسے آزاد کر دیا۔
جاء رجل يقود آخر بنسعة فقال يا رسول الله هذا قتل أخي فقال رسول الله أقتلته فقال إنه لو لم يعترف أقمت عليه البينة قال نعم قتلته قال كيف قتلته قال كنت أنا وهو نختبط من شجرة فسبني فأغضبني فضربته بالفأس على قرنه فقتلته فقال له الن
أتعفو قال لا قال أفتأخذ الدية قال لا قال أفتقتل قال نعم قال اذهب به فلما ولى قال أتعفو قال لا قال أفتأخذ الدية قال لا قال أفتقتل قال نعم قال اذهب به فلما كان في الرابعة قال أما إنك إن عفوت عنه يبوء بإثمه وإثم صاحبه قال فعفا عنه
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4387
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: (1) نسعة: چمڑے کا تسمہ۔ (2) نَختَبِط: ہم کیکر کے پتے جھاڑ رہے تھے۔ (3) قرن: سر کا کنارہ یا سر کی چوٹی۔ (4) بَاءَبِاِثمِه: اس کا گناہ اٹھایا یا اس کا گناہ لے کر لوٹا۔ فوائد ومسائل: إن قتله فهو مثله: یعنی اگر مقتول کے وارث نے قاتل کو کر دیا تو اس نے اس سے اپنا حق وصول کر لیا، اس نے اس پر کوئی برتری اور عفو کر کے فضل و احسان کا درجہ نہ پایا، اگر معاف کر دے گا تو دنیا میں قابل تعریف اور آخرت میں اجر جزیل کا حقدار ہو گا، لیکن آپﷺ نے ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں، جن کا معنی یہ بھی ہو سکتا ہے، دونوں برابر ہیں، دونوں نے غلط کام کیا ہے، کیونکہ آپ کا اصل مقصود یہ تھا کہ قاتل نے اشتعال میں آ کر جذبات کی رو میں بہ کر کلہاڑی مار دی، قتل کرنا مقصود نہ تھا تو گویا قاتل کو قتل کرنا موجودہ صورت میں اسی کی طرح جذبات کی رو میں بہنا اور اپنا غصہ نکالنا ہے۔ أَن يَّبُوأَ بِإِثْمِكَ وَ إِثْمِ صَاحِبِكَ: یعنی اگر تم معاف کر دو گے تو تمہارا یہ فعل تمہارے لیے اور تمہارے مقتول بھائی کے لیے کفارہ سیئات بنے گا، تمہارے معاصی معاف ہو جائیں گے یا قاتل تمہارے بھائی کے قتل کے سبب اور تمہیں اس کو قتل کر کے اذیت و تکلیف میں مبتلا کر کے گناہ کا حقدار ہو گیا ہے، اگر اسے قتل کر دو گے تو یہ چیز اس کے گناہ کا کفارہ بن جائے گی اور تمہیں کوئی اجر و ثواب حاصل نہیں ہو گا، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے، اگر قاتل، قتل کا اعتراف و اقرار کرے تو پھر شہادت قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور احناف اور مالکیہ کے نزدیک قتل عمد کی صورت میں اصل سزا، قصاص ہے، دیت صرف اس صورت میں ہے جب قاتل دیت دینے پر رضامند ہو، لیکن شوافع اور حنابلہ کے نزدیک قصاص یا دیت لینے کا اختیار وارث مقتول کو حاصل ہے، اگر وہ دیت کو لینا پسند کرے تو قاضی قاتل کو دیت کی ادائیگی پر مجبور کرے گا، نسائی کی تفصیلی روایت میں ہے کہ آپ نے وارث سے پوچھا تھا، اس کو معاف کرتے ہو، اس نے کہا، نہیں، فرمایا: دیت کے لیے آمادہ ہو، اس نے کہا، نہیں، تب آپ نے پوچھا، قصاص لینا چاہتے ہو، اس نے کہا، ہاں، اس طرح دوسری احادیث سے ثابت ہوتا ہے، اصل اختیار وارث کو حاصل ہے، لیکن ظاہر ہے اس میں قاتل سے بھی پوچھا جائے گا، اگر اس کے پاس دیت دینے کا انتظام نہ ہو یا کسی سبب سے وہ ایسا نہ کرنا چاہے تو پھر جبر کرنا تو مشکل ہے اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ معاف کرنا اور قصاص لینے سے درگزر کرنا بہتر اور افضل ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4387
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4727
´قصاص کا بیان۔` وائل حضرمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس قاتل کو جس نے قتل کیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، اسے مقتول کا ولی پکڑ کر لایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم معاف کرو گے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا قتل کرو گے؟“ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ”جاؤ (قتل کرو)“، جب وہ (قتل کرنے) چلا تو آپ نے اسے بلا کر کہا: ”کیا تم معاف کرو گے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا دیت لو گے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4727]
اردو حاشہ: (1) جج اور حاکم کے لیے مشروع اور جائز ہے کہ وہ مقتول کے ورثاء کو، معاف کرنے کی ترغیب دیں، لیکن انھیں بذات خود کسی مجرم اور قاتل کو معاف کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر حاکم وقت یا فیصلہ کرنے والا جج از خود کسی قاتل کو، جرم ثابت ہونے کے باوجود معاف کرے گا تو یہ صریح ظلم اور عدل وانصاف کا خون کرنے کے مترادف ہوگا۔ ہمارے ہاں جو یہ رائج ہے کہ تمام قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد اعلیٰ عدالتوں سے سزائے موت پانے والے مجرموں کو معاف کرنے کا اختیار ”جناب صدر“ کے پاس ہے، یہ قطعاً غلط اور ناجائز ہے۔ (2) مجرم کو باندھنا جائز ہے بالخصوص جب اس کے فرار ہونے اور بھاگ جانے کا اندیشہ ہو۔ (3)”تیرے اور مقتول کے گناہ“ یعنی اس معافی کے بدلے میں تیرے اور مقتول کے گناہ معاف ہو جائیں گے اور تم دونوں جنتی بن جاؤ گے۔ مقتول اس لیے کہ وہ ظلماً مارا گیا اور مقتول کا ولی اس لیے کہ اس نے قاتل کی جان بخش دی۔ گویا ایک شخص کو زندگی دی۔ اور یہ بہت بڑی نیکی ہے۔ یہ معنیٰ بھی ہو سکتے ہیں کہ قاتل کو دوگناہ ہوں گے۔ مقتول کو قتل کرنے کا اور تجھے (مقتول کے اولیاء کو) صدمہ اور نقصان پہنچانے کا، لیکن پہلے معنیٰ زیادہ صحیح معلوم ہوتے ہیں۔ واللہ أعلم! (4) مقتول کے ورثاء کو تین باتوں میں سے صرف ایک کا اختیار ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ قاتل کو معاف کر دیں، یہ سب سے بہتر، افضل اور اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ اگر معاف نہیں کرتے تو پھر دیت، یعنی خون بہا لے لیں اور اسے چھوڑ دیں۔ یہ بھی بہتر ہے لیکن پہلے سے کم درجے کی نیکی ہے۔ اور تیسری اور آخری صورت قصاص میں قتل کرنا ہے۔ اس سے جس قدر بچ جائیں اتنا ہی بہتر ہے۔ اگر پہلی دونوں باتوں پر وہ آمادہ نہ ہوں تو پھر قاتل کو قصاص میں قتل کیا جائے گا اور بس۔ (5) رسول اللہ ﷺ کا مقتول کے وارث کو بار بار معاف کرنے کی تلقین کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ معافی پسندیدہ اور محبوب عمل ہے، نیز رسول اللہ ﷺ کے بار بار معافی کا شوق دلانے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شریعت اسلامیہ میں معاف کر دینا قصاص لینے سے بہتر ہے۔ اور مقتول کے اولیاء کو معافی کی رغبت دلانی چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4727
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4728
´اس سلسلہ میں علقمہ بن وائل کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا ذکر۔` وائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب قاتل کو لایا گیا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا، مقتول کا ولی اسے رسی میں کھینچ کر لا رہا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کے ولی سے فرمایا: ”کیا تم معاف کرو گے؟“ وہ بولا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا دیت لو گے؟“ وہ بولا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”تو کیا تم قتل کرو گے؟“ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ”لے جاؤ اسے“، چنانچہ جب وہ لے کر چلا اور رخ پھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4728]
اردو حاشہ: ”اپنے اور مقتول کے گناہوں“ یعنی معافی کی صورت میں مقتول کے گناہ بھی اس کے گلے میں ڈال دیے جائیں گے اور وہ جنتی ہو جائے گا، بخلاف اس سے قصاص لینے کے کہ اس طرح قاتل کا گناہ قتل معاف ہو جائے گا جب کہ مقتول کے گناہ معاف ہونے کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4728
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4730
´اس سلسلہ میں علقمہ بن وائل کی حدیث میں راویوں کے اختلاف کا ذکر۔` وائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص آیا، اس کی گردن میں رسی پڑی تھی، اور بولا: اللہ کے رسول! یہ اور میرا بھائی دونوں ایک کنویں پر تھے، اسے کھود رہے تھے، اتنے میں اس نے کدال اٹھائی اور اپنے ساتھی یعنی میرے بھائی کے سر پر ماری، جس سے وہ مر گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے معاف کر دو“، اس نے انکار کیا، اور کہا: اللہ کے نبی! یہ اور میرا بھائی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4730]
اردو حاشہ: (1)”تو اس جیسا ہی ہوگا“ ظاہر مفہوم تو یہ ہے کہ اگر تو نے اسے قتل کر دیا تو تو بھی ناجائز قاتل ہوگا لیکن یہ مفہوم یہاں مراد نہیں کیونکہ قاتل کو قصاص میں قتل کرنا جرم نہیں۔ باقی رہا قاتل کا یہ کہنا کہ میری نیت قتل کرنے کی نہیں تھی۔ اس سے قاتل کو معاف کرنا لازم نہیں آتا کیونکہ نیت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔ ظاہراً صورت قتل کی ہی تھی۔ آپ کے فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ تجھے اس پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوگی۔ اس نے بھی غصے میں قتل کیا، تو نے بھی۔ اگرچہ اس نے ناجائز قتل کیا اور تو جائز کرے گا مگر فضیلت تبھی حاصل ہوگی جب تو معاف کر دے۔ دنیا میں بھی تعریف ہوگی، آخرت میں بھی اجر عظیم حاصل ہوگا۔ آپ نے اس جیسا ذو معنیٰ جملہ بول کر اس کے معافی کے جذبات کو ابھارا اور اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔ﷺ (2) معلوم ہوا قصاص کی بجائے معافی بہتر ہے خصوصاً جب کہ قاتل یہ عذر بھی پیش کرتا ہو کہ میری نیت قتل کی نہیں تھی، اگرچہ ایسی صورت میں معافی ضروری نہیں تبھی تو آپ نے قاتل مقتول کے ولی کے سپرد کر دیا تھا کہ وہ اسے قتل کر سکتا ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، فوائد ومسائل حدیث: 4726)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4730
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5417
´حاکم فریقین میں کسی کو معاف کر دینے کا مشورہ دے سکتا ہے۔` وائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھا جب قاتل کو مقتول کا ولی ایک رسی میں باندھ کر گھسیٹتا ہوا لایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کے ولی سے فرمایا: ”کیا تم معاف کر دو گے؟“ وہ بولا: نہیں، آپ نے فرمایا: ”کیا دیت لو گے؟“ وہ بولا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اسے قتل کرو گے؟“ کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے لے جاؤ“(اور قتل کرو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب آداب القضاة/حدیث: 5417]
اردو حاشہ: جو معاملات قابل معافی ہوں، ایسے معاملات میں معافی اور صلح کی ترغیب اچھی بات ہے کیوں کہ معافی یا صلح کی صورت میں آپس میں دشمنی ختم ہو جاتی ہے۔ محبت بڑھتی ہے۔ معاشرہ پر سکون ہو جاتا ہے۔ بدلہ لینا اگرچہ جائز ہے مگر بسا اوقات بدلہ لینے کی صورت میں اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ ناراضی اور دشمنی پیدا ہوتی ہے، اس لیے شریعت نے معافی کو بدلہ لینے سے افضل قرار دیا ہے بشرطیکہ فریق ثانی عجز کے ساتھ اپنی غلطی کا اعتراف کرے اور خلوص دل سے معافی طلب کرے۔ البتہ اگر وہ تکبر اور غرور کا مظاہرہ کرے تو بدلہ لینا افضل ہے تا کہ اس متکبر کا غرور ٹوٹے۔ حاکم کے لیے مناسب ہے کہ مذکورہ بالا قسم کے مقدمات میں مصالحت کی کوشش کرے۔ اگر نہ ہو سکے تو حق کا فیصلہ کرے۔ البتہ بعض معاشرتی جرائم قابل معافی نہیں ہوتے، مثلاًَ: چوری، زنا وغیرہ ایسے مقدمات عدالت تک پہنچیں تو فیصلہ لازم ہے۔ قتل پہلی قسم میں داخل ہے۔ (روایت سے متعلقہ مزید تفصیلات کے لیے دیکھے، احادیث: 4726، 4735)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5417
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4499
´امام (حاکم) خون معاف کر دینے کا حکم دے تو کیسا ہے؟` وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ اتنے میں ایک قاتل لایا گیا، اس کی گردن میں تسمہ تھا آپ نے مقتول کے وارث کو بلوایا، اور اس سے پوچھا: ”کیا تم معاف کرو گے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کیا دیت لو گے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کیا تم قتل کرو گے؟“ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا لے جاؤ اسے“ چنانچہ جب وہ (اسے لے کر) چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”کیا تم اسے معاف کرو گے؟“ اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4499]
فوائد ومسائل: 1: اگر مجرم کے بھاگ جانے کا اندیشہ ہو تو اس کو باندھنا جائز ہے۔
2: مقتول کے ولی کو تین باتوں میں سے صرف ایک اختیار ہے کہ معاف کردے یا دیت قبول کرلے قصاص لے۔
3: حاکم اور قاضی کو جائز ہے کہ معاف کرنھ کی ترغیب دے۔
4: اگر قاتل قصاص میں قتل کیا جائے تو امید ہے کہ یہ اس کے لئے کفارہ بن جائے گا، بصورت دیگر اس کا معاملہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4499