جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ مسجد میں آئے اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، تو آپ نے پوچھا: ”کیا تم نے نماز ادا کر لی؟“ انہوں نے کہا: جی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو رکعت پڑھ لو“۱؎۔ عمرو بن دینار نے سلیک کا ذکر نہیں کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1112]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «حدیث عمر و بن دینار عن جابر أخرجہ: صحیح البخاری/الجمعة 32 (930)، 33 (931)، صحیح مسلم/الجمعة 14 (875)، (تحفة الأشراف: 2532)، وحدیث أبي الزبیر عن جابر قد تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2771)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 237 (1115)، سنن الترمذی/الصلاة 250 (510)، سنن النسائی/الجمعة 16 (1396)، مسند احمد (3/297، 308، 369)، سنن الدارمی/الصلاة 196 (1592) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اسے «تحیۃ المسجد» کہتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص امام کے خطبہ دینے کی حالت میں آئے تو وہ دو رکعتیں پڑھے، بعض لوگوں نے اسے سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص کیا ہے، اور کہا ہے کہ انہیں یہ حکم اس لئے دیا گیا تھا کہ لوگ ان کی غربت دیکھ کر ان کا تعاون کریں، لیکن ابوداود کی ایک روایت کے الفاظ یوں آئے ہیں: «إذا جاء أحدكم والإمام يخطب فليصل ركعتين»”جب بھی تم میں سے کوئی شخص مسجد آئے، اور امام خطبہ دے رہا ہو تو دو رکعت پڑھ لے“ اس سے ان کے اس قول کی تردید ہو جاتی ہے کہ یہ سلیک غطفانی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص تھا۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1112
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اس سے معلوم ہوا کی خطبے دوران میں آنے والے کو بھی دو رکعت پڑھ کر بیٹھنا چاہیے تو دوسرے اوقات میں آنے والے کو بدرجہ اولیٰ دو رکعت پڑھ کر بیٹھنا چاہیے۔
(2) ان دو رکعتوں کو تحیۃ المسجد بھی قرار دیا گیا ہے۔ اور جمعے کی سنتیں بھی تاہم مذکورہ بالا صورت میں دو رکعت سے زیادہ پڑھنا درست نہیں۔ ہاں خطبہ شروع ہونے سے پہلے (دودو رکعت کرکے) جتنی چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔ (صحیح البخاري، الجمعة، باب الدھن للجمعة، حدیث: 883)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1112
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1396
´امام کے خطبہ کے لیے نکل جانے کے بعد مسجد میں آنے والے کی نماز کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی (مسجد) آئے اور امام (خطبہ کے لیے) نکل چکا ہو ۱؎ تو چاہیئے کہ وہ دو رکعت پڑھ لے۔“ شعبہ کی روایت میں ہے: ”جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن آئے۔“[سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1396]
1396۔ اردو حاشیہ: ➊ ان دو رکعتوں کو تحیۃ المسجد کہا جاتا ہے بعض اسے سنت جمعہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ ➋ ”امام (خطبے کے لیے) نکل چکا ہو“ یعنی امام صاحب خطبہ شروع کرچکے ہوں، تب بھی یہ دو رکعتیں پڑھنی چاہییں کیونکہ بہت سی صحیح روایات میں ان کے پڑھنے کا خصوصی حکم ہے، لہٰذا احناف کا یہ کہنا کہ ”خطبہ شروع ہونے کے بعد نماز شروع نہیں کی جا سکتی“ صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ ایک شخص بغیر دو رکعت پڑھے بیٹھ گیا تو آپ نے اسے اٹھنے اور دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا۔ [صحیح البخاري، الجمعة، حدیث: 930، 931، و صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 875] البتہ دو رکعت ہلکی پڑھنی چاہییں۔ ➌ خطیب دوران خطبہ مقتدیوں سے کوئی بات پوچھ سکتا ہے اور وہ اس کا جواب دے سکتے ہیں۔ اس سے مقتدیوں کے استماع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن مقتدی آپس میں ایک دوسرے سے بات نہیں کرسکتے۔ یہ آداب خطبہ کے منافی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1396
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1401
´جمعہ کے دن امام کے خطبہ دینے کی حالت میں آنے والے کی نماز کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر تھے، ایک آدمی (مسجد میں) آیا تو آپ نے اس سے پوچھا: ”کیا تم نے دو رکعتیں پڑھ لیں؟“ اس نے کہا: نہیں، تو آپ نے فرمایا: ”تو پڑھ لو“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1401]
1401۔ اردو حاشیہ: دیگر روایات میں صراحت ہے کہ آپ خطبہ دے رہے تھے، لہٰذا احناف کا یہ کہنا کہ ابھی آپ نے خطبہ شروع نہیں کیا تھا، احادیث سے اعراض کی دلیل ہے، نیز صحیح مسلم کی صریح قولی روایت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ مختصر سی دو رکعت نماز پڑھے۔“[صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 875]، ہر قسم کی تاویل کو رد کرتی ہے، لہٰذا آنے والے کو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت پڑھنا لازم ہے۔ (مزید دیکھیے: حدیث: 1396)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1401
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 364
´نماز جمعہ کا بیان` سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جمعہ کے روز ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے سے دریافت فرمایا ”نماز (تحیۃ المسجد) پڑھی ہے؟“ وہ بولا ”نہیں!“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تو اٹھو اور دو رکعت نماز ادا کر۔“(بخاری ومسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 364»
تخریج: «أخرجه البخاري، الجمعة، باب من جاء والإمام يخطب صلي ركعتين، حديث:931، ومسلم، الجمعة، باب التحية والإمام يخطب، حديث:875.»
تشریح: 1. معلوم ہوا کہ خطبۂجمعہ کے دوران میں دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے۔ اس میں استماع خطبہ کے عام حکم کی تخصیص ہے۔ 2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خطیب خطبۂجمعہ کے علاوہ بھی ضرورت کے وقت بات چیت کر سکتا ہے بلکہ نئے آنے والے کو دو رکعت نماز پڑھنے کی تلقین بھی کر سکتا ہے۔ 3.احناف ان دو رکعتوں کے قائل نہیں۔ یہ حدیث ان کی تردید کرتی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 364
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1257
1257- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص مسجد میں داخل ہوا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت منبر پر موجود جمعے کا خطبہ دے رہے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا: ”کیا تم نے نماز ادا کرلی ہے“؟ اس نے عرض کی: جی نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دورکعت نماز ادا کرلو۔“ سفیان نامی راوی کہتے ہیں: ابوزبیر نامی راوی نے ا س روایت میں ان صاحب کا نام ”سیدنا سلیک بن عمر و عطفانی رضی اللہ عنہ“ بیا ن کیا ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1257]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ خطبہ کے دوران نماز پڑھنا درست ہے، اور خطیب کسی کو جو بغیر نماز پڑھے بیٹھ جائے، نماز کا کہہ سکتا ہے، اور مقتدی کو بات ماننی چاہیے۔ اس حدیث سے تحیۃ المسجد کی تاکید ثابت ہوتی ہے، فرضیت نہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1256
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1656
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میرا نبی اکرم ﷺ کے ذمہ قرض تھا۔ آپ ﷺ نے اسے ادا کیا اور مجھے رقم زائد دی اور میں آپ ﷺ کے ساتھ مسجد میں گیا تو آپﷺ نے فرمایا: ”دو رکعت نماز ادا کرو۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1656]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو تَحِیَّةُ الْمَسْجِد پڑھنے کا حکم دینا اس بات کی دلیل ہے کہ حتی الوسع اس عمل کو چھوڑنا نہیں چاہیے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1656
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2024
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ سلیک غطفانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جمعہ کے دن اس وقت آیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے تو وہ بیٹھ گیا۔ آپﷺ نے اس سے فرمایا: ”اے سلیک! اٹھ کر دو رکعت پڑھو“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فخطبہ دے رہا ہے تو وہ دو رکعت پڑھے اور ان میں تخفیف واختصار کرے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:2024]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپﷺ کا سلیک غطفانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تحیۃ المسجد پڑھنے کا حکم دینا ایک شخص یا جزئی واقعہ نہیں ہے بلکہ آپﷺ نے بطور اصول اور ضابطہ فرمایا: (إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ، فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ، وَلْيَتَجَوَّزْ فِيهِمَا) کہ جب تم میں سے کوئی شخص جمعہ کے دن اس وقت پہنچے جبکہ امام خطبہ دے رہا ہے تووہ دو مختصررکعت پڑھے۔ اب اس صریح اور صحیح روایت کی موجودگی میں کسی تاویل کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے یا تو انسان کو یہ کوشش کرنی چاہیے کہ وہ خطیب کے منبر سے بیٹھنے سے اس قدر پہلے پہنچے کہ وہ کم از کم دو رکعت پڑھ لے اور بہتر صورت یہی ہے۔ وگرنہ اگر وہ خطبہ کے دوران آیا ہے تو وہ دو مختصر رکعت پڑھ لے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور تمام محدثین کا مؤقف اس حدیث کے مطابق ہے اور مالکیوں اور احناف کے نزدیک اس صورت میں تحیۃ المسجد پڑھنا جائز نہیں ہے وہ اس کی خاطر حدیث کی ناقابل قبول توجیہات کرتے ہیں۔ حضرت جابر بن عبداللہ کی ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: (قَاعد على الْمِنْبَر) اور دوسری میں ہے: (رسول الله صلي الله عليه وسلم يخطب) مطلب ہے کہ آپﷺ منبر پر تشریف فرما تھے اور خطبہ دینے کے لیے تیار ہو چکے تھے۔ یعنی خطبہ دینا چاہ رہے تھے اور پھر آپﷺ نے اٹھ کر اس کو مخاطب فرمایا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2024
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 931
931. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ایک شخص اس وقت آیا جب نبی ﷺ خطبہ ارشاد فر رہے تھے۔ آپ نے اس سے پوچھا: ”کیا تو نے نماز پڑھی ہے؟“ اس نے جواب دیا نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: ”(کھڑے ہو کر) دو رکعتیں پڑھو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:931]
حدیث حاشیہ: جمعہ کے دن حالت خطبہ میں کوئی شخص آئے تو اسے خطبہ ہی کی حالت میں دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے بغیر نہیں بیٹھنا چاہیے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو حدیث جابر بن عبد اللہ سے جسے حضرت امام المحدثین ؒ نے یہاں نقل فرمایا ہےروز روشن کی طرح ثابت ہے۔ حضرت امام ترمذی ؒ نے باب في الرکعتین إذا جاءالرجل والإمام یخطب کے تحت اسی حدیث کو نقل فرمایا ہے، آخر میں فرماتے ہیں کہ ھذا حدیث حسن صحیح یہ حدیث بالکل حسن صحیح ہے، اس میں صاف بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ نے خطبہ کی ہی حالت میں ایک آنے والے شخص (سلیک نامی) کو دو رکعت پڑھنے کا حکم فرمایا تھا۔ بعض ضعیف روایتوں میں مذکور ہے کہ جس حالت میں اس شخص نے دو رکعت ادا کیں آنحضرت ﷺ نے اپنا خطبہ بند کر دیا تھا۔ یہ روایت سند کے اعتبار سے لائق حجت نہیں ہے اور بخاری شریف کی مذکورہ حدیث حسن صحیح ہے جس میں آنحضرت ﷺ کی حالت خطبہ ہی میں اس کے دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے۔ لہذا اس کے مقابلے پر یہ روایت قابل حجت نہیں۔ دیوبندی حضرات فرماتے ہیں کہ آنے والے شخص کو آنحضرت ﷺ نے دو رکعت نماز کا حکم بے شک فرمایا مگر ابھی آپ نے خطبہ شروع ہی نہیں فرمایا تھا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ حدیث کے راوی حضرت جابر بن عبداللہ ؓ جو صاف لفظوں میں النبی ﷺ یخطب الناس یوم الجمعة (یعنی آنحضرت ﷺ لوگوں کو خطبہ سنا رہے تھے) نقل فرمارہے ہیں۔ نعوذباللہ ان کا یہ بیان غلط ہے اور ابھی آنحضرت ﷺ نے خطبہ شروع ہی نہیں فرمایا تھا۔ یہ کس قدر جرات ہے کہ ایک صحابی رسول کو غلط بیانی کامرتکب گردانا جائے اور بعض ضعیف روایات کا سہارا لے کر محدثین کرام کی فقاہت حدیث اور حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کے بیان کی نہایت بے باکی کے ساتھ تغلیط کی جائے۔ حضرت امام ترمذی ؒ نے اس سلسلہ کی دوسری حدیث عبد اللہ بن ابی مسرح سے یوں نقل فرمائی ہے: أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الخُدْرِيَّ، دَخَلَ يَوْمَ الجُمُعَةِ وَمَرْوَانُ يَخْطُبُ، فَقَامَ يُصَلِّي، فَجَاءَ الحَرَسُ لِيُجْلِسُوهُ، فَأَبَى حَتَّى صَلَّى، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَتَيْنَاهُ، فَقُلْنَا: رَحِمَكَ اللَّهُ، إِنْ كَادُوا لَيَقَعُوا بِكَ، فَقَالَ: مَا كُنْتُ لأَتْرُكَهُمَا بَعْدَ شَيْءٍ رَأَيْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ ذَكَرَ أَنَّ رَجُلاً جَاءَ يَوْمَ الجُمُعَةِ فِي هَيْئَةٍ بَذَّةٍ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ الجُمُعَةِ، فَأَمَرَهُ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ.یعنی ابو سعید خدری ؓ صحابی رسول اللہ ؓ جمعہ کے دن مسجد میں اس حالت میں آئے کہ مروان خطبہ دے رہا تھا یہ نماز (تحیۃ المسجد) پڑھنے کھڑے ہوگئے۔ یہ دیکھ کر سپاہی آئے اور ان کو زبردستی نماز سے باز رکھنا چاہا مگر یہ نہ مانے اور پڑھ کر ہی سلام پھیرا، عبد اللہ بن ابی مسرح کہتے ہیں کہ نماز کے بعد ہم نے حضرت ابو سعید خدری ؓ سے ملا قات کی اور کہا کہ وہ سپاہی آپ پر حملہ آور ہونا ہی چاہتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میں بھی ان دو رکعتوں کو چھوڑنے والاہی نہیں تھا۔ خواہ سپاہی لوگ کچھ بھی کرتے کیونکہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے آپ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی پریشان شکل میں داخل مسجد ہوا۔ آنحضرت ﷺ نے اس کو اسی حالت میں دو رکعت پڑھ لینے کا حکم فرمایا۔ وہ نماز پڑھتا رہا اور آنحضرت ﷺ خطبہ دے رہے تھے۔ دو عادل گواہ!حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ ہر دو عادل گواہوں کا بیان قارئین کے سامنے ہے۔ اس کے بعد مختلف تاویلات یا کمزور روایات کا سہارا لے کر ان ہر دو صحابیوں کی تغلیط کے درپے ہونا کسی بھی اہل علم کی شان کے خلاف ہے۔ حضرت امام ترمذی ؒ آگے فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عیینہ اور حضرت عبد الرحمن مقری ہر دو بزرگوں کا یہی معمول تھا کہ وہ اس حالت مذکورہ میں ان ہر دو رکعتوں کو ترک نہیں کیاکرتے تھے۔ حضرت امام ترمذی ؒ نے اس سلسلے کی دیگر روایات کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے جن میں حضرت جابر کی ایک اور روایت طبرانی میں یوں مذکور ہے: عن جابر قال دخل النعمان بن نوفل ورسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم علی المنبر یخطب یوم الجمعة فقال له النبي صلی اللہ علیه وسلم رکعتین وتجوز فیھما فإذا أتی أحدکم یوم الجمعة والإمام یخطب فلیصل رکعتین ولیخففھما کذا في قوت المعتذي وتحفة الأحوذي، ج: 2ص: 264 یعنی ایک بزرگ نعمان بن نوفل نامی مسجد میں داخل ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے ان کو حکم فرمایا کہ اٹھ کر دو رکعت پڑھ کر بیٹھیں اور ان کو ہلکا کر کے پڑھیں اور جب بھی کوئی تمہارا اس حالت میں مسجد میں آئے کہ امام خطبہ دے رہاہو تو وہ ہلکی دو رکعتیں پڑھ کر ہی بیٹھے اور ان کو ہلکا پڑھے۔ حضرت علامہ نووی ؒ شارح مسلم شریف فرماتے ہیں: هَذِهِ الْأَحَادِيثُ كُلُّهَا يَعْنِي الَّتِي رَوَاهَا مُسْلِمٌ صَرِيحَةٌ فِي الدَّلَالَةِ لِمَذْهَبِ الشَّافِعِيِّ وَأَحْمَدَ وَإِسْحَاقَ وَفُقَهَاءِ الْمُحَدِّثِينَ أَنَّهُ إِذَا دَخَلَ الْجَامِعَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ يُسْتَحَبُّ لَهُ أَنْ يُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ تَحِيَّةَ الْمَسْجِدِ وَيُكْرَهُ الْجُلُوسُ قَبْلَ أَنْ يُصَلِّيَهُمَا وَأَنَّهُ يُسْتَحَبُّ أَنْ يَتَجَوَّزَ فِيهِمَا لِيَسْمَعَ بَعْدَهُمَا الْخُطْبَةَ وَحُكِيَ هَذَا الْمَذْهَبُ عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ وَغَيْرِهِ مِنَ الْمُتَقَدِّمِينَ۔ (تحفة الأحوذي) یعنی ان جملہ احادیث سے صراحت کے ساتھ ثابت ہے کہ امام جب خطبہ جمعہ دے رہا ہو اور کوئی آنے والا آئے تو اسے چاہیے کہ دو رکعتیں تحیۃ المسجد ادا کر کے ہی بیٹھے۔ بغیر ان دو رکعتوں کے اس کا بیٹھنا مکروہ ہے اور مستحب ہے کہ ہلکا پڑھے تاکہ پھرخطبہ سنے۔ یہی مسلک امام حسن بصری وغیرہ متقدمین کا ہے۔ حضرت امام ترمذی ؒ نے دوسرے حضرات کا مسلک بھی ذکر فرمایا ہے جو ان دو رکعتوں کے قائل نہیں ہیں پھر حضرت امام ترمذی ؒ نے اپنا فیصلہ ان لفظوں میں دیا ہے: والقول الأول أصح۔ یعنی ان ہی حضرات کا مسلک صحیح ہے جو ان دو رکعتوں کے پڑھنے کے قائل ہیں۔ اس تفصیل کے بعد بھی اگر کوئی شخص ان دورکعتوں کو ناجائز تصور کرے تو یہ خود اس کی ذمہ داری ہے۔ آخر میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کا ارشاد گرامی بھی سن لیجیے آپ فرماتے ہیں: فَإِذا جاءو الإِمَام يخْطب فليركع رَكْعَتَيْنِ، وليتجوز فيهمَا رِعَايَة لسنة الرَّاتِبَة وأدب الْخطْبَة جَمِيعًا بِقدر الْإِمْكَان، وَلَا تغتر فِي هَذِه الْمَسْأَلَة بِمَا يلهج بِهِ أهل بلدك فَإِن الحَدِيث صَحِيح وَاجِب اتِّبَاعه. (حجة اللہ البالغة، جلد: دومص: 101) یعنی جب کوئی نماز ی ایسے حال میں مسجد میں داخل ہو کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو دو رکعت ہلکی خفیف پڑھ لے تاکہ سنت راتبہ اور ادب خطبہ ہر دو کی رعایت ہو سکے اور اس مسئلہ کے بارے میں تمہارے شہر کے لوگ جو شور کرتے ہیں اور ان رکعتوں کے پڑھنے سے روکتے ہیں؟ ان کے دھوکا میں نہ آنا کیونکہ اس مسئلہ کے حق میں حدیث صحیح وارد ہے جس کا اتباع واجب ہے۔ وبا للّٰہ التوفیق۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 931
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:930
930. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ایک شخص اس وقت آیا جب نبی ﷺ لوگوں سے خطاب فرما رہے تھے۔ آپ نے پوچھا: ”اے فلاں! کیا تو نے نماز پڑھی ہے؟“ اس نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ”کھڑے ہو کر نماز ادا کرو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:930]
حدیث حاشیہ: اس باب میں امام اور خطیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اگر کسی کو دیکھے کہ دوران خطبہ میں تحیۃ المسجد ادا کیے بغیر بیٹھ گیا ہے تو اسے دو رکعت نماز پڑھنے کا حکم دے۔ اس کی تفصیل ہم آئندہ باب میں بیان کریں گے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 930
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:931
931. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ایک شخص اس وقت آیا جب نبی ﷺ خطبہ ارشاد فر رہے تھے۔ آپ نے اس سے پوچھا: ”کیا تو نے نماز پڑھی ہے؟“ اس نے جواب دیا نہیں۔ تو آپ نے فرمایا: ”(کھڑے ہو کر) دو رکعتیں پڑھو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:931]
حدیث حاشیہ: (1) علامہ زین بن منیر ؒ مذکورہ عنوانات میں بایں الفاظ فرق بیان کرتے ہیں کہ پہلے عنوان میں آنے والے کو دو رکعت ادا کرنے کا حکم دینا اس بات سے مشروط ہے کہ امام اسے دوران خطبہ میں دیکھے اور اس سے پوچھے کہ تو نے نماز پڑھی ہے یا نہیں اور یہ سب معاملات خطیب کے ساتھ خاص ہیں۔ دوسرا عنوان مسجد میں آنے والے سے متعلق ہے کہ اسے چاہیے کہ دوران خطبہ میں دو رکعت پڑھ کر خطبہ سننے کے لیے بیٹھے۔ امام بخاری ؒ نے اپنے قائم کردہ عنوانات میں ان تمام باتوں کو ملحوظ رکھا ہے، حالانکہ دونوں میں حدیث ایک ہی بیان کی ہے، (فتح الباري: 530/2) نیز اس عنوان میں ہلکی پھلکی دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے جبکہ پیش کردہ حدیث میں اس قسم کی کوئی وضاحت نہیں ہے؟ اصل میں امام بخاری ؒ کی یہ عادت ہے کہ وہ عنوان کے ذریعے سے کسی ایسی حدیث کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں جو صحیح ہوتی ہے لیکن ان کی شرائط کے مطابق نہیں ہوتی، چنانچہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے ہلکی پھلکی دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا۔ (صحیح مسلم، الجمعة، حدیث: 2018 (875)(2) دوران خطبہ میں آنے والا شخص سلیک بن ہدیہ غطفانی تھا جیسا کہ صحیح مسلم کی روایات میں اس کی صراحت ہے۔ بعض روایات میں آنے والے کا نام نعمان بن نوفل بتایا گیا ہے لیکن محدثین نے اسے کسی راوی کا وہم قرار دیا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس دوران خطبہ میں حضرت ابوذر ؓ آئے تھے تو آپ نے انہیں دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ اس روایت میں ابن لبیعہ راوی نے ”دوران خطبہ میں“ کے الفاظ شاذ طور پر بیان کر دیے ہیں کیونکہ محفوظ الفاظ یہ ہیں کہ حضرت ابوذر ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس اس وقت آئے جبکہ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ قیس قبیلے کا ایک شخص آپ کے پاس آیا تھا۔ اس سے مراد بھی سلیک ہے کیونکہ قبیلۂ غطفان قیس کی ایک شاخ ہے۔ ابن بشکوال نے اس آدمی کا نام ابو ہدیہ لکھا ہے۔ اگر یہ الفاظ محفوظ ہیں تو ممکن ہے کہ سلیک ؓ کی کنیت ابو ہدیہ ہو۔ اتفاق سے اس کے باب کا نام بھی ہدیہ ہے۔ (فتح الباري: 524/2) واللہ أعلم(3) یہ احادیث اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ جمعہ کے دن دوران خطبہ میں اگر کوئی شخص آئے تو اسے دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھ کر بیٹھنا چاہیے لیکن فقہائے کوفہ نے بعض ضعیف روایات کا سہارا لے کر اس موقف کی تردید کی ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنا خطبہ بند کر دیا تھا۔ حافظ ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں ان تمام حیلوں بہانوں کا ذکر کیا ہے جن کے سہارے یہ حضرات اس سنت کا انکار کرتے ہیں، پھر دلائل و براہین سے محدثین کے موقف کو ثابت کیا ہے۔ یہ قابل قدر بحث، صفحہ 526 سے 529 تک پھیلی ہوئی ہے۔ ہم اس سلسلے میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ کا فیصلہ نقل کر کے اس بحث کو ختم کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: جب کوئی نمازی ایسے حالات میں آئے کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو اسے چاہیے کہ ہلکی پھلکی دو رکعتیں پڑھ کر بیٹھے تاکہ سنت راتبہ اور ادب خطبہ ہر دو کی رعایت ہو سکے۔ اور اس مسئلے کے متعلق تمہارے شہر کے لوگ جو شوروغوغا کرتے ہیں ان کے دھوکے میں نہیں آنا چاہیے کیونکہ اس مسئلے کے متعلق صحیح احادیث ہیں جن کی اتباع ضروری ہے۔ (حجة اللہ البالغة: 29/2، طبع المکتبة السلفیة، لاھور) مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ کا واقعہ بھی بیان کر دیا جائے جسے امام ترمذی ؒ نے بیان کیا ہے: عبداللہ بن ابی سرح بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابو سعید خدری ؓ جمعہ کے دن مسجد میں اس وقت آئے جب مروان بن حکم خطبہ دینے میں مصروف تھا۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو مروان کے سپاہی آئے اور آپ کو زبردستی نماز سے باز رکھنا چاہا مگر حضرت ابو سعید ؓ نے نماز توڑنے سے انکار کر دیا اور مکمل کر کے سلام پھیرا۔ نماز کے بعد ہم نے حضرت ابو سعید ؓ سے ملاقات کی اور عرض کیا کہ وہ سپاہی آپ پر حملہ آور ہونا ہی چاہتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میں بھی ان دو رکعات کو چھوڑنے والا نہیں تھا، خواہ سپاہی کچھ بھی کر گزرتے کیونکہ میں نے خود رسول اللہ ﷺ کو دیکھا ہے کہ آپ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے، ایک پراگندہ حال آدمی مسجد میں داخل ہوا، رسول اللہ ﷺ نے اسی حالت میں اسے دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا، وہ نماز پڑھتا رہا جبکہ رسول اللہ ﷺ خطبہ دینے میں مصروف رہے۔ (جامع الترمذي، الجمعة، حدیث: 511)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 931
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3087
3087. حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ میں ایک سفر میں نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھا۔ جب ہم مدینہ طیبہ آئے تو آپ نے مجھے فرمایا: "مسجد میں جاکر دو رکعتیں پڑھو۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:3087]
حدیث حاشیہ: 1۔ مذکورہ عنوان انھی الفاظ کے ساتھ کتاب الصلاۃ(باب: 59) میں گزرچکا ہے۔ وہاں اس حدیث کے الفاظ میں تھوڑا سافرق ہے۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سفر سے واپس آنے کےکے بعد نماز پڑھنا سنت ہے، نیز اپنے گھر جانے سے پہلے اللہ کے گھر سے ابتدا کرنی چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3087