جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو تیر کے زخم کی وجہ سے جو انہیں لگا تھا داغا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطِّبِّ/حدیث: 3866]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 2694)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/السلام 26 (2208)، سنن ابن ماجہ/الطب 24 (3494)، مسند احمد (3/363) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس روایت سے علاج کے طور پر داغنے کا جواز ثابت ہوتا ہے، رہی عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وارد ممانعت تو وہ یا تو عمران بن حصین کے ساتھ مخصوص ہے، کیونکہ ممکن ہے انہیں کوئی ایسی بیماری لگی ہو جس میں داغنا مفید نہ ہو، یا بیماری سے بچنے کے لئے احتیاطاً وہ یہ کرنے جارہے ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہو کیونکہ بلا ضرورت محض بیماری کے اندیشہ سے ایسا کرنا مکروہ ہے۔
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3866
فوائد ومسائل: داغ لگوانا سب سے آخری علاج ہے۔ اس سے پہلے دیگر طریقے ضرور آزمائے جائیں کوئی چارہ کار نہ ہو تو داغنے کی اجازت ہے۔ مذ کورہ بالا حدیث میں منع کا معنی یہی ہے کہ جہاں تک ہو سکے اس سے پر ہیز کیا جانا چاہیئے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3866
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3864
´رگ کاٹنے (فصد کھولنے) اور پچھنا لگانے کی جگہ کا بیان۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک طبیب بھیجا تو اس نے ان کی ایک رگ کاٹ دی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الطب /حدیث: 3864]
فوائد ومسائل: 1۔ یہ روایت صحیح مسلم میں بھی ہے، لیکن ان میں ان الفاظ کا اضافہ ہےکہ رگ کاٹنے کے بعد اس جگہ کا داغا۔ دیکھئے (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 2207) 2. اسلامی معاشرے میں ایسے افراد مہیا کئے جانے ضروری ہیں جو ان کی بنیادی اہم ضروریات میں ان کے کام آئیں بالخصوص طبیب اور ڈاکٹر 3. معالج ماہرِفن کے علاج اور اسلوبِ علاج پراعتماد کیا جانا چا ہیئے۔
4. جب تک ممکن ہو خفیف درجے سے علاج شروع کرنا چا ہیے۔ فائدہ نہ ہو تو اس کے بعد کا درجہ اختیار کیا جائے۔ یعنی پہلے علاج بالغزا پھر دوا، پہلے مفرد پھر مرکب۔ پھر سینگی اور آخر میں رگ کاٹنا اور اس کے بعد ہے داغ دینا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3864
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3493
´جو داغ لگوائے اس کے حکم کا بیان۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ایک بار بیمار پڑے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس ایک طبیب بھیجا، اس نے ان کے ہاتھ کی رگ پر داغ دیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3493]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اکحل وہ رگ ہے جسکو ہفت اندام کہتے ہیں۔ یہ ہاتھ میں اکحل کہلاتی ہے۔ اور ران میں نسا، اگر یہ کٹ جائے تو خون بند نہیں ہوتا۔ نیز علاج کے لئے اس سے فصد کے طریقے سے سر سینہ، پشت اور دست وپا کا خون نکالاجاتا ہے۔
(2) طب کا پیشہ ایک جائز ذریعہ معاش ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3493
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5745
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالی عنہ كے پاس ایک طبیب (اپنے فن کا ماہر) بھیجا، اس نے ان کی رگ کاٹی اور اس کو داغ دیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5745]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: علاج کسی ماہر فن سے کروانا چاہیے اور داغ کے سوا کوئی چارہ نہ ہو تو داغ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، جبکہ یہ کام داغ دینے کا ماہر کرے۔