´مفلس قرار دینے اور تصرف روکنے کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے احد کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو پیش کیا گیا۔ اس وقت میری عمر چودہ برس تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جنگ میں شرکت کی اجازت نہ دی۔ پھر خندق کے روز مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا اس وقت میری عمر پندرہ برس تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے شرکت کی اجازت دے دی۔ (بخاری و مسلم) اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت نہ دی اور مجھے بالغ نہیں سمجھا۔ ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 731»
تخریج: «أخرجه البخاري، الشهادات، باب بلوغ الصبيان وشهادتهم، حديث:2664، ومسلم، الإمارة، باب بيان سن البلوغ، حديث:1868، والبيهقي:3 /83.»
تشریح:
1. اس حدیث کی رو سے تصرفات کی عمر پندرہ سال میں شروع ہو جاتی ہے جسے قابل قبول اور قابل تسلیم سمجھا گیا ہے۔
2. مصنف بھی اس حدیث کو اس باب میں یہی بتانے کے لیے لائے ہیں کہ خرید و فروخت کس عمر کی قابل اعتبار ہے۔
گویا پندرہ سال سے کم عمر‘ بچہ اور پندرہ سال کا نوجوان‘ مردوں کے حکم میں آجاتا ہے۔
3.اس حدیث سے نوجوان کا شوق جہاد ملاحظہ کیجیے کہ آگے بڑھ کر خود اپنے آپ کو خدمت جہاد کے لیے پیش کرتا ہے۔
پہلی بار ناکامی کے بعد اگلے سال پھر قسمت آزمائی کرتا ہے اور اپنے عزم و ارادے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
4.معلوم ہوا کہ فوج میں بھرتی کے لیے اس سے کم عمر والوں کو نہیں لینا چاہیے۔
5.اس سے یہ اصول بھی نکلا کہ فوج کی بھرتی کے لیے پہلے جسمانی ٹیسٹ لینا چاہیے‘ اگر مناسب نہ ہو تو واپس بھیج دیا جائے۔