جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ والی رگ میں دو مرتبہ داغا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3494]
وضاحت: ۱؎: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے علاج و معالجہ کے لئے اعضاء بدن کو داغنے کے سلسلہ میں متعدد احادیث وارد ہوئی ہیں جو بظاہر باہم متعارض نظر آتی ہیں، جس کی وجہ سے اس مسئلہ میں علماء کے مابین اختلافات ہیں۔ ۱۔ بعض احادیث سے اعضاء جسم کو داغنا ثابت ہے جیسے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے زخم کو داغنے کا واقعہ۔ ۲۔ بعض میں اس سلسلہ میں آپ کی ناپسندیدگی کا ذکر ہے۔ ۳۔ بعض میں اس کے چھوڑ دینے کی تعریف کی گئی ہے۔ ۴۔ بعض احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔ واضح رہے کہ جن احادیث میں اعضاء جسم کو داغنے سے علاج اور شفاء کی بات آئی ہے اس سے اس کے جواز و مشروعیت کا ثبوت ملتا ہے، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس کو ناپسند کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کام ممنوع ہے، بلکہ اس کا معاملہ «ضب» کے ناپسند ہونے کی طرح ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہ کھایا، لیکن یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر کھائی گئی، اور آپ نے اس پر سکوت اختیار کیا، اور اس کی حلت کا اقرار فرمایا، اور آپ کے «ضب» نہ کھانے کا تعلق آپ کی ذاتی ناپسندیدگی سے ہے جس کا «ضب» کی حرمت سے کوئی تعلق نہیں ہے، اور اس کے ترک کر دینے پر پسندیدگی سے پتہ چلتا ہے کہ اعضاء جسم کو داغ کر علاج نہ کرنا زیادہ بہتر بات ہے۔ اور ممانعت کی احادیث کراہت کے قبیل سے ہیں، یا ایسی صورت سے ممانعت کی بات ہے جس کی ضرورت و حاجت نہ ہو، بلکہ بیماری کے لاحق ہونے کے خوف کی بنا پر ہو۔ اس تفصیل سے پتہ چلا کہ اعضاء جسم کے داغنے کے ذریعہ علاج بلا کراہت دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے، ایک یہ کہ اس علاج کے علاوہ اور کوئی صورت علاج کی باقی نہ ہو، بلکہ متعین طور پر اس علاج ہی کی تشخیص کی گئی ہو۔ دوسری شرط یہ ہے کہ اعضاء جسم کا داغنا شفا اور علاج کا مستقل سبب نہیں ہے، بلکہ اس کا حقیقی سبب اللہ تعالیٰ ہے جو شفا دینے والا ہے، جب دوسری صورتیں علاج کی موجود ہوں تو آگ سے داغنے کا علاج مکروہ ہو گا۔ خلاصہ یہ کہ علمائے دین نے اعضاء جسم کو داغ کر اس سے علاج کے جواز کی بات کہی ہے کہ یہ بھی علاج و معالجہ کا ایک مجرب طریقہ ہے، بعض علماء نے اس اعتقاد سے صحت مند آدمی کو داغنے سے منع کیا ہے کہ وہ اس کے بعد دوبارہ بیمار نہ ہو، تو ایسی صورت حرام اور ممنوع ہے، اور دوسری علاج کی صورتیں جن میں زخم کے فساد کا علاج یا اعضاء جسم کے کٹنے کے بعد اس کے علاج کا مسئلہ ہو جائز ہے۔ یہ واضح رہے کہ زمانہ جاہلیت میں (اور آج بھی لوگوں میں یہ رواج ہے) لوگوں کا یہ اعتقاد تھا کہ صحت مند آدمی کو اس واسطے داغتے تھے کہ وہ اس کے بعد بیمار نہ ہو، اگر یہ صورت ہو تو احادیث نہی اس طرح کی حرمت پر دلالت کرتی ہیں، اسلام نے اس اعتقاد کو باطل قرار دیا، اور اس بات پر زور دیا کہ اللہ تعالیٰ ہی شافی و کافی ہے۔ «إذا مرضت فهو يشفين» اوپر کی وضاحت کا خلاصہ یہ ہوا کہ اعضاء جسم کے ”داغنے“ کا طریقہ علاج مختلف صورتوں میں مختلف احکام رکھتا ہے، نہ تو ہمیشہ اس کا ترک صحیح ہے، اور نہ اس علاج کا ہمیشہ اختیار کرنا ہی صحیح ہے، کبھی کراہت کے ساتھ یہ جائز ہے، کبھی یہ علاج مکروہ ہے، اور کبھی یہ حرمت کے دائرہ میں آ جاتا ہے، جواز کی صورت اس کی ضرورت کے پیش نظر ہے، بایں طور کہ علاج کی دوسری صورت باقی نہ ہو بلکہ متعین طور پر کسی بیماری میں یہی علاج موثر ہو جیسے تیزی سے جسم سے خون کے نکلنے میں داغنے کے علاوہ کوئی اس کو روکنے کی ترکیب نہ ہو، ورنہ بیمار کے مر جانے کا خدشہ ہو، اس صورت میں اس علاج کو اپنانا ضروری ہے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے جسم سے خون نہ رکنے کی صورت میں ان کی ہلاکت کے خوف سے ان کے جسم کو داغا۔ یہ واضح رہے کہ اس علاج میں یہ اعتقاد بھی ہونا چاہئے کہ یہ ایک سبب علاج ہے، اصل شافی اللہ تعالیٰ ہے۔ کراہت کی صورتوں میں سے ایک صورت یہ ہے کہ دوسرے علاج کی موجودگی میں یہ علاج کیا جائے، اس لئے کہ اس علاج میں مریض کو سخت درد بلکہ اصل مرض سے زیادہ سخت درد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کراہت کی ایک صورت یہ ہے کہ بیماری آنے سے پہلے حفظان صحت کے لئے یہ طریقہ علاج اپنایا جائے، اس لئے کہ اس میں اللہ پر توکل و اعتماد میں کمی اور کمزوری آ جاتی ہے، اور مرض کے واقع ہونے سے پہلے ہی ”داغنے کے درد“ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، صرف اس خدشہ سے کہ ایسا مستقبل میں ممکن ہے، آگ کا عذاب اللہ تعالیٰ کا حق ہے، اس لئے اس صورت میں اس پر حرمت کا اطلاق بھی ہو سکتا ہے، داغنے کے علاج میں شفا ڈھونڈھنے میں غلو اور مبالغہ کی صورت میں آدمی حقیقی مسبب الاسباب یعنی اللہ تعالیٰ ہی کو بھول جاتا ہے، اور دنیاوی اسباب کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے، اور یہ معلوم ہے کہ اسباب کی طرف توجہ و التفات توحید میں شرک ہے۔ امام ابن القیم فرماتے ہیں کہ صحیح احادیث میں علاج کا حکم ہے، جو توکل کے منافی نہیں ہے، جیسے بھوک، پیاس، سردی اور گرمی کو اس کے اضداد کے ذریعہ دور کیا جائے، بلکہ توحید کی حقیقت کا اتمام اسی وقت ہو گا جب آدمی اللہ تعالیٰ کی شریعت میں اور سنن کونیہ (کائناتی نظام) میں نتائج تک پہنچنے کے لئے جو اسباب فراہم کئے ہیں ان کو استعمال کرے، اور ان شرعی اور کونی اسباب کو معطل کر دینا دراصل نفس توکل میں قدح ہے۔ اور ایسے ہی امر الٰہی اور حکمت ربانی کا قادح اور اس میں کمزوری پیدا کرنے والا ہے کیونکہ ان اسباب کو معطل کرنے والا یہ گمان کرتا ہے کہ ان کا ترک توکل کے باب میں زیادہ قوی اور مضبوط ہے۔ پس ان اسباب کا ترک عاجزی ہے، جو اس توکل کے منافی ہے جس کی حقیقت ہی یہ ہے کہ بندہ کا دل اللہ تعالیٰ پر اپنے دینی اور دنیاوی فوائد کے حصول میں اور دینی و دنیاوی نقصانات سے دور رہنے میں اعتماد کرے۔ اس اعتماد و توکل کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اسباب کو اختیار کیا جائے، ورنہ آدمی حکمت الٰہی اور شریعت کے اوامر کو معطل کرنے والا ہو گا، لہذا آدمی اپنی عاجزی کو توکل نہ بنائے، اور نہ ہی توکل کو عاجزی کا عنوان دے۔ (زاد المعاد: ۴؍۱۵)(حررہ الفریوائی)