عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو جنگ احد کے موقع پر (جنگ میں شریک ہونے کے لیے) ۱۴ سال کی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تو آپ نے انہیں (جنگ میں شرکت کی) اجازت نہ دی۔ اور غزوہ خندق کے موقع پر جب کہ وہ پندرہ سال کے ہو چکے تھے اپنے آپ کو پیش کیا تو آپ نے اجازت دے دی (اور مجاہدین میں شامل کر لیا)۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3461]
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ پندرہ سال کا لڑکا جوان ہو جاتا ہے اور جب تک جوان نہیں ہو جاتا جس طرح جنگ میں شریک نہیں ہو سکتا اسی طرح طلاق بھی نہیں دے سکتا، ابن عمر رضی الله عنہما نے جو یہ کہا کہ جنگ احد کے موقع پر چودہ سال کی عمر میں اور غزوہ خندق کے موقع پر پندرہ سال کی عمر میں پیش ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ چودہ سال کی عمر میں داخل ہو چکے تھے اور پندرہ سال کا مطلب ہے اس سے تجاوز کر چکے تھے، اس توجیہ سے غزوہ خندق کے وقوع سے متعلق جو اختلاف ہے اور اس اختلاف سے ابن عمر رضی الله عنہما کی عمر سے متعلق جو اشکال پیدا ہوتا ہے وہ رفع ہو جاتا ہے۔
عرضه يوم أحد وهو ابن أربع عشرة سنة فلم يجزني ثم عرضني يوم الخندق وأنا ابن خمس عشرة سنة فأجازني قال نافع فقدمت على عمر بن عبد العزيز وهو خليفة فحدثته هذا الحديث فقال إن هذا لحد بين الصغير والكبير وكتب إلى عماله أن يفرضوا لمن بلغ خمس عشرة
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3461
اردو حاشہ: سرکاری دستاویزات میں پندرہ سال کے لڑکے کو بالغ اور اس سے کم کو نابالغ لکھا جائے گا کیونکہ حکومت کے پاس عمر وغیرہ کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ باقی دو علامات میں ہیر پھیر ممکن ہے اگرچہ وہ قطعی علامات ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3461
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 731
´مفلس قرار دینے اور تصرف روکنے کا بیان` سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے احد کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو پیش کیا گیا۔ اس وقت میری عمر چودہ برس تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جنگ میں شرکت کی اجازت نہ دی۔ پھر خندق کے روز مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا اس وقت میری عمر پندرہ برس تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے شرکت کی اجازت دے دی۔ (بخاری و مسلم) اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت نہ دی اور مجھے بالغ نہیں سمجھا۔ ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 731»
تخریج: «أخرجه البخاري، الشهادات، باب بلوغ الصبيان وشهادتهم، حديث:2664، ومسلم، الإمارة، باب بيان سن البلوغ، حديث:1868، والبيهقي:3 /83.»
تشریح: 1. اس حدیث کی رو سے تصرفات کی عمر پندرہ سال میں شروع ہو جاتی ہے جسے قابل قبول اور قابل تسلیم سمجھا گیا ہے۔ 2. مصنف بھی اس حدیث کو اس باب میں یہی بتانے کے لیے لائے ہیں کہ خرید و فروخت کس عمر کی قابل اعتبار ہے۔ گویا پندرہ سال سے کم عمر‘ بچہ اور پندرہ سال کا نوجوان‘ مردوں کے حکم میں آجاتا ہے۔ 3.اس حدیث سے نوجوان کا شوق جہاد ملاحظہ کیجیے کہ آگے بڑھ کر خود اپنے آپ کو خدمت جہاد کے لیے پیش کرتا ہے۔ پہلی بار ناکامی کے بعد اگلے سال پھر قسمت آزمائی کرتا ہے اور اپنے عزم و ارادے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ 4.معلوم ہوا کہ فوج میں بھرتی کے لیے اس سے کم عمر والوں کو نہیں لینا چاہیے۔ 5.اس سے یہ اصول بھی نکلا کہ فوج کی بھرتی کے لیے پہلے جسمانی ٹیسٹ لینا چاہیے‘ اگر مناسب نہ ہو تو واپس بھیج دیا جائے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 731
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2957
´لڑائی میں کس عمر کے مرد کا حصہ لگایا جائے؟` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ وہ غزوہ احد کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے اس وقت ان کی عمر (۱۴) سال تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غزوہ میں شرکت کی اجازت نہیں دی، پھر وہ غزوہ خندق کے موقع پر پیش کئے گئے اس وقت وہ پندرہ سال کے ہو گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غزوہ میں شرکت کی اجازت دے دی۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2957]
فوائد ومسائل: 1۔ بچہ پندرہ سال کی عمر میں بالغ شمار ہوتا ہے۔ اور شرعی امور کا مکلف ہوجاتا ہے۔ لہذا اسے جنگ وقتال میں بھی شریک کیا جا سکتا ہے۔ اس سے پہلے اسے جنگ میں لے جانا درست نہیں۔
2۔ اور جب جنگ میں شریک ہوگا۔ تو غنیمت میں سے باقاعدہ حصہ پائے گا۔
3۔ پندرہ سال یا علامات بلوغت سے پہلے اگر کسی جرم کا ارتکاب کرے تو اس پر شرعی حد لاگو نہیں ہوگی۔ تعزیر وتادیب ہوگی۔ اسی طرح اس کی دی ہوئی طلاق بھی نافذ العمل نہیں ہوگی۔ فیصلے میں اس کے ولی کی شمولیت ضروری ہوگی اور اسے اپنے مال سے باقاعدہ اور آزادانہ تصرف کا اختیار بھی اس کے بعد حاصل ہوگا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2957
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4406
´نابالغ لڑکا حد کا مرتکب ہو جائے تو اس کے حکم کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے غزوہ احد کے دن پیش کئے گئے تو ان کی عمر چودہ سال کی تھی آپ نے انہیں جنگ میں شمولیت کی اجازت نہیں دی، اور غزوہ خندق میں پیش ہوئے تو پندرہ سال کے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔ [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4406]
فوائد ومسائل: شرعی طور پر بالغ سمجھے جانےکے لئے پندرہ سال کی عمر کا اعتبار ہے، خواہ زیر ناف بال اگیں یا نہ احتلام ہو یا نہ اور نابالغ کو قتال میں شریک کرنا روا نہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4406
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2543
´جس پر حد واجب نہیں ہے اس کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے غزوہ احد کے دن پیش کیا گیا، اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (غزوہ میں شریک ہونے کی) اجازت نہیں دی، لیکن جب مجھے آپ کے سامنے غزوہ خندق کے دن پیش کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی، اس وقت میری عمر پندرہ سال تھی۔ نافع کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں نے عمر بن عبدالعزیز سے ان کے عہد خلافت میں بیان کی تو انہوں نے کہا: یہی نابالغ اور بالغ کی حد ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2543]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل:
(1) اس حدیث سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ پندرہ سال کی عمر بلوغت کی عمر ہے لہٰذااس عمر کےبچے کو بالغ شمار کرنا چاہیے۔
(2) عام حالات میں بلوغت کی دوسری علامت پراعتماد کیا جاتا ہے مثلا: زیر ناف بال آ جانا یا احتلام ہونا، لڑکیوں کا مہانہ نظام شروع ہونا۔ لیکن اگر کسی بچے یابچی میں مناسب عمرمیں یہ علامتیں ظاہرنہ ہوتوپندرہ سال عمر مکمل ہونے پرانھیں بالغ قرار دیا جا سکتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2543
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1711
´حد بلوغت کا ذکر اور غنیمت سے اس کو کب حصہ دیا جائے گا اس کا بیان۔` عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک لشکر میں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، میں چودہ سال کا تھا، تو آپ نے مجھے (جہاد میں لڑنے کے لیے) قبول نہیں کیا، پھر مجھے آپ کے سامنے آئندہ سال ایک لشکر میں پیش کیا گیا اور میں پندرہ سال کا تھا، تو آپ نے مجھے (لشکر میں) قبول کر لیا، نافع کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو عمر بن عبدالعزیز سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: چھوٹے اور بڑے کے درمیان یہی حد ہے، پھر انہوں نے فرمان جاری کیا کہ جو پندرہ سال کا ہو جائے اسے مال غنیمت سے حصہ دیا جائے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1711]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: لڑکا یا لڑکی کی عمر سن ہجری سے جب پندرہ سال کی ہوجائے تو وہ بلوغت کی حدکو پہنچ جاتا ہے، اسی طرح سے زیرناف بال نکل آنا اوراحتلام کا ہونا بھی بلوغت کی علامات میں سے ہے، اور لڑکی کو حیض آجائے تو یہ بھی بلوغت کی نشانی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1711
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2664
2664. حضرت ابن عمر ؓ سےروایت ہے کہ وہ اُحد کے دن رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش ہوئے جبکہ ان کی عمر چودہ برس ہوچکی تھی۔ آپ ﷺ نے مجھے جنگ میں جانے کی اجازت نہ دی۔ پھر میں خندق کے دن پیش ہواتو میری عمر پندرہ سال تھی تو آپ نے مجھے جنگ میں شمولیت کی اجازت دے دی۔ حضرت نافع کہتے ہیں: میں حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے پاس آیا جبکہ آپ خلیفہ تھے تو میں نے آپ سے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے فرمایا: یہ بالغ اور نابالغ کے درمیان حد ہے، انھوں نے اپنے حکام کولکھا کہ جولوگ پندرہ سال کی عمر کو پہنچ جائیں ان کے نام دیوان میں لکھ لیا کریں اور ان کے وظیفے مقرر کردیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2664]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ پندرہ سال کی عمر ہونے پر بچے پر شرعی احکام جاری ہوجاتے ہیں اور اس عمر میں وہ گواہی کے قابل ہوسکتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2664
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4097
4097. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے خود کو غزوہ اُحد کے دن نبی ﷺ کے سامنے بھرتی کے لیے پیش کیا تو آپ نے انہیں اجازت نہ دی جبکہ ان کی عمر اس وقت چودہ سال تھی، لیکن غزوہ خندق کے موقع پر خود کو آپ ﷺ کے سامنے پیش کیا تو آپ نے اجازت دے دی۔ اس وقت وہ پندرہ سال کی عمر میں تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4097]
حدیث حاشیہ: معلوم ہوا کہ پندرہ سال کی عمر میں مرد بالغ تصور کیا جا تا ہے اور اس پر شرعی احکام پورے طور پر لاگو ہوجاتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4097
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2664
2664. حضرت ابن عمر ؓ سےروایت ہے کہ وہ اُحد کے دن رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش ہوئے جبکہ ان کی عمر چودہ برس ہوچکی تھی۔ آپ ﷺ نے مجھے جنگ میں جانے کی اجازت نہ دی۔ پھر میں خندق کے دن پیش ہواتو میری عمر پندرہ سال تھی تو آپ نے مجھے جنگ میں شمولیت کی اجازت دے دی۔ حضرت نافع کہتے ہیں: میں حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے پاس آیا جبکہ آپ خلیفہ تھے تو میں نے آپ سے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے فرمایا: یہ بالغ اور نابالغ کے درمیان حد ہے، انھوں نے اپنے حکام کولکھا کہ جولوگ پندرہ سال کی عمر کو پہنچ جائیں ان کے نام دیوان میں لکھ لیا کریں اور ان کے وظیفے مقرر کردیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2664]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث کے مطابق جب بچے کی عمر پندرہ برس ہو جائے تو اس پر بالغوں کے احکام جاری ہو جاتے ہیں۔ اس پر عبادات، حدود اور دیگر احکام شریعت بھی اسی عمر میں لازم ہوں گے۔ اس عمر میں وہ جنگ میں شریک ہو سکے گا اور مال غنیمت کا حق دار ہو گا۔ اگر وہ حربی کافر ہے تو اسے قتل کیا جائے گا۔ اس عمر میں اس کی گواہی بھی قبول کی جائے گی۔ اگر اس عمر سے پہلے احتلام شروع ہو جائے تو بھی بلوغ کے احکام نافذ ہوں گے۔ (2) احتلام سے مراد اچھلنے والے پانی کا اترنا ہے، خواہ جماع سے ہو یا حالت نیند میں۔ عورتوں کے لیے حیض کی آمد ان کے بالغ ہونے کی علامت ہے۔ اس میں عمر کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ صحت اور علاقائی اثرات کے اعتبار سے عمر مختلف ہو سکتی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2664
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4097
4097. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے خود کو غزوہ اُحد کے دن نبی ﷺ کے سامنے بھرتی کے لیے پیش کیا تو آپ نے انہیں اجازت نہ دی جبکہ ان کی عمر اس وقت چودہ سال تھی، لیکن غزوہ خندق کے موقع پر خود کو آپ ﷺ کے سامنے پیش کیا تو آپ نے اجازت دے دی۔ اس وقت وہ پندرہ سال کی عمر میں تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4097]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوہ احد اور غزوہ خندق کے درمیان ایک سال کا وقفہ تھا کیونکہ غزوہ احد کے وقت حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی عمر چودہ برس تھی اور غزوہ خندق میں وہ پندرہ سال کے ہو گئےتھے۔ 2۔ دراصل امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو موسیٰ بن عقبہ کی تائید میں پیش کیا ہے کہ غزوہ خندق چار ہجری میں ہوا کیونکہ غزوہ احد کا تین ہجری میں ہونا یقینی ہے اور ایک سال بعد غزوہ خندق ہوا تو اس کا واضح مطلب ہے کہ وہ چار ہجری میں ہوا لیکن دوسرے سیرت نگاروں کا کہنا ہے کہ غزوہ خندق پانچ ہجری میں ہوا کیونکہ غزوہ احد کے موقع پر ابو سفیان نے کہا تھا کہ آئندہ سال پھر بدر کے مقام پر لڑائی ہوگی مگر مکے میں قحط پڑ جانے کی وجہ سے ان کی تیاری نہ ہوسکی تو وہ اس سال یعنی چار ہجری میں نہ آئے جبکہ نبی ﷺ چار ہجری میں بدر کی طرف تشریف لے گئے تھے تاہم ابو سفیان اور دیگر مشرکین مکہ وگیرہ کے وہاں نہ آنے کی وجہ سے آپ ﷺ مدینہ طیبہ واپس تشریف لے آئے پھر اس کے بعد آئندہ سال پانچ ہجری میں ابو سفیان نے مختلف قبائل اور یہود مدینہ کو ساتھ ملا کر مدینے پر چڑھائی کی۔ 3۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی پیش کردہ حدیث کا جواب یہ ہے کہ غزوہ احد کے وقت ان کی عمرکا چودھواں سال شروع ہو چکا تھا اور غزوہ خندق میں ان کی عمر کے پندرھویں سال کا اختتام تھا اس طرح غزوہ خندق کے درمیان دو سال کی مدت کا ہونا ناممکن نہیں ہے۔ اس لیے غزوہ خندق عام مشہور اور قابل اعتماد قول کے مطابق پانچ ہجری میں ہوا۔ (فتح الباری: 7/491) واللہ اعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4097