ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے فتوی دیا“ اور سلیمان بن داود مہری کی روایت میں ہے جس کو بغیر علم کے فتوی دیا گیا۔ تو اس کا گناہ فتوی دینے والے پر ہو گا“۔ سلیمان مہری نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ جس نے اپنے بھائی کو کسی ایسے امر کا مشورہ دیا جس کے متعلق وہ یہ جانتا ہو کہ بھلائی اس کے علاوہ دوسرے میں ہے تو اس نے اس کے ساتھ خیانت کی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْعِلْمِ/حدیث: 3657]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابن ماجہ/المقدمة 8 (53)، (تحفة الأشراف: 14611)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/321، 365)، سنن الدارمی/المقدمة 20 (161) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (242) أخرجه ابن ماجه (53 وسنده حسن)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3657
فوائد ومسائل: فائدہ: جب عام معاملات میں بھلائی کے خلاف مشورہ دینا خیانت ہے۔ تو دینی اور شرعی مسائل میں غلط فتویٰ دینا یا راحج کی بجائے مرجوح بات بتانا تو بہت بڑی خیانت ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3657
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 242
´بغیر علم کے فتویٰ اور مشورہ دینے والے کا گناہ` «. . . وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَفْتَى بِغَيْرِ عِلْمٍ كَانَ إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ وَمَنْ أَشَارَ عَلَى أَخِيهِ بِأَمْرٍ يَعْلَمُ أَنَّ الرُّشْدَ فِي غَيْرِهِ فَقَدْ خانه» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد . . .» ”. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کو فتوی دیا گیا بغیر علم کے تو اس کا گناہ فتوی دینے والے پر ہو گا، اور جس نے مشورہ دیا اپنے بھائی کو ایسے کام کا کہ جانتا ہے کہ بھلائی اس کے غیر میں ہے تو اس نے خیانت کی، یعنی اس نے اپنے مسلمان کو غلط مشورہ دیا جس سے اس کو نقصان پہنچا اور یہ خیانت ہے۔“ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 242]
تحقیق الحدیث: اس کی سند حسن ہے۔ اسے حاکم اور ذہبی دونوں نے شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط پر صحیح کہا ہے۔!
فقہ الحدیث: ➊ لوگوں کی دو قسمیں ہیں: اول: وہ جو مسئلہ بتاتے ہیں یعنی علماء۔ دوم: وہ جو مسئلہ پوچھتے ہیں یعنی عوام۔ ➋ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دلیل (مثلاً قرآن، حدیث اور اجماع) یا دلیل نہ ہونے کی صورت میں ذاتی اجتہاد (مثلاً آثار سلف صالحین سے استدلال، عموم سے استدلال، صحیح قیاس اور دیگر اجتہادی دلائل) کے بغیر فتویٰ دینا جائز نہیں بلکہ غلط و ممنوع ہے۔ ➌ غلط فتویٰ دینے والا گناہ گار ہے اور اس فتوے کا وبال اسی پر ہے۔ ◄ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: «من أفتي بفتيا يعمي فيها فإنما إثمها عليه» ”جس نے ایسا فتویٰ دیا جس میں دھوکا دیا جاتا ہے تو اس کا گناہ اس فتویٰ دینے والے پر ہے۔“[جامع بيان العلم وفضله 2؍132 ح859 وسنده حسن، سنن الدارمي: 162] ➍ بغیر علم کے فتویٰ دینا ممنوع ہے، جیسا کہ نمبر ۱ میں بیان کر دیا گیا ہے۔ ➎ ہمیشہ کھلے دل سے بہترین مشورہ دینا چاہئے۔ ➏ حق چھپانا حرام ہے۔ ➐ مشورہ امانت ہے، لہٰذا جب کوئی مشورہ طلب کرے تو مفید مشورہ دینا چاہئیے۔ غلط اور خیر خواہی کے خلاف مشورہ دے کر خیانت کا مرتکب نہیں ہونا چاہئے۔
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 5
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا` ”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے میرے حوالے سے ایسی بات کی جو میں نے نہ کی ہو تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے“ . . .“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب العلم/حدیث: 5]
فوائد: ➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا کبیرہ گناہ ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [شرح حديث؛163] ➋ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا مشورہ ایک امانت ہے جس سے مشورہ طلب کیا جائے اس کو امانتداری کے ساتھ مشورہ دینا چاہیے۔ ایک حدیث میں ہے: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوالہیثم سے فرمایا: ” تمہارے پاس کوئی خادم ہے۔“ انہوں نے عرض کیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب ہمارے پاس کوئی قیدی آ جائیں تو ہمارے پاس آ جانا“(اس کے بعد) نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو قیدی لائے گئے۔ ابوالہیثم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان سے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ان دونوں میں سے چن لے“ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ میرے لیے چن دیجیے، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” بلاشبہ جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانتدار ہوتا ہے۔ اس (غلام) کو لے لو، میں نے اس کو نماز پڑھتے دیکھا ہے۔“[سلسله الصحيحه، رقم؛1641۔ ادب المفرد، رقم؛256] معلوم ہوا جس سے مشورہ طلب کیا جائے اس کو صحیح مشورہ دینا چاہیے اور ایسا مشورہ دینا چاہیے جو اس کی دنیا و آخرت کے لیے بہتر ہو۔
نبی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے صحابہ سے مشاورت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: «وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ»[3-آل عمران:159] ” آپ ان سے معاملات میں مشورہ کیا کریں۔“
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ: «وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ»[42-الشورى:38] ” ان کا (ہر) کام آپس کے مشورے سے ہوتا ہے۔“
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 6
´بلاتحقیق فتویٰ دینے کا گناہ` ”. . . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ”جس نے علم کے بغیر فتویٰ دیا تو اس کا گناہ اس فتوی دینے والے پر ہے۔“[مسند اسحاق بن راهويه/كتاب العلم/حدیث: 6]
فوائد مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا فتویٰ دینے میں احتیاط کرنی چاہیے اگر کسی سے مسئلہ پوچھا جائے اور وہ بغیر علم کے غلط فتویٰ دے دے۔ انجان آدمی اس کے فتویٰ پر عمل کر لے تو اس غلط عمل کرنے والے کا گناہ فتویٰ دینے والے کو ہو گا۔
علماء ماہرین نے فرمایا ہے کہ «لَا اَدرِي» یعنی ”میں نہیں جانتا“ یہ کہہ دینا بھی علم کی بات ہے یا نصف علم ہے، جبکہ آخرت کی مسئولیت بڑی سخت ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ”فتویٰ دینا اقلیم علم کی حقیقی بادشاہت ہے اور علم کے بغیر فتویٰ دینا انتہائی قابل مذمت اور لائق نفرت ہے۔“[فتح الباري؛ 1/236]
علامہ ابن خلدہ نے امام ربیع کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا: اے ربیع! آپ لوگوں کو فتویٰ دیتے ہیں آپ کے پیش نظر سائل کو سہولت دینا نہیں ہونا چاہیے، بلکہ آپ کو اپنی نجات کی فکر ہونی چاہیے کہ میں اس مسئلہ کے بھنور سے کیسے خلاصی حاصل کروں۔ [الفقيه والمتفقه؛2/357]
مسند اسحاق بن راھویہ، حدیث/صفحہ نمبر: 6
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث53
´رائے اور قیاس سے اجتناب و پرہیز۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے (بغیر تحقیق کے) کوئی غلط فتویٰ دیا گیا (اور اس نے اس پر عمل کیا) تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہو گا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 53]
اردو حاشہ: (1) عام آدمی کا فرض ہے کہ وہ علماء سے مسئلہ دریافت کرے اور علماء کو چاہیے کہ قرآن و حدیث کے دلائل کی روشنی میں جواب دیں۔
(2) بغیر دلیل کے محض عقل کی روشنی میں فتویٰ دینا گناہ ہے کیونکہ سائل کا اعتماد عالم پر ہوتا ہے، اگر وہ غلط فتویٰ دے گا تو سائل کی غلطی کی ذمہ داری عالم پر ہو گی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 53
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1200
1200- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات منسوب کرے گا وہ جہنم میں اپنی مخصوص جگہ پر پہنچنے کے لیے تیار ہو جائے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1200]
فائدہ: اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کی مذمت وارد ہوئی ہے، نیز دیکھیے ماقبل حدیث کی شرح۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ: ´باب وجوب دخول النار من نسب شيئا الى المصطفى صلی اللہ علیہ وسلم وهو لا يعرف صحته` (اس شخص کے جہنم میں داخل ہونے کے وجوب کا بیان جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی بات منسوب کی اور وہ اس کی صحت کو بھی نہیں پہچانتا)۔ (صحیح ابن حبان) یہاں سے معلوم ہوا کہ حدیث کو بیان کرنے سے پہلے اس کی تحقیق کرنا فرض ہے، افسوس موجودہ دور میں اکثر مبلغین و مدرسین اور مصنفین علم جرح و تعدیل، علم علوم حدیث اور فن تخریج وتحقیق سے ناواقف ہیں، جو آدمی ان فنون سے نا واقف ہے، اس کے پاس کسی حدیث کی تحقیق کرنے کا فن ہی نہیں ہے، تو وہ کیونکرمنبر ومہراب کا وارث بنا ہوا ہے، اسے تو جہنم سے ڈرنا چاہیے، اور علوم دینیہ میں زبردست مہارت حاصل کرنی چاہیے، کہ کہیں وہ جھوٹی روایات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب نہ کر بیٹھے کیونکہ یہ کبیرہ گناہ ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1198